Express News:
2025-04-25@11:39:05 GMT

جراتِ انکار (آخری حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 12th, March 2025 GMT

حسین نقی نے صحافت کے بدلتے ہوئے رجحانات کے تناظر میں بتایا کہ پھر ہفت روزہ ویو پوائنٹ میں کام کیا۔ ویو پوائنٹ کے ایڈیٹر مظہر علی خان تھے۔ معروف صحافی آئی اے رحمن اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ایک آرٹیکل لکھنے پر حسین نقی کو لاہور کے شاہی قلعہ میں لے جایا گیا اور ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارنا پڑا۔ حسین نقی کہتے ہیں معروف صحافی زیڈ اے سلہری اپنے شعبے میں بہت Competent تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان میں آزادی سے صحافت کرنی ہے تو جیل ضرور جانا ہوگا۔ سلہری نے یہ بھی کہا کہ میں نے اس راستہ کو منتخب نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ مقتدر لوگوں کے ساتھ رہے، مثلًا ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی رہے۔

نقی صاحب نے ایک واقعہ یوں بیان کیا کہ زیڈ اے سلہری نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو سے کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ چین اور شمالی کوریا جائیں گے۔ سلہری صاحب شمالی کوریا کی سردی برداشت نہیں کرپائے۔ جب ہم لوگوں کو یہاں اچانک ایئرپورٹ لا کر سوار کیا گیا تب وہاں گھٹنوں تک برف پڑی تھی۔ میں نے سلہری صاحب کو گندم کی بوری کی طرح پیٹھ پر ڈال کر جہاز کی سیڑھیوں تک پہنچایا۔ وہاں مرتضیٰ نے جو ساہیوال میں پاکستان ٹائمز کا نامہ نگار تھا، وہ مجھ سے بہت لڑا۔ سلہری نے تم سب کے خلاف اتنا لکھا پھر بھی یہ سب کچھ کر رہے ہو مگر ایک بوڑھے کی مدد کرنا ضروری تھا۔

 کتاب ’’جرات انکار‘‘ سینئر صحافی حسین نقی کی داستانِ حیات ہے۔ وہ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ وہ 1955 سے 1960تک لاہور میں رہے۔ اس دوران ان کی ملاقاتیں زاہد ڈار، سجاد باقر رضوی، امین مغل، انتظار حسین اور عباس اطہر وغیرہ سے پاک ٹی ہاؤس میں ہوئیں۔ شورش کاشمیری جو کہ رائیٹسٹ تھے وہ سب آکر چائینیز ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ پاکستان ٹائمز کے دفتر جاتے تھے تو وہاں آئی اے رحمن ہوتے تھے۔ بقول نقی ہم صفدر میرکے کمرہ میں جاکر بیٹھ جاتے تھے۔ حسین نقی نے بتایا کہ ایک سرکاری ملازم نور حسین انفارمیشن ڈپارٹمنٹ میں ہوتے تھے جنھوں نے مارشل لاء سے مارشل لاء تک کتاب لکھی تھی۔

 حسین نقی کہتے ہیں کہ پی پی ایل کے مالک میاں افتخار الدین فیوڈل لارڈ تھے لیکن لیفٹ کے نظریات کے حامی تھے۔ حسین نقی نے بتایا کہ مظہر علی خان کا تعلق بائیں بازو سے تھا، وہ سر سکندر حیات کے بھتیجے تھے۔ ان کی اہلیہ طاہرہ سر سکندر حیات کی صاحبزادی تھیں۔ مظہر علی خان اور طاہرہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔

سر سکندر اپنی بیٹی کی شادی مظہر علی خان سے کرنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ وہ لیفٹسٹ تھے مگر انھیں علم نہیں تھا کہ ان کی بیٹی لیفٹسٹ ہے اور کمیونسٹ پارٹی کا اخبار بانٹتی ہے۔ مظہر علی خان بہت ہی نستعلیق تھے، شریف آدمی تھے۔ ان کی سب سے قریبی دوستی فیض صاحب سے تھی۔ جب مظہر علی خان پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے تو اس اخبار کا شمار دنیا کے اچھے اخبارات میں ہوتا تھا۔ حسین نقی نے بتایا کہ مظہر علی خان اور آئی اے رحمن ہاتھ سے لکھتے تھے۔ حسین نقی نے بتایا کہ فیض احمد فیض سے تحریکِ پاکستان کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی۔

