UrduPoint:
2025-09-18@14:38:32 GMT

مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے

اشاعت کی تاریخ: 18th, September 2025 GMT

مساوی اجرت کی جدوجہد، کھیلوں میں خواتین اب بھی پیچھے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) ویمن اسپورٹس یا خواتین کے کھیلوں کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے۔ اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک نظر ڈالی جائے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ کھیلوں کا شعبہ مساوی تنخواہ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یورپی پارلیمان کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 83 فیصد کھیلوں میں اب مساوی انعامی رقم دی جاتی ہے جبکہ فٹ بال، ٹینس اور کرکٹ جیسے بڑے کھیلوں میں خواتین کے میچوں کے لیے اسٹیڈیم بھرے ہونا معمول بن گیا ہے۔

گلوبل آبزرویٹری برائے صنفی مساوات اور اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب مساوی تنخواہ اور شرائط کی بات آتی ہے تو کھیل کا شعبہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں بدستور پیچھے دکھائی دیتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

اگرچہ کھیل سے متعلق بہت کم اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن یہ اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ صرف 15 سے 25 فیصد ہی نامور خواتین فٹبالرز مرد فٹ بالرز کے مساوی پیسے کماتی ہیں۔

اگرچہ ٹینس جیسا کھیل مستثنٰی ہے، جو تمام ٹورنامنٹس میں مردوں اور عورتوں کے لیے یکساں انعامی رقم کی طرف بڑھ رہا ہے، لیکن زیادہ تر کھیلوں میں ٹاپ کھلاڑیوں کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ فرق بہت نمایاں ہے۔

اس فرق کی وجوہات میں تاریخی پابندیاں، سرمایہ کاری کی کمی، پیشہ ورانہ مواقع اور زچگی کی سہولیات کا فقدان شامل ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تاثر ہے کہ کھیل صرف مردوں کا شعبہ ہے۔

سابق فٹبالر الیکس کلون کے مطابق صرف اعلیٰ تنخواہوں کا موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی بحث کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ تصویر کا صرف ایک محدود اور مسخ شدہ رُخ دکھاتا ہے۔

الیکس کلون اب عالمی کھلاڑیوں کی یونین FIFPRO کے لیے کام کرتی ہیں۔ان کا مزید کہنا ہے کہ کھیل میں سب سے زیادہ کمانے والوں کی تنخواہوں کا اس طرح موازنہ کرنا مساوی تنخواہ کی دلیل کو نقصان پہنچاتا ہے۔

تنخواہوں کی حد

ڈاکٹر کلون کا کہنا ہے کہ خواتین کھلاڑیوں کے لیے کم از کم تنخواہ مقرر ہونی چاہیے، جیسا کہ امریکہ، برطانیہ اور اسپین کی اعلیٰ لیگز میں ہوتا ہے۔ اس سے کھلاڑیوں کو مالی تحفظ ملتا ہے اور ساتھ ہی کلبز کو خواتین کی ٹیموں میں سرمایہ کاری کی ترغیب ملے گی۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ کھیل میں آمدنی بڑھنے سے تنخواہیں بھی خود بخود بڑھیں گی۔

بنیادی سطح پر تبدیلی

گلوبل آبزرویٹری فار جینڈر ایکویلیٹی اینڈ اسپورٹس کی عبوری سی ای او لومبے موامبا کہتی ہیں کہ صرف مساوی تنخواہوں کا حصول کافی نہیں۔ خواتین کھیلوں میں اکثر بغیر معاوضے یا کم معاوضے کے کام کرتی ہیں (کوچ، ریفری وغیرہ)، ''اس وجہ سے ان کی ترقی کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ کھیل میں برابری کے لیے صرف تنخواہ نہیں بلکہ پورے نظام میں تبدیلی ضروری ہے۔

‘‘ صرف تنخواہ نہیں، حالات بھی اہم ہیں

ڈاکٹر کلون کہتی ہیں کہ کچھ فیڈریشنز صرف دکھاوے کے لیے مساوی تنخواہ دیتی ہیں اور خواتین اور مرد کھلاڑیوں کے سفر، سہولیات، کھانے پینے کے معیار وغیرہ میں واضح فرق ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ سب عوامل کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس لیے صرف میچ فیس برابر ہونا کافی نہیں۔‘‘

خواتین ٹیموں کو ترجیح نہیں دی جاتی

جسمینا کووِچ، جو چند خواتین فٹبال ایجنٹس میں سے ایک ہیں، بتاتی ہیں کہ کچھ کلبز خواتین ٹیموں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ، لیکن سب نہیں، ''کئی کلب کہتے ہیں کہ مردوں کی ٹیم کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی۔

خواتین تب کھیل سکتی ہیں جب میدان خالی ہو۔‘‘ سیاسی خطرات اور قانون سازی

خواتین کے کھیلوں کو ایک بڑا خطرہ کئی ممالک، خاص طور پر امریکہ میں، دائیں بازو کی سیاست کی طرف جھکاؤ سے ہے۔ 1972ء میں متعارف ہونے والے Title IX قانون نے سرکاری فنڈ سے چلنے والے تعلیمی اداروں میں صنفی امتیاز کو ممنوع قرار دیا، جس سے خواتین کی کھیلوں میں شرکت بڑھی۔

