آجکل پاکستان میں نئی نہروں کی تعمیر کے حوالے سے کافی سیاست ہو رہی ہے۔ ان نہروں کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا شروع کیا جا چکا ہے۔ پیپلزپارٹی بھی اس پراپیگنڈے کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہوتی نظرا ٓرہی ہے۔ صدر آصف زرداری نے نئے پارلیمانی سال کے آغاز کے موقع پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب کے دوران اس جانب اشارہ کیا، تا ہم انھوں نے برا ہ راست بات نہیں کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وفاق کے کچھ فیصلے اسے کمزور کر رہے ہیں۔ زیادہ تر افراد کی یہی رائے ہے کہ ان کا اشارہ نئی نہروں کی طرف تھا۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ نئی نہروں کے سندھ کے پانی کے حصے پر اثرات ہو ںگے۔ ایسے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سندھ کے حصے کا پانی پنجاب میں استعمال کیا جائے گا، یوںسندھ کو اس کے پانی کے حصے سے محروم کر دیا جائے گا، جس سے ہرے بھرے کھیت بنجر زمین میں تبدیل ہو جائیں گے۔
میری رائے میں حکومت اصل حقائق اور صورتحال عوام کے سامنے رکھنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ کوئی محاذ آرائی نہیں چاہ رہی ہوگی۔ لیکن عوام کے سامنے یک طرفہ موقف آرہا ہے۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کہیں یہ نہریں بھی سیاست کی نذر نہ ہوجائیں، اس لیے دوسرا موقف اور حقائق بھی عوام کے سامنے آنا ضروری ہے۔
سب سے پہلے اس کینال کی بات کرتے ہیں جس کے بارے میں جا رہا ہے کہ یہ جنوبی پنجاب میں چولستان میں پائیدار زراعت کی لائف لائن ثابت ہو گی۔ اسے محفوظ شہید کینال یا چولستان کینال بھی کہا جاتا ہے، یہ پاکستان کے اس وسیع نہری نظام کا حصہ ہے، جو دریائے چناب اور جہلم کے پانی کی تقسیم کو منظم کرتا ہے۔
یہ نظام دریائے سندھ سے پانی نہیں لیتا، لہٰذا اس نہر سے سندھ کے حصے کے پانی پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس کا این او سی مشترکہ مفادات کونسل کے تحت قائم آئینی ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (IRSA) نے جاری کیا ہے، جس میں تمام صوبوں کے نمایندے شامل ہیں۔ اس طرح IRSAاور دیگر متعلقہ فریقین کے درمیان مکمل وضاحت موجود ہے کہ اس منصوبے کے لیے تمام ضروری تقاضے پورے کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت چار ماہ تک سیلاب کا فالتو پانی اور دو ماہ تک پنجاب کے مختص شدہ حصے سے پانی حاصل کیا جائے گا، جو 1991کے پانی کی تقسیم معاہدے کے عین مطابق ہے۔
میری معلومات کے مطابق کہ محفوظ شہید کینال یا چولستان کینال 2018کی قومی آبی پالیسی اور ماحولیاتی پالیسی کے مطابق ہے اور اس میں ہائی ایفیشنسی ایریگیشن سسٹم (HEIS) کا استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ پانی کی کھپت کو کم کیا جا سکے۔ اس نہر اور اس کے تقسیم کار نیٹ ورک کو کنکریٹ لائننگ کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جا سکے اور پانی کا بہترین استعمال ممکن بنایا جا سکے۔
2027 میں مہمند ڈیم اور 2029 میں دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل کے بعد 7.