وہ بیروت سے واپس آئے تو ان کے لیے پروگرام رکھا گیا۔ پروگرام میں، میں نے پہلی بار ان کی اونچی آواز سنی۔ انھوں نے دور سے مجھے دیکھ کر آواز دی۔ ’’ ارے بھئی نقی، انقلاب کا کیا حال ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’ ہم کوشش کرتے رہتے ہیں، بس آپ یہاں نہیں تھے ‘‘ وہ نہ صرف عالم بلکہ علم دوست شخصیت تھے۔ انھوں نے پی پی ایل کے مالک میاں افتخار الدین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میاں افتخار الدین جمہوریت اور پیشہ ورانہ اخلاقیات پر یقین رکھتے تھے۔ میں ان کے گھر جاتا تھا۔ ان کے بیٹے سہیل افتخار سے کافی دوستی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان بنا ہے، اس کو پروگریسو لائنز پر ہونا چاہیے۔ مسلم انڈیا جو تحریک تھی اس کا مطمع نظر تو یہ تھا کہ نہ ملک سوشلسٹ ہوگا، مساوات کی بنیاد پر بنے گا۔

پاکستان ٹائمز اور امروز میں مولانا چراغ حسن حسرت اور مولانا غلام رسول مہر جیسے علماء شامل تھے جو لیفٹ والے تو نہ تھے مگر پروگریسو ضرور تھے۔ نقی صاحب نے اپنی یاد داشتوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ جب حمید اختر، پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے صدر اور نقی سیکریٹری منتخب ہوئے تو مولانا غلام رسول مہر کو حلف برداری کی تقریب کے لیے مدعو کیا۔ ان کی کرسی کو جرنلسٹس اٹھا کر تین منزلہ عمارت کی چھت پر پہنچے اور ہم نے حلف لیا۔ حسین نقی کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا اور لاہور کے شاہی قلعہ کے ٹارچر کیمپ میں رکھا گیا۔

حسین نقی نے آئی اے رحمن سے متعلق بتایا کہ رحمن صاحب میں غیر معمولی صلاحیت تھی، وہ لوگوں کے مجمع میں بیٹھے ہوئے بھی لکھ لیتے تھے۔ رحمن صاحب نے انٹرنی کے طور پر کیریئر کی ابتداء کی تھی۔ وہ لوگوں کی بہت مدد کرتے تھے۔ 1947میں ان کا پورا خاندان قتل ہوگیا۔ کبھی انھوں نے ذکر بھی نہیں کیا۔ حسین نقی نے ہیومن رائٹس کمیشن HRCP میں ملازمت کا یوں ذکر کیا کہ ’’ادارہ 1986 میں قائم ہوا۔ میں شروع سے ہی ایچ آر سی پی کا رکن تھا۔ اسی طرح 1992 میں آئی اے رحمن کے قائل کرنے پر میں نے ایچ آر سی پی جوائن کر لیا۔ وہاں یہ کام تھا کہ ایکٹیوسٹس کا گروپ بنانا تھا، یوں اب ایچ آر سی پی کے کوئی 60 سے 68 جگہ گروپ بن گئے۔

