UrduPoint:
2025-07-26@10:13:53 GMT

روس کا جنگ بندی سے انکار اس کے لیے 'تباہ کن' ہو گا، ٹرمپ

اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT

روس کا جنگ بندی سے انکار اس کے لیے 'تباہ کن' ہو گا، ٹرمپ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو خبردار کیا کہ اگر ماسکو نے یوکرین جنگ میں جنگ بندی کے معاہدے سے انکار کیا تو "تباہ کن" پابندیاں لگائی جائیں گی۔ ٹرمپ نے، یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے 30 دن کی جنگ بندی پر رضامندی کے بعد، کہا کہ مذاکرات کار ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے روس جارہے ہیں۔

یوکرین روس کے ساتھ تیس روزہ جنگ بندی کے لیے تیار

وائٹ ہاؤس میں آئرلینڈ کے وزیر اعظم مائیکل مارٹن کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ امریکی مذاکرات کار یوکرین کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے "ابھی" روس کی طرف جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

وائٹ ہاؤس نے بعد میں کہا کہ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اس ہفتے کے آخر میں ماسکو جا رہے ہیں۔

ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ "ہم روس کے لیے بہت برا کام کر سکتے ہیں۔ یہ روس کے لیے تباہ کن ہوگا۔ لیکن میں ایسا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں امن دیکھنا چاہتا ہوں، اور ہم شاید کچھ کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔"

یوکرین کی جزوی جنگ بندی کی تجویز'امید افزا'، امریکہ

انہوں نے تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ " جیسا کہ میں کہہ رہا ہوں، ہمارے حکام اس وقت ماسکو جا رہے ہیں اور امید ہے کہ ہم روس سے جنگ بندی کروا سکتے ہیں۔

اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو میرے خیال میں یہ خوفناک خون کی ہولی کو ختم کرنے کا 80 فیصد راستہ ہو گا۔" روس نے اپنے مطالبات پیش کردیے

یہ واضح نہیں ہے کہ ماسکو نے مطالبات کی اپنی فہرست میں اصل میں کیا باتیں کہی ہیں یا کیا وہ کییف کی منظوری سے قبل امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ روسی اور امریکی حکام نے گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ذاتی اور ورچوئل گفتگو کے دوران شرائط پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

اس معاملے سے واقف دو افراد کے مطابق روس نے یوکرین کے خلاف جنگ ختم کرنے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے مطالبات کی ایک فہرست واشنگٹن کو پیش کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ روس کے مطالبات امریکہ کو پیش کی گئی سابقہ ​​شرائط کی طرح ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کریملن کی شرائط وسیع اور ان مطالبات سے ملتی جلتی ہیں جو اس نے پہلے یوکرین، امریکہ اور نیٹو کو پیش کی تھیں۔

ابتدائی شرائط میں کییف کے لیے نیٹو کی رکنیت نہیں دینے، یوکرین میں غیر ملکی فوجیوں کی تعیناتی نہ کرنے کا معاہدہ اور صدر ولادیمیر پوٹن کے اس دعوے کو بین الاقوامی تسلیم کرنا کہ کریمیا اور اس کے چار صوبے روس کے ہیں، شامل تھیں۔

روس نے، حالیہ برسوں میں، امریکہ اور نیٹو سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع سمیت جنگ کی "بنیادی وجوہات" کو حل کریں۔

کچھ امریکی حکام، قانون سازوں اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ پوٹن، جو کے جی بی کے ایک سابق افسر ہیں، جنگ بندی کا استعمال، ان کے بقول امریکہ، یوکرین اور یورپ کو تقسیم کرنے اور کسی بھی بات چیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے لیے کریں گے ۔

روس کے سابقہ مطالبات کیا تھے؟

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اس ہفتے سعودی عرب میں امریکی اور یوکرینی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کو تعمیری قرار دیا، اور کہا کہ روس کے ساتھ ممکنہ 30 دن کی جنگ بندی کو وسیع تر امن معاہدے کے مسودے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ماسکو نے پچھلی دو دہائیوں کے دوران ایسے بہت سے مطالبات پیش کیے ہیں، جن میں سے کچھ نے امریکہ اور یورپ کے ساتھ باضابطہ بات چیت کا راستہ ہموار کیا۔

ماسکو نے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ 2021 کے آواخر اور 2022 کے اوائل میں ملاقاتوں کے سلسلے میں ان پر تبادلہ خیال کیا جب دسیوں ہزار روسی فوجی یوکرین کی سرحد پر حملہ کرنے کے حکم کے منتظر تھے۔

ان میں وہ مطالبات شامل تھے جو مشرقی یورپ سے وسطی ایشیا تک امریکی اور نیٹو کی فوجی کارروائیوں کو روکنے کے حوالے سے ہیں۔

گوکہ بائیڈن انتظامیہ نے ان میں سے کچھ شرائط کو مسترد کردیا لیکن روئٹرز نے جو دستاویزات دیکھے ہیں اور بعض سابق امریکی حکام کے مطابق واشنگٹن حملے کو روکنے کے لیے ان میں سے کئی پر روس کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا تھا۔

البتہ یہ کوشش ناکام ہو گئی اور روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کر دیا۔

مذاکرات کا نقطہ آغاز؟

امریکی اور روسی حکام نے حالیہ ہفتوں میں کہا ہے کہ 2022 میں استنبول میں واشنگٹن، کیف اور ماسکو کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا مسودہ امن مذاکرات کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے، یہ معاہدہ کبھی نہیں ہو سکا۔