چولستان کنال نہر 12 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو قابل کاشت بنانے میں مدد دے گی، جس سے ملک بھر کے لیے خوراک کی پیداوار میں اضافہ، روزگار کے مواقع میں بہتری، حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) کا فروغ اور صحرائی زمینوں کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔ بھارت میں راجستھان کے صحرا میں اندرا نہر کے ذریعے گرین ریولیوشن ایک نمایاں مثال ہے۔ آج راجستھان کا بھارتی معیشت میں حصہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بنجر زمین کو زرخیز بنایا جا سکتا ہے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے تیزی سے مکمل کیے جا رہے ہیں۔مہمند ڈیم اور دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل کے بعد، کوٹری بیراج کے نیچے چھوڑے جانے والے پانی کی مقدار ماحولیاتی توازن کے کم از کم تقاضوں سے تجاوز کر جائے گی۔ ماہرین کا موقف ہے کہ محفوظ شہید کینال کسی بھی طرح دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کوٹری ڈاؤن اسٹریم کو متاثر نہیں کرے گی۔
یہ کینال دریائے سندھ سے نہیں بلکہ دریائے ستلج سے پانی لے گی۔ یہ 176 کلومیٹر طویل نہر سلیمانکی ہیڈورکس سے فورٹ عباس تک تعمیر کی جا رہی ہے، اور اس کا سندھ کے پانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہ صرف ایک نہر ہے، چھ نہریں نہیں ہیں۔ یہ مکمل طور پر پنجاب حکومت کا منصوبہ ہے، جسے پنجاب کے Annual Development Program (ADP) کے ذریعے مکمل کیا جا رہا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ کافی عرصے سے پاکستان کے کنال سسٹم کی مرمت نہ ہونے کی وجہ سے کافی جگہوں پر پانی کے بہاؤ میں مشکلات آتی ہیں۔ نہری نظام میں بہتری کے لیے منڈی بہاو الدین سے شروع رسول قادر آباد لنک کینال، قادر آباد، بلو کی لنک کینال اور بلوکی سلیمانکی لنک کینال کی مرمت کی جائے گی تاکہ سلیمانکی ہیڈ ورکس تک پانی کے بہاؤ کو یقینی بنایا جاسکے۔
بھارت نے 2005 میں راجستھان میں صحرائی علاقے کو زرخیز بنانے 650 کلومیٹر طویل اندرا کینال بنا کر اپنے بنجر علاقوں کوزرخیز بنایا، جب کہ پاکستان میں سیاسی اختلافات کی وجہ سے کئی اہم آبی منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ اگر ہم نے وقت پر اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو مستقبل میں فوڈسیکیورٹی کاسنگین بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محفوظ شہید کینال رہا ہے کہ جا رہا ہے ا رہا ہے جائے گا سندھ کے پانی کی پانی کے کے پانی کے لیے کیا جا کے حصے
پڑھیں:
سیلابی صورتحال:پنجاب کے علاقوں سے پانی اُترنا شروع ، سندھ کے بیراجوں پر دباؤ بڑھنے لگا، کچا ڈوب گیا
ویب ڈیسک: پنجاب کے کئی سیلاب متاثرہ علاقوں میں پانی اترنے لگا ہے لیکن کچھ علاقوں اب تک کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہے جبکہ سندھ کے بیراجوں پر پانی کا دباؤ بڑھنے لگا ہے، کچے کا وسیع علاقہ ڈوب چکا ہے، کئی دیہات سے زمینی رابطے منقطع ہو گئے۔
پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں سے پانی اُترنا شروع ہو گیا ہے، لوگ واپس اپنے گھروں کو جانے لگے جبکہ متاثرین نقصانات کے ازالے کے لیے حکومتی امداد کے منتظر ہیں۔
پاکستان میں مشرق ڈیجیٹل بینک کا آغاز، امارات سے پاکستانی مفت ترسیلات زر بھیج سکیں گے
سرگودھا کی تحصیل کوٹ مومن کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں سکولوں کی تعطیلات میں مزید 3 دن کی توسیع کر دی گئی۔
ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ فیصلہ سیلاب ایمرجنسی اور بحالی کے کام کے پیش نظر کیا گیا، سیلاب سے متاثرہ 41 موضع جات کے 22سرکاری سکول بند رہیں گے، نجی سکول بھی بند رہیں گے
احمد پور شرقیہ اور اوچ شریف میں سیلابی صورتحال برقرار ہے، متاثرہ علاقوں میں اب بھی 6 سے 8 فٹ تک پانی موجود ہے۔
کویتی شہریت سے محروم افراد کے لیے بڑی خوشخبری
مکھن بیلہ ، بکھری سرور آباد ، چناب رسول پور ، اسماعیل پور ، بھنڈہ وینس سمیت متعدد آبادیوں کے متاثرین امداد کے منتظر ہیں، مچھروں کی بہتات سے ملیریا، گیسٹرو سمیت دیگر وبائی امراض پھیلنے لگی ہیں۔