پاکستان کے شروع کے 10 سال دیکھیں۔ ریاست کا کوئی ڈھانچہ نہیں ہے۔ آزادی کے 4 سال بعد وزیر اعظم قتل ہوئے۔ ریاست کو سفری طاقتوں کے ساتھ Morgage کردیا۔ وہ کہتے ہیں کہ 1947 تک اتنا نظر نہیں آتا تھا کہ کسی نئی اسٹیٹ کے لیے کوئی تیاری موجود ہے کہ نہیں۔ میں نے سینئر بیوروکریٹ زبیری اور آغا شاہی سے بھی پوچھا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آزادی سے پہلے کوئی پلان نہیں تھا۔ اے ٹی نقوی جو بیوروکریٹ تھے میرے سوالات کے جوابات نہیں دے سکے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسٹیٹ عملاً اس وقت بھی پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ اسٹیٹ کو عوام کی منشاء کے مطابق جمہوری انداز میں آپریشنل بنانے کے لیے ابتداء سے ہی کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت شاید 20 سے 25 دن ہونگے جب بنیادی حقوق پر پابندی نہیں رہی ہوگی۔ ‘‘ انھوں نے جسٹس دراب پٹیل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دراب پٹیل نے ایک با اصول اور غیر جانبدار جج کی حیثیت سے بڑی عزت کمائی ۔ نقی صاحب کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر ایک کمیٹڈ خاتون تھیں۔ عاصمہ مارشل لاء کے تحت اپنے والد ملک غلام جیلانی کی گرفتاری کے خلاف دی جانے والی رٹ پٹیشن سے کافی مشہور ہوگئی تھیں۔

عاصمہ میں Courage بہت تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں پنجابی کا پہلا اخبار ’’سجن‘‘ نکالنے میں کامیابی ہوئی مگر پنجابی سرمایہ داروں نے پنجابی اخبار کو اشتہارات نہیں دیے۔ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اشتہارات دیے تھے جو ان کی حکومت کے خاتمے پر نگراں وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی کی حکومت نے بند کردیے۔ حسین نقی کہتے ہیں کہ ’’آج مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستان توڑنے کے بعد جو عناصر اس ریاست پر قابض ہوئے وہ ملک میں جمہوری طرزِ حکمرانی قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ اب یہ آنے والی نسل پر منحصر ہے کہ وہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ ہاں! یہ ضرور ہے کہ آخری دم تک اس جدوجہد کا حصہ رہیں کہ یہاں فلاحی ریاست قائم ہو۔

 اس کتاب میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی 60کی دہائی میں یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کا ذکر واضح طور پر نظر نہیں آتا۔ نقی صاحب این ایس ایف کے ان رہنماؤں میں شامل تھے جنھیں کراچی بدر کیا گیا۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے اس کتاب میں نقی صاحب کی زندگی کے بارے میں بہت سے واقعات شامل کیے ہیں۔ قارئین اس پوری کتاب کا مطالعہ کرکے نقی صاحب کی زندگی اور مظلوم طبقات کی تحریکوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔

(تصحیح۔ گزشتہ کالم میں غلطی سے پنجاب پنج کے پبلشرکے طورپر مظفر قادرکا نام لکھا گیا، جب کہ اصل میں حسین نقی پنجاب پنج کے پبلشر تھے۔)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: حسین نقی نے بتایا کہ پاکستان ٹائمز مظہر علی خان آئی اے رحمن انھوں نے کے ساتھ تھا کہ کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

جے یو آئی کا اپوزیشن اتحاد بنانے سے انکار، اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا فیصلہ

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے ہی پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا بڑا اتحاد قائم کرنا اس پر ہماری کونسل آمادہ نہیں ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آئے روز کے معاملات میں کچھ مشترکہ امور سامنے آتے ہیں، اس حوالے سے مذہبی جماعتوں سے مل کر اشتراک عمل ہوسکتا ہے، پارلیمانی جماعتوں کے ساتھ بھی اشتراک عمل کیلئے حکمت عملی ہماری شوریٰ اور عاملہ کرے گی۔

فضل الرحمان نے کہا کہ اتحاد صرف حکومتی بینچوں کا ہوتا ہے، اپوزیشن میں باضابطہ اتحاد کا تصور نہیں ہوتا، باضابطہ طور پر اب تک اپوزیشن کا اتحاد موجود نہیں ہے، اپوزیشن کا بڑا اتحاد قائم کرنے پر ہماری کونسل آمادہ نہیں ہے، اپوزیشن کا کوئی باقاعدہ اتحاد نہیں لیکن ایشو ٹو ایشو ساتھ چلنے کے امکان موجود ہیں۔

