اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 مارچ ۔2025 ) جعفر ایکسپریس سے یرغمال بنائی گئی خواتین اور بچوں کو دہشت گردوں نے تین مختلف مقامات پر رکھا ہوا ہے برطانوی نشریاتی ادارے نے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ فورسز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تا حال جاری اور اب تک 27 دہشت گرد ہلاک کیے جا چکے ہیں.

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اب تک 155 مسافر بازیاب کرائے جا چکے ہیں جب کہ خود کش بمباروں نے تین مختلف جگہوں پر عورتوں اور بچوں کو یرغمال بنا رکھا ہے کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد علاقے میں تاحال سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے تاہم بولان میں صورتِ حال اب بھی کشیدہ ہے.

(جاری ہے)

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حملے میں یرغمال بنائے گئے مسافروں میں سے سی 155 کو بازیاب کرالیا گیا ہے جنہیں پہلے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن کے پولیس تھانے لایا گیا اور شناخت کے بعد گھروں میں منتقل کیا گیاکوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچنے والے مسافر تھکن سے چور اور پریشان دکھائی دیے سرکاری سطح پر جعفر ایکسپریس پر قبضہ کرنے والے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران اب تک ہلاکتوں کی تعداد کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے تاہم ریلوے حکام کے مطابق کوئٹہ کے ریلوے سٹیشن سے بدھ کو 90 سے زیادہ تابوت ریلیف ٹرین پر بولان کی جانب روانہ کیے جا رہے ہیں.

ریلوے حکام نے” بی بی سی“ کو بتایا کہ آج ایک ریلیف ٹرین کوئٹہ سے بولان کی جانب روانہ کی جا رہی ہے جس میں مختلف سامان موجود ہے انہوں نے تصدیق کی کہ انتظامیہ کی جانب سے پلیٹ فارم پر اب تک 90 خالی تابوت لائے گئے جنہیںاس ٹرین میں روانہ کیا جائے گا جبکہ ٹرین کی روانگی سے قبل اس پر مزید درجنوں تابوت بھی رکھے جائیں گے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر سکیورٹی کے سخت انتظامات ہیں اور ایف سی کے اہلکاروں کی بڑی تعداد پلیٹ فارمز پر موجود ہے ریلوے حکام کا کہنا تھا کہ یہ تابوت ریلوے کی طرف سے نہیں بلکہ کوئٹہ انتظامیہ کی جانب سے آئے ہیں اور وہ اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جعفر ایکسپریس کی جانب

پڑھیں:

دہشت گردوں کی سرپرستی کاخاتمہ ناگزیر

افغانستان اور پاکستان نے استنبول میں 6 نومبر سے امن مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور اس موقع تک جنگ بندی قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ دوسری جانب سیکیورٹی فورسز کے بلوچستان کے علاقوں کوئٹہ،کچھی اورکیچ میں ٹارگٹڈ آپریشنز، شدید فائرنگ کے تبادلے میں بھارتی پراکسی فتنہ الہندوستان کے تین اہم کمانڈرز سمیت 24 دہشت گرد ہلاک ہوگئے جب کہ خیبر پختو نخوا کے ضلع باجوڑ میں ایک گروہ کی دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے انتہائی مطلوب خارجی کمانڈر امجد عرف مزاحم سمیت چار دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔

 استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات، خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں ایک ایسی پیش رفت ہیں جنھیں صرف سفارتی کوشش نہیں بلکہ خطے کے مستقبل کی سمت متعین کرنے والا لمحہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ دونوں ممالک نے چھ نومبر سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے اور اس موقع تک جنگ بندی قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے، جو بلاشبہ ایک مثبت اشارہ ہے، اگرچہ یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ یہ مذاکرات دیرپا امن کی ضمانت بن جائیں گے، مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بات چیت کا جاری رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔

 افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے ابتدائی طور پر امید کی تھی کہ کابل نئی حکومت کے ساتھ تعاون کے جذبے سے تعلقات کو بہتر بنائے گا، لیکن وقت کے ساتھ یہ توقعات کمزور پڑتی گئیں۔ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں میں تیزی، سرحد پار حملوں اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز پر بڑھتے ہوئے حملوں نے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا۔

