خواتین کی صورتحال پر دنیا کا سب سے بڑا اجتماع، صنفی عدم مساوات پر تشویش
اشاعت کی تاریخ: 11th, March 2025 GMT
خواتین کی صورتحال پر اقوام متحدہ کے کمیشن کا 69 واں اجلاس نیویارک میں شروع ہو گیا ہے جس کے افتتاحی روز مقررین کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کو خطرہ لاحق ہے جن کے فروغ و تحفظ اور صنفی مساوات قائم کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔
دنیا میں پدر شاہی کا زہریلا پن واضح دکھائی دیتا ہے، یواین جنرل سیکریٹریاقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے اجلاس کے افتتاحی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا میں پدر شاہی کا زہریلا پن واضح دکھائی دیتا ہے جبکہ خواتین کے حقوق پر قدغن ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غیر ملکی خاتون سیاح کا گینگ ریپ: بھارت خواتین کے لیے غیرمحفوظ ملک بن گیا
انہوں نے کہا کہ خواتین سے نفرت کرنے والے طاقت پکڑ رہے ہیں اور آن لائن دنیا میں انہیں کو نفرت انگیز بیانیے کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں ‘مستقبل کے معاہدے’ جیسے اقدامات اٹھانا ضروری ہیں جس میں خواتین کے حقوق یقینی بنانے اور صنفی مساوات قائم کرنے کے وعدے کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم پر سرمایہ کاری، خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشددد کو روکنے، خواتین کے اداروں اور حقوق کے محافظوں کو مدد دینے، ٹیکنالوجی میں خواتین کے قائدانہ کردار کی حوصلہ افزائی اور سیاست سے امن کاری تک تمام شعبوں میں ان کی مکمل شرکت یقینی بنانے کی کوششیں تبدیلی لانے میں مدد دے سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کے عالمی دن پر ملک کے مختلف شہروں میں تقریبات، ریلیاں، مردوں کی بھی شرکت
ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق کو درپیش خطرات کے ہوتے ہوئے سبھی کو بیجنگ اعلامیے پر عملدرآمد اور دنیا کی ہر خاتون اور لڑکی کے لیے حقوق، مساوات اور بااختیاری کو حقیقت بنانے کا نیا عہد کرنا ہو گا۔
جدوجہد جاری رکھنے کا عزماقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین (یو این ویمن) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین سے نفرت تقویت پا رہی ہے جبکہ دنیا بھر میں جاری بہت سے بحرانوں اور تنازعات سے خواتین اور لڑکیاں ہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ اگرچہ خواتین کے حقوق کے فروغ و تحفظ کے ضمن میں بہت سی پیش رفت بھی ہوئی ہے لیکن ابھی اس سمت میں بہت سا کام باقی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کا عالمی دن: وزیراعظم نے گھریلو صنعت سے منسلک کاروباری خواتین کو خوشخبری سنادی
انہوں نے کہا کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات کو بہتر بنانے کی غرض سے ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنا، غربت کے خاتمے پر سرمایہ کاری اور خواتین کے خلاف تشدد کے سلسلے کو ختم کرنے کے قوانین مضبوط بنانا بہت ضروری ہے۔
سیما بحوث نے اہم فیصلہ سازی اور قیام امن کے کام میں خواتین کی شرکت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ خواتین اور لڑکیاں مشکلات سے خوفزدہ نہیں ہیں اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔
فیصلہ کن موڑاس موقع پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کے لیے اب تک حاصل ہونے والی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مستقبل کے مسائل سے خبردار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ بیجنگ اعلامیے کی منظوری کے بعد تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم صنفی مساوات کے حصول کی راہ میں اب بھی منظم رکاوٹیں حائل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد پولیس میں خواتین کا کردار مردوں سے کم نہیں، آئی جی اسلام آباد کا عالمی یوم خواتین پر پیغام
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے جو مسائل درپیش ہیں ان پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مزید سیاسی اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے۔ کام کی موجودہ رفتار کو دیکھا جائے تو خواتین کو غربت سے نکالنے میں 137 برس لگیں گے اور نوعمری کی شادی کا خاتمہ کرنے میں 68 سال درکار ہوں گے۔
فائلیمن یانگ نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بیجنگ اعلامیے کے وعدوں پر مکمل عملدرآمد کرے اور ایسا مستقبل تعمیر کیا جائے جس میں تمام خواتین اور لڑکیوں کو مردوں کے مساوی حقوق اور مواقع میسر ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دنیا فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے اور موقع سے فائدہ اٹھایا جائے تو صنفی مساوات کا حصول ممکن ہے۔
اجلاس کے مقاصدکمیشن کا یہ اجلاس 21 مارچ تک جاری رہے گا جس میں خواتین کے حقوق کے تحفظ، ان کی زندگیوں کے حقائق کو سامنے لانے، صنفی مساوات اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے عالمگیر ضوابط کی تشکیل کے حوالے سے گفت و شنید ہو گی۔ گزشتہ سال اس اجلاس میں دنیا کے 100 رہنماؤں اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے 4,800 لوگوں نے حصہ لیا تھا۔