احمد پور شرقیہ کے 15 سے زائد موضع جات میں میڈیکل کیمپ موجود نہیں۔
پاکپتن میں بابا فرید پل پر ستلج کا 75 ہزار کیوسک کا ریلا گزر رہا ہے ، سیلابی پانی سے گائوں سوڈا رحمانی مکمل تباہ ہو گیا، گھر اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں دریا برد ہو گئیں، متاثرین کی بحالی کیلئے ضلعی انتظامیہ متحرک ہے، راشن تقسیم کیا جا رہا ہے۔
گوجرانوالہ میں فوڈ پوائزننگ سے ایک اور بچی جاں بحق، تعداد 4 ہوگئی
بہاولنگر کی دریائی پٹی میں 30 سے زائد دیہات کے راستے تاحال منقطع ہیں، ایک لاکھ 40 ہزار ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
ہیڈ سلیمانکی ہیڈ ورکس پر پانی کی آمد84ہزار 449 کیوسک اور اخراج 73ہزار42 کیوسک ریکارڈ کیا گیا، موضع توگیرہ ،موضع عاکوکا اور موضع یاسین کا میں رابطہ سڑکیں سیلاب میں بہہ گئیں۔
ریسکیو 1122 کے ترجمان نے بتایا کہ وہاڑی کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں انخلا کے لیے 25 ریسکیو ٹیمیں متحرک ہیں، ٹیموں نے 9627 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا، 779 مویشیوں کو بھی حفاظتی مقامات پر پہنچایا گیا، 125 اہلکار اور 25 کشتیاں 24 گھنٹے فیلڈ میں موجود ہیں، ریسکیو ٹیموں کے پاس 250 لائف جیکٹس، 50 رسیاں اور 50 لائف رنگ موجود ہیں۔
سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے تاہم 24 گھنٹوں میں سیلاب میں کمی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔
اڑنے والی کاریں آزمائشی پرواز کے دوران آپس میں ٹکرا گئیں
مزید پڑھیں:عمران خان نے اے ٹی سی میں ویڈیو لنک کے بجائے خود پیش ہونے کیلئے درخواست دائر کر دی
سیلابی ریلے کوٹری بیراج کی طرف بڑھنے لگے جس کے باعث روہڑی میں دریا کنارے قائم ڈی ایس پی آفس زیرِ آب آگیا اور دفتر کا تمام ریکارڈ دوسرے دفاتر منتقل کیا گیا۔
نوشہرو فیروز میں کئی زمینداری بند ٹوٹ گئے، تحصیل مورو کے 5 دیہات میں پانی داخل ہوگیا، گاؤں غلام نبی بروہی میں کئی فٹ پانی جمع ہوگیا۔
افغانستان میں ٹی ٹی پی سمیت دہشتگرد گروہوں کے 60 سے زائد کیمپ فعال ہیں:پاکستان
گڈو بیراج پر پانی کی سطح میں کمی کے باوجود کچے کے علاقوں میں پانی کا دباؤ برقرار ہے جہاں فصلوں کو نقصان پہنچا۔
لاڑکانہ میں عاقل آگانی لوپ بند پر سیلابی ریلا آگیا لیکن کچے سے لوگوں نے علاقہ چھوڑنے سے انکار کردیا۔
ادھر دادو میں میہڑ سے ملحقہ کچے کے علاقے میں زمیں داری بندوں میں کٹاؤ سے کئی دیہات پانی کی لپیٹ میں آگئے ۔
کندھ کوٹ میں سیلابی پانی سے 80 سے زائد دیہات پانی کی لپیٹ میں آگئے ہیں، قادر پور گیس فیلڈ سے گیس کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔
ادھر سجاول کے سیلاب متاثرین اپنے آشیانے کھو بیٹھے ہیں، لوگ اب بھوک، پیاس اور بیماریوں کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق پنجاب کے دریاؤں میں پانی کا بہاؤ نارمل ہو رہا ہے، سیلابی علاقوں میں پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
دریائے سندھ جہلم اور راوی میں پانی کا بہاؤ نارمل لیول پر ہے، چناب میں بھی پانی کا بہاو نارمل ہو چکا ہے، پنجند کے مقام پر بھی پانی کا بہاو نارمل ہے۔
دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے ، سلیمانکی اور اسلام ہیڈ ورکس پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں رودکوہیوں کا بہاو بھی نارمل ہے۔
دریائے سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل کمی کا سلسلہ جاری ہے،درمیانے درجے کے سیلاب کی صورتحال ہے۔ پانی کی آمد 5لاکھ 3 ہزار 794 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
گڈو بیراج کے مقام پر پانی کا اخراج4 لاکھ 75 ہزار 341 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے، 24 گھنٹوں کے دوران گڈو بیراج کے مقام پر 77 ہزار 342 کیوسک کمی واقع ہوئی ہے۔
وفاقی وزیر معین وٹو نے بتایا کہ دریائے سندھ میں کوٹری بیراج پر نچلے درجے کا سیلاب ہے، سطح مستحکم ہے، سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے مگر پانی کی سطح میں کمی جاری ہے۔
تربیلا ڈیم 27 اگست سے 100 فیصد بھرا ہوا ہے، منگلا ڈیم 96 فیصد بھر چکا، مزید 3.4 فٹ گنجائش باقی ہے۔