ان مذاکرات میں روس نے مطالبہ کیا کہ یوکرین اپنے نیٹو کے عزائم ترک کر دے اور مستقل جوہری ہتھیاروں سے پاک حیثیت کو قبول کرے۔

اس نے جنگ کی صورت میں یوکرین کی مدد کرنے والے ممالک کے اقدامات پر ویٹو کا مطالبہ بھی کیا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ ماسکو کے ساتھ اپنے مذاکرات کے قریب کیسے پہنچ رہی ہے۔ دونوں فریق دو الگ الگ بات چیت میں مصروف ہیں: ایک امریکہ-روس تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے پر اور دوسرا یوکرین امن معاہدے پر۔ اور انتظامیہ آگے بڑھنے کے طریقہ کار پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔

دریں اثنا واشنگٹن میں حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ روس جنگ کو غیر مشروط طور پر روکنے پر راضی ہو۔

ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز،اے ایف پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مذاکرات کا یوکرین کے ماسکو نے بات چیت کے ساتھ رہے ہیں بات کی پیش کی کے لیے روس کے کہا کہ کہ روس

پڑھیں:

امریکا مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، ٹرمپ

واشنگٹن:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حالیہ اے آئی سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اے آئی (مصنوعی ذہانت) کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، امریکا نے اے آئی ٹیکنالوجی میں چین کو شکست دینے کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں، اور ہم اس دوڑ میں کامیابی حاصل کریں گے۔

اپنے خطاب میں انہں نے عالمی اقتصادی، تجارتی، اور توانائی کے میدان میں امریکا کی کامیابیوں اور آئندہ کے منصوبوں کا تفصیل سے ذکر کیا جس میں مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات، توانائی کے شعبے میں معاہدے، اور امریکی ٹیکنالوجی کی ترقی کے حوالے سے اہم اعلانات شامل تھے۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ جاپان کے ساتھ امریکا نے 15 فیصد تجارتی ٹیرف پر معاہدہ کیا ہے، جاپان نے مذاکرات کے ذریعے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم اپنے تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کریں گے اور ٹیرف کو 15 فیصد پر لے آئیں گے۔

 ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ مختلف ممالک پر 15 سے 50 فیصد کے درمیان ٹیرف عائد کریں گے تاکہ امریکا کی اقتصادی پوزیشن مزید مستحکم ہو۔

ٹرمپ نے یورپی یونین کے ساتھ بھی سنجیدہ مذاکرات جاری رکھنے کا ذکر کیا اور کہا کہ امریکا یورپی اتحادیوں کے ساتھ فوجی سازوسامان کی خریداری کے معاہدے مکمل کر چکا ہے۔

ٹرمپ نے چین کے ساتھ معاہدے کے تکمیل کے قریب ہونے کی خبر بھی دی اور کہا کہ چین کے ساتھ ہمارا معاہدہ مکمل کرنے کے مراحل میں ہے، اور ہم اپنی معیشت کو مزید مستحکم بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

امریکی صدر نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ امریکا عالمی توانائی منڈی میں مزید اہم کردار ادا کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دنیا کے سب سے بڑے توانائی کے ذخائر موجود ہیں، اور ہم ایشیائی ممالک کے ساتھ توانائی کے معاہدے کرنے جا رہے ہیں،  ہم تیل کی قیمتوں کو مزید نیچے لانا چاہتے ہیں تاکہ عالمی مارکیٹ میں استحکام آئے۔

صدر ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گرین انرجی کے نام پر امریکا کے ساتھ فراڈ کیا گیا ہے، بائیڈن دور کے احمقانہ صدارتی حکمنامے کو میں معطل کر رہا ہوں تاکہ امریکا کی معیشت کو مزید نقصان نہ پہنچے۔

ٹرمپ نے نیٹو اور امریکی اتحادیوں کے درمیان ایک اور اہم ڈیل پر زور دیا اور کہا کہ یورپی اتحادی امریکی فوجی سازوسامان کی 100 فیصد ادائیگی کریں گے تاکہ یوکرین کو جدید ہتھیار فراہم کیے جا سکیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ امریکا میں کاروبار کرنے والے ممالک پر ٹیرف کم کریں گے تاکہ تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دیا جا سکے اور عالمی منڈی میں امریکا کی پوزیشن مزید مضبوط ہو۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کو ’شکار کیا جائے گا‘، ٹرمپ وحشیانہ دھمکیوں پر اتر آئے
  • حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • 5اگست کے احتجاج کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آرہا،جس نے پارٹی میں گروہ بندی کی اسے نکال دوں گا،عمران خان
  • یوکرین کا زیلنسکی-پیوٹن براہِ راست مذاکرات کا مطالبہ، روس کی مختصر جنگ بندی کی تجویز
  • امریکا مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کو پیچھے چھوڑ دے گا، ٹرمپ
  • ٹرمپ کے سیز فائر دعوؤں پر راہول گاندھی وزیراعظم مودی پر برس پڑے
  • کیا نریندر مودی امریکی صدر ٹرمپ کی غلامی کرنا چاہتے ہیں، ملکارجن کھڑگے
  • پاکستان معاملے پر نریندر مودی حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے، راہل گاندھی
  • ٹرمپ کے پاک بھارت سیز فائر کے مسلسل بیانات، راہول گاندھی مودی پر برس پڑے