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پر TTP کو پناہ دے رہا ہے اور ان کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کر رہا۔ کابل ان الزامات کو مسترد کرتا ہے اور خود کو ایک خود مختار ملک کے طور پر پیش کرتا ہے جو کسی دوسرے ملک کے دباؤ میں نہیں آنا چاہتا، لیکن زمینی حقائق کچھ اورکہانی سناتے ہیں۔ پاکستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کے بعد جس طرح شواہد سامنے آئے ہیں، وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے اور سہولت کار اب بھی افغان سرزمین پر موجود ہیں، یہی وہ نکتہ ہے جس پر پاکستان کا صبر اب لبریز ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

ایک جانب باضابطہ بیانات، مذاکرات اور امن کی باتیں سامنے آتی ہیں، تو دوسری جانب ایسے واقعات جن میں سرحد پار سے دراندازی، ٹارگٹڈ کارروائیوں یا دہشت گردوں کی موجودگی کا شبہ ہوتا ہے، امن کے بیانیے کو چیلنج بناتے ہیں، اگر افغانستان، تحریک طالبان یا دیگر دہشت گرد تنظیموں پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کا اعتراف ایک اخلاقی اور عملی ضرورت بن جاتا ہے، نہ صرف پاکستان کے لیے، بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے بھی۔

 اگر کابل حکومت کی طرف سے واضح اور موثرکوششیں موجود ہیں تو اس کا ثبوت طلب کرنا درست ہے اور اگر وہ نااہل یا ناتواں ہے تو اس کا اعتراف کرنا ہوگا۔ افغانستان واقعی دہشت گرد عناصرکو پناہ دے رہا ہے یا ان کی سرپرستی کر رہا ہے، تو یہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کے لیے بھی سنگین خطرہ ہے۔

امن کے دعوے اور دہشت گردی کی سرپرستی ایک ہی وقت میں ممکن نہیں، نہایت ضروری ہے کہ اگر افغانستان حکومت واقعی میں اس قابل نہیں کہ وہ دیگرگروہوں کو کنٹرول کرے، تو وہ اس حقیقت کا باوقار اور شفاف اعتراف کرے، یہ اعتراف کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ مسئلے کے حل کا پہلا قدم ہوگا۔

 اس پس منظر میں آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیرکا حالیہ بیان خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے واضح انداز میں کہا کہ پاکستان تمام ہمسایوں کے ساتھ امن کا خواہاں ہے، مگر افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی برداشت نہیں کی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عسکری قیادت نے اب فیصلہ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حساس علاقوں کو دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں سے پاک کیا جائے گا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے حالیہ آپریشنز اس عزم کی واضح مثال ہیں۔

کوئٹہ، کیچ اور کچھی کے علاقوں میں سیکیورٹی فورسز نے ٹارگٹڈ آپریشنز کے دوران بھارتی پراکسی تنظیم ’’ فتنہ الہندوستان‘‘ کے اہم کمانڈرز سمیت درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ اسی طرح باجوڑ کے مقام پر پاک افغان سرحد کے قریب ایک دراندازی کی کوشش کو ناکام بنا کر چار دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں انتہائی مطلوب کمانڈر امجد عرف مزاحم بھی شامل تھا۔ یہ کارروائیاں نہ صرف دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے بڑا دھچکہ ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ پاکستان اپنی سلامتی پرکسی قسم کا سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔

 افغانستان کے لیے بھی یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ طالبان حکومت کو عالمی سطح پر اب بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔ معاشی پابندیاں، بیرونی فنڈزکی بندش اور داخلی بدامنی نے کابل انتظامیہ کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے اپنے ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان، جو کبھی طالبان حکومت کا سب سے بڑا حامی سمجھا جاتا تھا، اب اسی حکومت سے نالاں دکھائی دیتا ہے۔

طالبان قیادت کے لیے یہ احساس ضروری ہے کہ پاکستان کے ساتھ دشمنی ان کے اپنے مفاد میں نہیں، اگر افغانستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کے لیے اقتصادی مواقع، علاقائی تجارت اور بین الاقوامی قبولیت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

استنبول مذاکرات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ان میں خطے کے دیگر ممالک کی دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ چین، جو سی پیک کے ذریعے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے، یہ چاہتا ہے کہ افغانستان بھی اس منصوبے کا حصہ بنے۔ بیجنگ جانتا ہے کہ اگر افغانستان میں استحکام آتا ہے تو وسطی ایشیا، چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی راستے کھل سکتے ہیں، جو تمام فریقین کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔ اسی طرح ایران بھی ایک مستحکم افغانستان کا خواہاں ہے،کیونکہ بد امنی کے اثرات اس کی سرحدوں تک پہنچ چکے ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر استنبول مذاکرات کو عالمی اہمیت دے دی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ پیش رفت محض دو ممالک کے درمیان سفارتی رابطہ نہیں بلکہ ایک بڑے علاقائی وژن کا حصہ ہے، اگر افغانستان سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ اس عمل کو آگے بڑھاتا ہے تو یہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے امن و استحکام کا نیا باب ثابت ہو سکتا ہے۔

