ٹرمپ پالیسی: امریکی محکمہ تعلیم سے 1300 سے زائد ملازمین فارغ
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
واشنگٹن: امریکی محکمہ تعلیم نے 1300 سے زائد ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، سال 2025 کے آغاز میں محکمہ تعلیم میں 4,133 ملازمین کام کر رہے تھے۔
یہ فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے محکمہ برائے تخفیف اخراجات (DOGE) کے تحت کیا گیا، جس کے نتیجے میں محکمہ تعلیم میں بڑے پیمانے پر برطرفیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، 572 ملازمین نے خود نوکری چھوڑنے کی پیشکش قبول کی، تاہم اس کے باوجود محکمہ تعلیم نے 1300 سے زائد افراد کو نوکری سے نکالنے کا اعلان کیا۔ مزید برآں، محکمہ میں آزمائشی بنیادوں پر رکھے گئے درجنوں ملازمین بھی فارغ کر دیے گئے ہیں۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی حکومت وفاقی اداروں میں اخراجات کم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت مختلف اداروں میں بھی ملازمین کی تعداد میں کمی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: محکمہ تعلیم
پڑھیں:
جیفری ایپسٹین جنسی اسکینڈل میں ٹرمپ کا نام مزید واضح، اہم انکشافات سامنے آگئے
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل“ کی تازہ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مئی میں ایک بریفنگ کے دوران اٹارنی جنرل پام بونڈی نے آگاہ کیا کہ ان کا نام جنسی جرائم میں ملوث ارب پتی جیفری ایپسٹین کے حوالے سے امریکی محکمہ انصاف کی دستاویزات میں کئی بار آیا ہے۔ یہ اطلاع 7 جولائی کو محکمہ انصاف کی جانب سے ایپسٹین فائلز جاری نہ کرنے کے اعلان سے کئی ہفتے قبل دی گئی تھی۔
امریکی محکمہ انصاف نے بدھ کو ایک بیان میں تصدیق کی کہ پام بونڈی اور نائب اٹارنی جنرل ٹوڈ بلانش نے ”معمول کی بریفنگ“ کے دوران ٹرمپ سے ایپسٹین فائلز پر گفتگو کی، مگر بریفنگ کے وقت کی تصدیق نہیں کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق، صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا گیا کہ ایپسٹین کی دستاویزات میں کئی دیگر بااثر شخصیات کے نام بھی شامل ہیں، تاہم یہ مواد غیر مصدقہ اور سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھا، خاص طور پر اُن افراد کے بارے میں جو ماضی میں ایپسٹین کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔ اس میں ٹرمپ کا نام بھی شامل ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ان دستاویزات میں کسی کا نام آنا جرم کی نشاندہی نہیں کرتا۔
محکمہ انصاف کی جانب سے ایپسٹین فائلز جاری نہ کرنے کے فیصلے پر ٹرمپ کے حامیوں، خصوصاً MAGA گروہ، کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ دباؤ کے بعد، گزشتہ ہفتے ٹرمپ نے بونڈی کو گرینڈ جیوری کی کارروائی کے ٹرانسکرپٹس کھولنے کی ہدایت دی، جن کا تعلق ایپسٹین اور اس کی ساتھی غزلین میکسویل کے خلاف وفاقی تحقیقات سے ہے۔
یاد رہے، ٹرمپ اور ایپسٹین کئی سال تک دوست رہے، تاہم 2019 میں ایپسٹین کی جیل میں مبینہ خودکشی سے پہلے ان کے تعلقات ختم ہو چکے تھے۔ ایپسٹین کے دیگر مشہور دوستوں میں برطانیہ کے پرنس اینڈریو بھی شامل تھے۔
اس معاملے پر جب ”سی این بی سی“ نے وائٹ ہاؤس کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر اسٹیون چیونگ سے رابطہ کیا، تو اُنہوں نے کہا، ’صدر ٹرمپ نے ایپسٹین کو اپنے مار-اے-لاگو کلب سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ غیر مناسب حرکتیں کر رہا تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’یہ سب جعلی خبریں ہیں، جو ڈیموکریٹس اور لبرل میڈیا کی جانب سے گھڑی جا رہی ہیں، جیسے روس گیٹ اسکینڈل، جس میں صدر ٹرمپ حق پر تھے۔‘
بدھ کو ایک مشترکہ بیان میں پام بونڈی اور ٹوڈ بلانش نے کہا کہ ’محکمہ انصاف اور ایف بی آئی نے ایپسٹین فائلز کا مکمل جائزہ لیا، اور 6 جولائی کے میمو میں طے کیا کہ ان میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں جو مزید تحقیقات یا قانونی کارروائی کا تقاضا کرے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ گرینڈ جیوری کی کارروائی کو عوام کے سامنے لانے کی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔
ایک صحافی نے گزشتہ ہفتے ٹرمپ سے سوال کیا کہ کیا بونڈی نے انہیں بتایا تھا کہ اُن کا نام ان فائلز میں ہے؟ ٹرمپ نے جواب دیا: ’نہیں، ایسا کچھ نہیں بتایا گیا۔ ہمیں صرف مختصر بریفنگ دی گئی۔‘
ٹرمپ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ یہ ساری فائلیں ایف بی آئی کے سابق ڈائریکٹر جیمز کومی اور صدور اوباما و بائیڈن کی حکومتوں نے ”گھڑی“ تھیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے محکمہ انصاف نے مین ہٹن کی وفاقی پراسیکیوٹر مورین کومی کو برطرف کر دیا، جو جیمز کومی کی بیٹی ہیں اور ایپسٹین و میکسویل کے خلاف مقدمات کی نگرانی کر چکی ہیں۔
اسی دوران، وال اسٹریٹ جرنل نے دعویٰ کیا کہ 2003 میں ٹرمپ نے ایپسٹین کی 50ویں سالگرہ پر ایک فحش قسم کا خط لکھا تھا، جو ایپسٹین کی ساتھی میکسویل کی فرمائش پر بھیجا گیا۔ اس خط میں ایک برہنہ عورت کی تصویر اور ٹرمپ کے دستخط ”ڈونلڈ“ کی صورت میں اس کے جسم پر موجود تھے۔
ٹرمپ نے اس خط کو جعلی قرار دیتے ہوئے سختی سے تردید کی اور کہا: ’یہ میں نہیں ہوں۔ یہ سب من گھڑت ہے۔ میں نے کبھی کسی عورت کی تصویر نہیں بنائی۔‘
اس الزام کے بعد، ٹرمپ نے میڈیا ٹائیکون روپرٹ مرڈوک، نیوز کارپوریشن، اس کے سی ای او، ڈاؤ جونز اینڈ کمپنی اور متعلقہ صحافیوں پر کم از کم 10 ارب ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
Post Views: 5