ہم مرکزی فیصلے سے اتفاق بھی کرلیں تو اپنی رائے الگ سے دے سکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)ملٹری کورٹس کیس میں جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ہم مرکزی فیصلے سے اتفاق بھی کرلیں تو اپنی رائے الگ سے دے سکتے ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ شروع میں سپریم کورٹ میں بنچ 9رکنی تشکیل دیا گیا تھا،بعد میں بنچ کم ہوتے ہوتے 5رکنی رہا گیا۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ آئینی بنچ میں ملٹری کورٹس کیس پر سماعت جاری ہے،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بنچ سماعت کررہا ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ خواجہ صاحب! جواب الجواب مختصر ہوتے ہیں،عدالت نے کہاکہ جو پوائنٹس پہلے کور نہیں کر سکے اور مخالف وکلا کی جانب سے اٹھائے گئے اس پر معاونت کریں،خواجہ حارث نے کہاکہ مخالف وکلا نے فیصلے پر دلائل نہیں دیئے،بنیادی طور پر 4پوائنٹس ہیں جو مخالف وکلا کی جانب سے اٹھائے گئے،مخالف وکلا نے شفاف ٹرائل اور آزاد عدلیہ پر دلائل دیئے،جسٹس مسرت ہلالی نے کہاکہ عدالتیں آرٹیکل 175کے تحت بنیں، بتائیں کیا یہ عدالت بھی اس کے تحت بنیں،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ کوئی ایسا فورم ہے جو 175کے تحت نہ بنا ہو، وہ سویلین کا ٹرائل کر سکتے ہوں،جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ دوسری طرف کے وکلا نے کہا انٹراکورٹ اپیل کا دائرہ محدود ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ یہ آئینی بنچ ہے کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہوگا، جسٹس امین الدین نے کہاکہ نیا آئینی بنچ مقدمہ سن رہا ہے تمام میرٹس زیربحث آ سکتے ہیں،وکیل خواجہ حارث نے کہاکہ آئینی بنچ تو اپیل میں کیس واپس بھی بھیج سکتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہم مرکزی فیصلے سے اتفاق بھی کرلیں تو اپنی رائے الگ سے دے سکتے ہیں،جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ شروع میں سپریم کورٹ میں بنچ 9رکنی تشکیل دیا گیا تھا،بعد میں بنچ کم ہوتے ہوتے 5رکنی رہا گیا۔
آئی ایم ایف نے بین الاقوامی سرمایہ کاری منصوبوں پر ٹیکس استثنیٰ کا مطالبہ مسترد کردیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ جسٹس جمال مندوخیل سکتے ہیں ہے جسٹس
پڑھیں:
جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک بطور جج کام سے روکنے کا حکم دے دیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی جہاں چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان نے کیس سماعت کی، اس موقع پر وکلاء کی کثیر تعداد کمرہ عدالت پہنچی، ڈسٹرکٹ بار اور ہائیکورٹ بار کی کابینہ بھی کمرہ عدالت میں موجود رہی، شیر افضل مروت بھی کمرہ عدالت پہنچے، تاہم جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست گزار میاں داؤد آج پیش بھی نہیں ہوئے اور التواء کی استدعا کی گئی لیکن پھر بھی جج کو کام سے روک دیا گیا۔ دوران سماعت وکیل راجہ علیم عباسی نے دلائل دیئے کہ ’ہماری صرف گزارش ہے کہ یہ خطرناک ٹرینڈ ہے اگر یہ ٹرینڈ بنے گا تو خطرناک ٹرینڈ ہے، سپریم کورٹ کے دو فیصلے موجود ہیں، اس درخواست پر اعتراض برقرار رہنے چاہئیں‘، عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ اس کیس میں فریق ہیں؟‘، وکیل اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ ’ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں، بار ایسوسی ایشنز سٹیک ہولڈرز ہیں‘۔(جاری ہے)
چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیئے کہ ’حق سماعت کسی کا بھی رائٹ ہے ہم نے آفس اعتراضات کو دیکھنا ہے، عدالت کے سامنے ایک اہم سوال ہے جس کو دیکھنا ہے، اگر معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر التوا ہو تو کیا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟‘، بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے تک عدالت نے کیس ملتوی کردیا، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آنے تک کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے سینئر قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر علی اوصاف عدالتی معاون مقرر کردیا۔