رواں اجلاس میں جنرل اسمبلی کے 23ویں خصوصی اجلاس کے نتائج اور 1995 میں منظور کردہ بیجنگ اعلامیے اور پلیٹ فارم فار ایکشن پر عملدرآمد کا جائزہ بھی لیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اقوام متحدہ انتونیو گوتیرش خواتین سیما بحوث نیویارک یو این ویمن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ خواتین نیویارک یو این ویمن ان کا کہنا تھا کہ خواتین کے حقوق بیجنگ اعلامیے اقوام متحدہ خواتین اور میں خواتین کہ خواتین کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
طالبان، لوٹنے والے افغان شہریوں کے ’حقوق کی خلاف ورزیاں‘ کر رہے ہیں، اقوام متحدہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جولائی 2025ء) ایران اور پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کی ملک بدری کی مہم شروع کی گئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں افغانوں کو افغانستان واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ رواں برس یعنی 2025ء میں اب تک 1.9 ملین سے زائد افراد افغان باشندے اپنے ملک لوٹے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ایران سے لوٹنے والے افغان باشندے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے رپورٹ کا اجراءرپورٹ کے اجراء کے ساتھ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ملک واپس آنے والے افراد میں خواتین اور لڑکیاں، سابق حکومت اور اس کی سکیورٹی فورسز سے وابستہ افراد، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔
(جاری ہے)
پاکستان سے بے دخل ہونے والے افغان باشندے واپسی کے خواہاں
پاکستان، افغان مہاجرین کے انخلا کے معاشی اثرات
ان خلاف ورزیوں میں تشدد اور بدسلوکی، من مانی گرفتاری اور حراست اور ذاتی سلامتی کو خطرات شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) نے حال ہی میں اندازہ لگایا تھا کہ 2025 ء میں 30 لاکھ افراد افغانستان واپس جا سکتے ہیں۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی یہ رپورٹ واپس آنے والے 49 افغانوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانوں کے خلاف ان کی مخصوص پروفائل کی بنیاد پر خلاف ورزیاں کی گئی ہیں جن میں خواتین، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی کے ارکان کے ساتھ ساتھ اگست 2021ء میں ختم ہونے والی سابق حکومت سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔
طالبان حکومت نے اس سے قبل واپس لوٹنے والے ایسے افغان باشندوں کے ساتھ بدسلوکی کے الزامات کی تردید کی تھی اور طالبان کی شورش کے خلاف دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران نیٹو افواج اور سابق حکومت کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف عام معافی کا اعلان کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے رواں ماہ کے اوائل میں ایک بیان میں کہا تھا، '' کسی کو بھی ایسے ملک میں واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ذاتی تاریخ کی وجہ سے ظلم و ستم کا سامنا ہو۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''افغانستان میں، یہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے اور بھی زیادہ واضح ہے، جنہیں ایسے متعدد اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو صرف ان کی جنس کی بنیاد پر ظلم و ستم کے مترادف ہیں۔‘‘
طالبان کی طرف سے خواتین کے خلاف 'امتیازی‘ سلوکگزشتہ چار برسوں کے دوران طالبان حکامکی جانب سے خواتین کو عوامی زندگی سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔
طالبان نے خواتین کے لیے یونیورسٹیوں، عوامی پارکوں، جم اور بیوٹی سیلونوں میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جسے اقوام متحدہ نے 'صنفی امتیاز‘ قرار دیا ہے۔طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ اسلامی قانون کی ان کی تشریح ہر ایک کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے اور امتیازی سلوک کے الزامات 'بے بنیاد‘ ہیں۔
روس وہ واحد ملک ہے جس نے 2021ء میں ملک سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہے۔
دیگر ممالک کی طرف سے بھی افغان شہریوں کی ملک بدریہمسایہ ملک تاجکستان نے اسلام آباد اور تہران کی مثال کی پیروی کرتے ہوئے افغانوں کو ملک بدر کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے۔
یو این ایچ سی آر نے اے ایف پی کو بتایا کہ آٹھ جولائی سے اب تک کم از کم 377 افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔
جرمنی نے گزشتہ ہفتے جرائم کا ارتکاب کرنے والے 81 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا تھا اور امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ ہزاروں افغانوں کی عارضی حفاظت کا درجہ ختم کر دے گا۔
اقوام متحدہ کے مطابق وطن واپس لوٹنے والوں کی تعداد میں حالیہ اضافے نے 'کثیر سطحی انسانی حقوق کا بحران‘ پیدا کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے گزشتہ ہفتے جبری واپسی کو 'فوری طور پر روکنے‘ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
ادارت: کشور مصطفیٰ