امریکہ حماس کو غیر مسلح کرنیکی کوشش کر رہا ہے، صیہونی ذرائع ابلاغ
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
اسرائیلی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ تل ابیب حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حوالے سے بوہلر، صدر ٹرمپ اور امریکی خصوصی ایلچی وٹ کوف کے درمیان ہم آہنگی سے لاعلم ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی میڈیا آؤٹ لیٹ نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حماس کا غیر مسلح کروانے کی کوشش امریکہ کے خصوصی ایلچی اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات کا بنیادی موضوع تھے۔ عبری اخبار نے اس حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حماس کے ہتھیار اور قیدیوں کے امور امریکی ایلچی ایڈم بوہلر اور حماس کے درمیان براہ راست مذاکرات کا مرکزی محور تھا۔ عربی میڈیا آؤٹ لیٹس میں شائع ہونے والی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے عبرانی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے نمائندے ایسے وسیع البنیاد معاہدے پر بات چیت کے لئے تیار ہیں جس میں ایک مکمل اور جامع پیکج شامل ہو۔
عبری ذرائع کے مطابق حماس نے ان جزوی چیزوں کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے جو بوہلر پہلی ملاقات میں اپنے ساتھ لائے تھے، اور اس کے بجائے ایک مکمل پیکج کی تجویز پیش کی جس میں غزہ اور مغربی کنارے میں 10 سال سے زیادہ کی طویل مدتی جنگ بندی شامل تھی، جب کہ یروشلم کی حیثیت برقرار رکھنے کی شرط بھی شامل ہے۔ صییونی ذرائع ابلاغ نے اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ تل ابیب ایڈم بوہلر کے غیر مربوط رویے سے پریشان تھا اور اس لیے واشنگٹن کو پیغام بھیجا گیا تھا کہ اس حوالے سے دونوں فریقوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا کی جائے، امریکی نمائندے نے حماس کے ساتھ براہ راست بات چیت کے حوالے سے اسرائیل کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔
دوسری جانب امریکی ذرائع نے بتایا تھا کہ حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات صرف ایک بار ہوئے ہیں اور یہ مزید جاری نہیں رہیں گے۔ اسرائیلی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ تل ابیب حماس کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حوالے سے بوہلر، صدر ٹرمپ اور امریکی خصوصی ایلچی وٹ کوف کے درمیان ہم آہنگی سے لاعلم ہے۔ اسرائیلی ذرائع نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ امریکی صدر اور ان کے خصوصی ایلچی سے جو کچھ سن رہے ہیں اس پر اعتماد کرتے ہیں لیکن ان کے ساتھ مکمل ہم آہنگی جاری رکھنے کے منتظر ہیں۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق اس طرح کے مذاکرات کے کامیاب ہونے کے زیادہ امکانات نہیں ہیں، کیونکہ حماس نے ان تجاویز کی مخالف ہے، جو معاہدے کے اگلے مرحلے کے لیے پیشگی شرائط طے کرتی ہیں۔
اس حوالے سے تل ابیب واضح طور پر یہ بھی کہہ رہا ہے کہ مذاکرات کیساتھ کیساتھ غزہ کی پٹی میں جنگ کے لیے تیار کیے گئے فوجی منصوبے بھی موجود ہیں، اسرائیلی حکام نے اس بات پر بھی بات کی ہے کہ ایسے جنگی منصوبوں کا مناسب وقت کا اعلان کیا جائے گا۔ رپورٹ کے ایک اور حصے میں بتایا گیا ہے کہ حماس نے بوبلر کے ساتھ اپنی ملاقات میں طویل مدتی جنگ بندی کے بدلے میں اپنے مہلک جارحانہ ہتھیاروں، بشمول میزائلوں کی تیاری کا اسرنو جائزہ لینے کا عندیہ بھی دے رکھا ہے۔ تاہم حماس نے بوبلر کو واضح کیا ہے کہ وہ مکمل طور پر غیر مسلح نہیں ہونگے، یہ ایک اٹل پالیسی ہے، حماس کی قیادت میں تبدیلی کی صورت میں بھی اس پالیسی میں تبدیلی کا امکان نہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حماس کے ساتھ براہ راست براہ راست مذاکرات اسرائیلی ذرائع خصوصی ایلچی کے درمیان حوالے سے ہم آہنگی تل ابیب کہ حماس یہ بھی کیا ہے
