قیصر سیٹ پر میرے پیچھے گھومتے تھے انہیں روکا اور کہا رشتہ بھیجیں، فضیلہ قاضی
اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT
کراچی(شوبز ڈیسک)شوبز انڈسٹری کی سینئر اداکارہ فضیلہ قاضی نے انکشاف کیا ہے کہ شوہر قیصر خان نظامانی سیٹ پر پیچھا کرتے تھے انہیں روکا اور کہا کہ شادی کے لیے رشتہ بھیجیں۔
اداکارہ فضیلہ قاضی نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے مزاحیہ پروگرام میں شرکت کی اور بتایا کہ کس طرح ان کے شوہر اور اداکار قیصر نظامانی ڈراموں کی شوٹنگ کے دوران سیٹ پر ان کے پیچھے پیچھے آتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ قیصر کو ایک دن کہا کہ یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس سے مجھ پر انگلیاں اٹھیں گی اور ممکنہ طور پر مجھے گھر سے شوبز کے لیے پابندی عائد ہوسکتی ہے۔
اس کے بعد قیصر نے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ مجھے پسند کرتے ہیں۔
فضیلہ قاضی کے مطابق قیصر کو کہا کہ اگر وہ سنجیدہ ہیں تو رشتہ بھیجیں، مجھے یقین تھا کہ اس سے وہ مایوس ہوجائیں گے کیونکہ عام طور پر لوگ ذمہ داری لینے سے ڈرتے ہیں خاص طور پر جب وہ اسٹرگل کررہے ہوں لیکن وہ رشتہ بھیجنے کے لیے رضامند ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدا میں قیصر کے اہلخانہ نے رشتہ بھیجنے سے انکار کردیا تھا لیکن نظامانی شادی کرنے پر بضد تھے اور انہوں نے کہا کہ وہ زبان دے چکے ہیں۔
واضح رہے کہ فضیلہ قاضی اور قیصر خان نظامانی کی شادی 1993 میں ہوئی اور ان کے دو بیٹے احمد اور زورین ہیں۔
مزید پڑھیں:پاکستان پوسٹ رمضان میں مستحقین کو رقم گھر پہنچانے کی ذمہ داری کیوں پوری نہ کرسکا؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: فضیلہ قاضی کہا کہ
پڑھیں:
مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) ویمن اسپورٹس یا خواتین کے کھیلوں کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ کھیلوں کا شعبہ مساوی تنخواہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یورپی پارلیمان کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 83 فیصد کھیلوں میں اب مساوی انعامی رقم دی جاتی ہے جبکہ فٹ بال، ٹینس اور کرکٹ جیسے بڑے کھیلوں میں خواتین کے میچوں کے لیے اسٹیڈیم بھرے ہونا معمول بن گیا ہے۔
گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب مساوی تنخواہ اور شرائط کی بات آتی ہے تو کھیل کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بدستور پیچھے دکھائی دیتا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
اگرچہ کھیل سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ صرف 15 سے 25 فیصد ہی نامور خواتین فٹبالرز مرد فٹ بالرز کے مساوی پیسے کماتی ہیں۔
اگرچہ ٹینس جیسا کھیل مستثنٰی ہے، جو تمام ٹورنامنٹس میں مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں انعامی رقم کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن زیادہ تر کھیلوں میں ٹاپ کھلاڑیوں کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ فرق بہت نمایاں ہے۔اس فرق کی وجوہات میں تاریخی پابندیاں، سرمایہ کاری کی کمی، پیشہ ورانہ مواقع اور زچگی کی سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تاثر ہے کہ کھیل صرف مردوں کا شعبہ ہے۔
سابق فٹبالر الیکس کلون کے مطابق صرف اعلیٰ تنخواہوں کا موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی بحث کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ تصویر کا صرف ایک محدود اور مسخ شدہ رُخ دکھاتا ہے۔الیکس کلون اب عالمی کھلاڑیوں کی یونین FIFPRO کے لیے کام کرتی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ کھیل میں سب سے زیادہ کمانے والوں کی تنخواہوں کا اس طرح موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی دلیل کو نقصان پہنچاتا ہے۔
تنخواہوں کی حدڈاکٹر کلون کا کہنا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے کم از کم تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور اسپین کی اعلیٰ لیگز میں ہوتا ہے۔ اس سے کھلاڑیوں کو مالی تحفظ ملتا ہے اور ساتھ ہی کلبز کو خواتین کی ٹیموں میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ کھیل میں آمدنی بڑھنے سے تنخواہیں بھی خود بخود بڑھیں گی۔
بنیادی سطح پر تبدیلیگلوبل آبزرویٹری فار جینڈر ایکویلیٹی اینڈ اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا کہتی ہیں کہ صرف مساوی تنخواہوں کا حصول کافی نہیں۔ خواتین کھیلوں میں اکثر بغیر معاوضے یا کم معاوضے کے کام کرتی ہیں (کوچ، ریفری وغیرہ)، ''اس وجہ سے ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ کھیل میں برابری کے لیے صرف تنخواہ نہیں بلکہ پورے نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔
‘‘ صرف تنخواہ نہیں، حالات بھی اہم ہیںڈاکٹر کلون کہتی ہیں کہ کچھ فیڈریشنز صرف دکھاوے کے لیے مساوی تنخواہ دیتی ہیں اور خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے سفر، سہولیات، کھانے پینے کے معیار وغیرہ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ سب عوامل کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے صرف میچ فیس برابر ہونا کافی نہیں۔‘‘
خواتین ٹیموں کو ترجیح نہیں دی جاتیجسمینا کووِچ، جو چند خواتین فٹبال ایجنٹس میں سے ایک ہیں، بتاتی ہیں کہ کچھ کلبز خواتین ٹیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، لیکن سب نہیں، ''کئی کلب کہتے ہیں کہ مردوں کی ٹیم کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔
خواتین تب کھیل سکتی ہیں جب میدان خالی ہو۔‘‘ سیاسی خطرات اور قانون سازیخواتین کے کھیلوں کو ایک بڑا خطرہ کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ میں، دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ سے ہے۔ 1972ء میں متعارف ہونے والے Title IX قانون نے سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں صنفی امتیاز کو ممنوع قرار دیا، جس سے خواتین کی کھیلوں میں شرکت بڑھی۔
یہ قانون امریکہ کی خواتین فٹبال ورلڈ کپ اور اولمپکس میں کامیابی کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ایک قانون میں تبدیلی کی، جس کے تحت ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر خواتین کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام خواتین کے کھیلوں کو کمزور کرنے اور ''تنوع، مساوات اور شمولیت‘‘(DEI) کی پالیسیوں کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ویمن رائٹس ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی DEI کے خلاف مہم نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں پر منفی اثر ڈالا ہے، یہاں تک کہ ''جینڈر‘‘ جیسے الفاظ کو بھی امریکی حکومت ناپسند کرنے لگی ہے۔ادارت: عدنان اسحاق