ہمارے ملک کی ساری سیاست اسلام آباد کی ہے، مولانا فضل الرحمان

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ جو آئین اور قانون کا راستہ ہے وہی پاکستان کے علماء کا بیانیہ ہے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ اس وقت ملک میں خاص طور پر کے پی، بلوچستان، سندھ میں بدامنی کی صورتحال ناقابل بیان ہے، کہیں حکومتی رٹ نہیں ہے، مسلح گروہ دندناتے پھر رہے ہیں، حکومت کی کارکردگی اب تک زیرو ہے، حکومت اور ریاستی ادارے عوام کی جان و مال کے تحفظ میں مکمل ناکام نظر آرہے ہیں، کسی قسم کا ریلیف نہیں دے رہی۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہم نے 2018 کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور نتائج تسلیم نہیں کیے، 2024 کے انتخابات کے بارے میں بھی ہمارا وہی مؤقف ہے، عوام کی رائے کو نہیں مانا جاتا، سلیکٹڈ حکومتیں مسلط کی جاتی ہیں، صوبوں کا حق چھینا جاتا ہے تو ہم صوبوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، عوام کو اپنا حق رائے دہی آزادانہ استعمال کرنے دیا جائے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ مائنز اینڈ منرلز بل کو جے یو آئی کی کونسل نے مسترد کردیا۔

وزیر اعلیٰ کو پتہ نہیں کہ کچھ معاملات اسٹیٹ کے تحت ہوتے ہیں، مولانا فضل الرحمان

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ میں خود کو قبائل کا حصہ سمجھتا ہوں، جب بھی قبائل کا مسئلہ آتا ہے ہمارے اندر ایک تحریک جنم لے لیتی ہے، ہم ہمیشہ قبائلوں کے حق کے لیے بات کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جے یو آئی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی بھرپور حمایت جاری رکھے گی، اسرائیل ایک ناجائز ملک ہے، اس کی حیثیت ایک قابض کی ہے، یہ جنگی مجرم ہے، عالمی عدالت انصاف نے اس کو گرفتار کرنے کا حکم دیا ہوا ہے، امریکا اور یورپی ممالک عالمی عدالت کے فیصلے کا احترام نہیں کر رہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں، دیگر سب جنگی جرائم کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات منفرد واقعہ ہے، فضل الرحمان

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ ہماری رائے میں آئینی عدالت کی تشکیل تھی، آئینی بینچ کا بننا بُرا آغاز نہیں، آئینی بینچ کو چلنے دیا جائے تو بہتر نتائج آئیں گے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل اگر سمجھتا ہے کہ ہم دفاع کی جنگ لڑ رہے ہیں تو شہریوں پر بمباری کیوں، کبھی دنیا میں دفاعی طور پر عام شہریوں پر بمباریاں ہوئی ہیں؟ کیا دفاع میں کوئی ملک خواتین، بچوں اور بوڑھوں پر بمباریاں کرتا ہے؟

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ 11 مئی کو پشاور، 15 مئی کو کوئٹہ میں ملین مارچ ہوگا، ہم پاکستان کی آواز دنیا تک پہنچائیں گے، یہ امت مسلمہ کی آواز بن چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سرحدی خلاف ورزی کرے، انوارالحق
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • اور پھر بیاں اپنا (دوسرا اور آخری حصہ)
  • دشمن کسی غلط فہمی میں نہ رہے، امجد حسین ایڈووکیٹ
  • بھارت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سرحدی خلاف ورزی کرے، وزیراعظم آزاد کشمیرچوہدری انوار الحق
  • بھارت میں اتنی جرات نہیں کہ وہ سرحدی خلاف ورزی کرے، وزیراعظم آزاد کشمیر
  • پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی کسی کو جرات نہیں ہونی چاہئے، اسحاق ڈار
  • پیر پگارا کا افواج پاکستان سے مکمل اظہارِ یکجہتی، حر جماعت کو دفاع وطن کے لیے تیار رہنے کی ہدایت
  • بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کیلئے پہلگام واقعے کو بہانا بنایا، مشاہد حسین
  • جے یو آئی کا اپوزیشن اتحاد بنانے سے انکار، اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا فیصلہ