پڑھیں:
غزہ جنگ کے خلاف احتجاج پر امریکہ میں قید خلیل، نومولود بیٹے کو نہ دیکھ سکے
اسرائیل کی ڈیڑھ سال سے زائد عرصے سے غزہ میں جاری جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کرنے پر امریکی جیل میں قید محمود خلیل اپنے بیٹے کی ولادت کے موقع پر بھی جیل سے باہر آ کرنومولود کو نہ دیکھ سکے۔
اسرائیلی جنگ کی مخالفت اور فلسطینیوں کی حمایت کے لیے احتجاج کو امریکی صدر کے مشیران یہود دشمنی قرار دیتے ہیں۔ تاہم احتجاج کرنے والے فلسطینی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
امریکہ کے علاوہ یورپی ملکوں میں بھی اسرائیل کی غزہ جنگ کی مخالفت اور فلسطینی بچوں اور عورتوں کی ہزاروں کی تعداد میں ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کو یہود دشمنی ہی قرار دیا جاتا ہے۔
ادھر اسرائیل بھی ایسے احتجاج پر ناپسندیدگی ظاہر کرتا ہے جس میں کوئی احتجاجی غزہ کے ہلاک شدہ فلسطینی بچوں کی تصاویر اٹھا کر لانے کی کوشش کرتا ہے۔
محمود خلیل کو بھی فلسطینیوں کے لیے آواز اٹھانے کے اسی جرم میں امریکی امیگریشن حکام نے آٹھ مارچ سے حراست میں لے رکھا ہے۔ امریکی حکام اس کے باوجود محمود خلیل کو امریکہ سے ڈی پورٹ کرنے کا فیصلہ کیے ہوئے ہیں کہ محمود خلیل کی اہلیہ نور عبداللہ امریکی شہری ہیں اور اپنی اہلیہ کی وجہ سے وہ امریکہ میں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔
ان کی اہلیہ نور عبداللہ نے پیر کے روز بتایا ہے کہ امریکہ کے متعلقہ حکام نے بیٹے کی پیدائش کے موقع پر محمود خلیل کو عارضی طور پر رہا کرنے سے بھی انکار کر دیا کہ وہ اپنے نومولود بیٹے کو دیکھ سکتے ۔
خلیل نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف امریکہ میں احتجاج کرنے والوں میں نمایاں رہے ہیں۔ نور عبداللہ کے مطابق ‘آئی سی ای’ نامی ادارے نے ان کے شوہر کو اپنے خاندان کے لیے اس اہم موقع پر بھی عارضی رہائی دینے سے انکار کر دیا ہے۔
نور عبداللہ نے اس انکار پر اپنے بیان میں کہا’ آئی سی ای’ نے عارضی رہائی سے انکار کر کے مجھے ، محمود اور ہمارے نومولود کو سوچ سمجھ کر اذیت میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس وجہ سے میرے نومولود بیٹے نے دنیا میں آنے کے بعد پہلا دن ہی اپنے والد کے بغیر دیکھا۔ میرے لیے بھی یہ بہت تکلیف دہ صورت حال ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ہم سے یہ ہمارے قیمتی اور خوبصورت لمحات چھین لیے ہیں۔ تاکہ محمود کو فلسطینیوں کی آزادی کی حمایت کرنے سے خاموش کرا سکیں۔
یاد رہے خلیل کی اہلیہ نے بچے کو نیو یارک میں جنم دیا ہے جبکہ خلیل کو نیو یارک سے ایک اور امریکی ریاست میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ تاکہ انہیں اس جج کی عدالت میں پیش کرنا ممکن ہو سکے جو ٹرمپ کی حالیہ کریک ڈاؤن پالیسی کا حامی ہو۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نےحال ہی میں ایک بیان میں کہا تھا کہ 1950 کے قانون کے تحت امریکہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس غیر ملکی کو ڈی پورٹ کر دے جو امریکی خارجہ پالیسی سے اختلاف رکھتا ہو۔ تاہم روبیو نے یہ بھی کہا امریکہ میں اظہار رائے کی پوری آزادی ہے
Post Views: 1