یہ قانون امریکہ کی خواتین فٹبال ورلڈ کپ اور اولمپکس میں کامیابی کا ایک اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دور

ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے چند دن بعد ایک قانون میں تبدیلی کی، جس کے تحت ٹرانس جینڈر کھلاڑیوں پر خواتین کے مقابلوں میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ ناقدین کے مطابق یہ اقدام خواتین کے کھیلوں کو کمزور کرنے اور ''تنوع، مساوات اور شمولیت‘‘(DEI) کی پالیسیوں کو ختم کرنے کی ایک کڑی ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی ویمن رائٹس ڈویژن کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہیتھر بار کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کی DEI کے خلاف مہم نے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں پر منفی اثر ڈالا ہے، یہاں تک کہ ''جینڈر‘‘ جیسے الفاظ کو بھی امریکی حکومت ناپسند کرنے لگی ہے۔

ادارت: عدنان اسحاق

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مساوی تنخواہ کھیلوں میں خواتین کے کہ کھیل ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

گوگل جیمنائی نے پہلی بار چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا

گوگل جیمنائی نے پہلی بار چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ گوگل کا نیا امیج ایڈیٹنگ ماڈل نینو بنانا وائرل ہونے کے بعد جیمنائی ایپ اسٹور کے چارٹس میں سرفہرست ہے۔

امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور جرمنی میں گوگل جیمنائی اب نمبر ون پر ہے جبکہ اوپن اے آئی کا چیٹ جی پی ٹی دوسرے نمبر پر آگیا، جولائی میں گوگل جیمنائی کے ماہانہ صارفین کی تعداد 450 ملین تک پہنچ گئی تھی جو اب مزید بڑھ گئی ہے، اسی دوران نینو بنانا ماڈل، جسے باضابطہ طور پر جیمنائی 2.5 فلیش امیج جنریشن کہا جاتا ہے، اس کو 500 ملین سے زائد بار استعمال کیا گیا۔

یہ فیچر خاص طور پر آئی فون صارفین میں مقبول ہوا اور جیمنائی کو امریکا اور برطانیہ میں ایپل کے فری ایپس چارٹ پر سب سے اوپر پہنچا دیا، وہاں یہ چیٹ جی پی ٹی اور دیگر مقبول ایپس جیسے تھیڈز اور ٹی مو کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔

گوگل نے 26 اگست کو جیمنائی اپ ڈیٹ کا اعلان کرتے ہوئے اسے اسٹیٹ آف دی آرٹ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ماڈل ایسے کام کرسکتا ہے جو حریف کمپنیوں کے لیے اب بھی چیلنج ہیں۔

اس فیچر کے ذریعے صارفین ایک ہی کردار کو مختلف تصاویر میں برقرار رکھ سکتے ہیں، ایک سے زائد تصاویر کو ملا سکتے ہیں اور مخصوص زبان یا پرومٹ کے ذریعے تبدیلیاں کرسکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق نینو بنانا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ نئی تصاویر بنانے کے بجائے پہلے سے موجود تصاویر کو حقیقت کے قریب ایڈٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مشہور فوٹوگرافر اور اے آئی ریویور تھامس اسمتھ نے اسے انتہائی شاندار قرار دیا۔

گزشتہ دو ہفتوں میں اس ماڈل کے ذریعے بنائی گئی تصاویر لاکھوں بار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس اور ریڈٹ پر شیئر ہوئیں۔

غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گوگل نے جیمنائی کے ذریعے بنائی گئی ہر تصویر میں ایک ظاہر شدہ واٹر مارک اور ایک پوشیدہ واٹر مارک شامل کیا ہے جسے آن لائن ٹریک کیا جاسکتا ہے۔

گوگل محققین کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں اے آئی امیجز کے ذریعے جھوٹی معلومات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کے سدباب کے لیے ایسے اقدامات ناگزیر ہیں۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • ’اپنی سیلری سے خوش ہوں‘، ایمازون کے بانی جیف بیزوس سالانہ کتنی تنخواہ لیتے ہیں؟
  • سول ڈیفنس کےرضاکاروں کو تنخواہ کیساتھ بقایاجات بھی ادا
  • آئی ایم ایف سے مذاکرات، بیشتر نکات پر عمل، 5  ہدف سے پیچھے 
  • مساوی محنت پھر بھی عورت کو اجرت کم کیوں، دنیا بھر میں یہ فرق کتنا؟
  • اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز سے گورنر کی تنخواہ مقرر کرنے کا اختیار واپس لینے کی تیاری
  • خواتین کو مردوں کے مساوی اجرت دینے کا عمل تیز کرنے کا مطالبہ
  • بھارت کا غیر ذمے دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا، عطا تارڑ
  • بھارت کا غیر ذمے دارانہ رویہ اب کھیلوں کے میدان تک پہنچ چکا: عطا تارڑ
  • گوگل جیمنائی نے پہلی بار چیٹ جی پی ٹی کو پیچھے چھوڑ دیا