دہشت گرد نیٹ ورکس، اسمگلنگ مافیا اور وہ قوتیں جو خطے میں دشمنی کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں، ہر ممکن کوشش کریں گی کہ یہ عمل ناکام ہو جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں طالبان قیادت کی بصیرت کا امتحان ہے،انھیں امن دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہیے ۔افغانستان کی طالبان حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنے وعدوں پر عملدرآمد ہے، اگر وہ واقعی امن کی خواہاں ہے تو اسے نہ صرف TTP کے خلاف واضح اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے بلکہ پاکستان کے خدشات کو بھی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ طالبان پاکستان کے خدشات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔

عوامی سطح پر بھی اس امن عمل کو مقبول بنانا ضروری ہے۔ دونوں ممالک کے عوام جنگ سے تنگ آچکے ہیں۔ ایک طرف پاکستان کے قبائلی علاقے ہیں جو برسوں سے بد امنی کی چکی میں پِس رہے ہیں، دوسری جانب افغانستان کے شہری ہیں جنھوں نے چار دہائیوں سے مسلسل جنگ اور تباہی کا سامنا کیا ہے، خطے کی ترقی کے لیے امن کا قیام ناگزیر ہے۔ استنبول مذاکرات کے موقع پر یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ شاید اب وہ وقت آ گیا ہے جب طالبان اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ایک نئے باب کا آغازکریں۔یہ بھی درست ہے کہ امن کا سفر طویل اور دشوار ہے، مگر اس سفرکا پہلا قدم بات چیت ہے اور یہی قدم استنبول میں اٹھایا گیا ہے۔

اب یہ طالبان کی سیاسی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع کو کس طرح استعمال کرتے ہیں، اگر ماضی کی طرح محض وقتی فائدے کے لیے یہ عمل دوبارہ تعطل کا شکار ہوا تو پورا خطہ اس کے منفی اثرات بھگتے گا۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کا حل اسی میں ہے کہ خطے میں پائیدار امن قائم ہو۔آرمی چیف کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ’’امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں‘‘ آج دنیا میں ترقی وہی ملک کر رہے ہیں جنھوں نے اپنے داخلی اختلافات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا۔ افغانستان بھی اگر اسی راستے پر چلے تو وہ دن دور نہیں جب خطہ امن، استحکام اور خوشحالی کی مثال بن سکتا ہے۔

استنبول مذاکرات اس سفر کا نقطہ آغاز ہیں۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ استنبول میں ہونے والے یہ مذاکرات محض الفاظ کا تبادلہ نہیں بلکہ امید کی ایک شمع ہیں، اگر اس شمع کو بجھنے نہ دیا گیا تو ممکن ہے کہ برسوں کی تاریکی کے بعد روشنی کا سفر شروع ہو جائے، لیکن اگر یہ موقع بھی ضایع ہوا، تو تاریخ ایک بار پھر افغانستان کو اس خطے کی بد امنی کا ذمے دار ٹھہرائے گی۔ اب فیصلہ افغان طالبان کی عبوری حکومت کے ہاتھ میں ہے، جن کے اقدامات آیندہ نسلوں کی تقدیر لکھیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • راولپنڈی میں ڈینگی کے 11 نئے کیسز رپورٹ، مجموعی تعداد 1372 تک پہنچ گئی
  • پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، 18 دہشت گرد گرفتار
  • لاڑکانہ ، زائرین کی بس الٹ گئی، 25 افراد زخمی، ٹراما سینٹرمنتقل
  • سی ٹی ڈی نے دو دہشتگرد گرفتار کرلیے
  • کورونا کی شکار خواتین کے نومولود بچوں میں آٹزم ڈس آرڈرکا انکشاف
  • انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن: پنجاب میں 18 دہشت گرد پکڑے گئے، بارودی مواد برآمد
  • پنجاب کے مختلف شہروں سے 18 دہشت گرد گرفتار، بارودی مواد برآمد
  • ماں کے دورانِ حمل کووڈ کا شکار ہونے پر بچوں میں آٹزم کا خطرہ زیادہ پایا گیا، امریکی تحقیق
  • دہشت گردوں کی سرپرستی کاخاتمہ ناگزیر