آئی ایم ایف بجلی کی قیمتوں میں کمی پر راضی
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
بجلی نرخوں میں کمی پرعالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) نےگرین سگنل دے دیا ہے۔ذرائع کے مطابق نیپرا اور وزارت توانائی کو مشاورت کےساتھ فیصلہ کرنےکااختیار دے دیا گیا، جبکہ بجلی کی قیمت میں فی یونٹ 1 سے 2 روپےتک کمی کی جاسکتی ہے.قیمتوں میں کمی کاحتمی فیصلہ آئندہ ماہ ہوسکےگا۔عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیز کی ناقص کارکردگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈسکوز کی ناقص کارکردگی دور کیے بغیر بہتری نہیں لائی جاسکتی۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے آئیسکو، فیسکو، گیپکو کی نجکاری کے لیے نومبر 2025 تک کا پلان شیئر کیاگیا۔مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ نجکاری سے قبل ٹیرف، بیلنس شیٹ کو کلیئر کیاجائےگا، نجکاری سے قبل ڈسکوز کےلیے 17پیشگی اقدامات کومکمل کیاجائےگا، جبکہ سیکنڈ فیز میں میپکو، لیسکو اور حیسکوکی نجکاری کی جائےگی، اس کے علاوہ نیپرا ایکٹ میں ترمیم کی خلاف ورزی پر بھی آئی ایم ایف نے تشویش کا اظہار کیا۔ ایگریکلچر انکم ٹیکس پر عالمی بینک اور آئی ایم ایف وفد کا سیشن آج متوقع ہے، جبکہ گورننس پرمذاکرات کے لیے عید کے بعد آئی ایم ایف کاایک اوروفدآسکتاہے۔ذرائع کے مطابق آج ایف بی آر، ایگریکلچر انکم ٹیکس، پراپرٹی سیکٹر ٹیکس پر بات چیت ہوگی، جبکہ ساورن ویلتھ فنڈ اور گردشی قرضہ کنٹرول کرنے پر اہم مذاکرات آج ہوں گے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف
پڑھیں:
وفاقی بجٹ 2025: معاشی استحکام یا عوامی مشکلات کا نیا دور؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جون 2025ء) ماہرین کے مطابق یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا، جب اس سے ایک روز قبل جاری ہونے والا اقتصادی سروے معیشت کی مایوس کن تصویر پیش کرتا ہے۔ مسلسل تیسرے سال معاشی اہداف حاصل نہ ہونے اور صرف 2.7 فیصد شرح نمو کے ساتھ، بجٹ میں سرکاری اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں کی سختی پر زور دیا گیا ہے، جبکہ افراطِ زر کا ہدف 7.5 فیصد مقرر کیا گیا۔
ماہرین کی تشویشماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ یہ بجٹ معیشت اور عام آدمی کے لیے نقصان دہ ہے۔ ان کے مطابق تنخواہوں میں معمولی اضافہ اور چند ٹیکسوں میں کمی مثبت فیصلے ہیں لیکن غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد، جو نہ تنخواہ دار ہیں اور نہ ٹیکس دہندگان، اس سے مستفید نہیں ہوں گے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے، ''جس کے پاس آمدنی نہیں، وہ 20 روپے کی روٹی 10 روپے میں بھی کیسے خریدے گا؟‘‘
دوسری جانب ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اعجاز نبی نے بجٹ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی حمایت سے معاشی استحکام کا باعث بنے گا۔ ان کے مطابق حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے بعد پاکستان کا عالمی امیج بہتر ہوا ہے اور یہ بجٹ معاشی اصلاحات کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور اصلاحات کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ بجٹ کی منفرد حیثیت؟سینئر تجزیہ کار ثقلین امام کے مطابق یہ بجٹ ماضی کے بجٹوں سے مختلف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت تیار کردہ یہ بجٹ عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں دیتا، ''ملک کی 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔
پنجاب میں 30 فیصد، سندھ میں 45 فیصد، خیبر پختونخوا میں 48 فیصد اور بلوچستان میں 70 فیصد غربت ہے۔ حکومت بتائے کہ اس بجٹ میں ان غریبوں کے لیے کیا ہے؟‘‘انہوں نے مزید کہا کہ بجٹ کا 51 فیصد حصہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے اور دیرپا معاشی حکمت عملی کا فقدان ہے۔ ان کے خیال میں کم از کم اجرت کو دگنا کرنا چاہیے۔
حکومتی موقف اور تنقیدپاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کہا کہ مالی گنجائش کے مطابق ریلیف دیا گیا ہے اور کچھ اخراجات ملکی ضروریات کے تحت بڑھائے گئے ہیں۔
تاہم ماہر اقتصادیات ڈاکٹر اصغر زیدی نے بجٹ کو ''مخلوط‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹیرف میں بہتری جیسے کچھ مثبت اقدامات ہیں لیکن یہ معاشی اصلاحات لانے میں ناکام رہا۔ثقلین امام نے دفاعی اخراجات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ دفاع ضروری ہے لیکن ترجیحات کو درست کرنے کی ضرورت ہے، ''اگر ملک دفاع کرتے کرتے دیوالیہ ہو جائے تو کیا فائدہ؟‘‘
ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا کہ پاک-بھارت کشیدگی میں پاکستان نے کم طیاروں سے بھارت کو شکست دی، جو ''کوانٹیٹیو کے بجائے کوالیٹیٹیو‘‘ دفاع کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے بجٹ کے اعداد و شمار پر بھی سوال اٹھایا، خاص طور پر منفی مینوفیکچرنگ اور کم امپورٹس کے باوجود سیلز ٹیکس کی بلند شرح نمو کو مشکوک قرار دیا۔ عوامی مسائلماہر اقتصادیات خالد رسول نے کہا کہ گرین پاکستان اور ماحول دوست گاڑیوں کے فروغ کے نام پر چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے سے قیمتیں بڑھیں گی، جو عام آدمی کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا۔ ایک چھوٹے کاروبار سے وابستہ خاتون اقرا نے بتایا کہ آن لائن کاروبار پر ٹیکس سے نوجوان کاروباریوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
ماہرین کے مطابق بجٹ 2025 معاشی استحکام کے دعووں کے باوجود غربت، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