روس کا جنگ بندی سے انکار اس کے لیے 'تباہ کن' ہو گا، ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو خبردار کیا کہ اگر ماسکو نے یوکرین جنگ میں جنگ بندی کے معاہدے سے انکار کیا تو "تباہ کن" پابندیاں لگائی جائیں گی۔ ٹرمپ نے، یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے 30 دن کی جنگ بندی پر رضامندی کے بعد، کہا کہ مذاکرات کار ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے روس جارہے ہیں۔
یوکرین روس کے ساتھ تیس روزہ جنگ بندی کے لیے تیار
وائٹ ہاؤس میں آئرلینڈ کے وزیر اعظم مائیکل مارٹن کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے، ٹرمپ نے کہا کہ امریکی مذاکرات کار یوکرین کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی پر بات چیت کے لیے "ابھی" روس کی طرف جا رہے ہیں۔
(جاری ہے)
وائٹ ہاؤس نے بعد میں کہا کہ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اس ہفتے کے آخر میں ماسکو جا رہے ہیں۔
ٹرمپ نے صحافیوں کو بتایا کہ "ہم روس کے لیے بہت برا کام کر سکتے ہیں۔ یہ روس کے لیے تباہ کن ہوگا۔ لیکن میں ایسا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں امن دیکھنا چاہتا ہوں، اور ہم شاید کچھ کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔"
یوکرین کی جزوی جنگ بندی کی تجویز'امید افزا'، امریکہ
انہوں نے تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ " جیسا کہ میں کہہ رہا ہوں، ہمارے حکام اس وقت ماسکو جا رہے ہیں اور امید ہے کہ ہم روس سے جنگ بندی کروا سکتے ہیں۔
اور اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو میرے خیال میں یہ خوفناک خون کی ہولی کو ختم کرنے کا 80 فیصد راستہ ہو گا۔" روس نے اپنے مطالبات پیش کردیےیہ واضح نہیں ہے کہ ماسکو نے مطالبات کی اپنی فہرست میں اصل میں کیا باتیں کہی ہیں یا کیا وہ کییف کی منظوری سے قبل امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے تیار ہے۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ روسی اور امریکی حکام نے گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ذاتی اور ورچوئل گفتگو کے دوران شرائط پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
اس معاملے سے واقف دو افراد کے مطابق روس نے یوکرین کے خلاف جنگ ختم کرنے اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے مطالبات کی ایک فہرست واشنگٹن کو پیش کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ روس کے مطالبات امریکہ کو پیش کی گئی سابقہ شرائط کی طرح ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کریملن کی شرائط وسیع اور ان مطالبات سے ملتی جلتی ہیں جو اس نے پہلے یوکرین، امریکہ اور نیٹو کو پیش کی تھیں۔
ابتدائی شرائط میں کییف کے لیے نیٹو کی رکنیت نہیں دینے، یوکرین میں غیر ملکی فوجیوں کی تعیناتی نہ کرنے کا معاہدہ اور صدر ولادیمیر پوٹن کے اس دعوے کو بین الاقوامی تسلیم کرنا کہ کریمیا اور اس کے چار صوبے روس کے ہیں، شامل تھیں۔
روس نے، حالیہ برسوں میں، امریکہ اور نیٹو سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیٹو کی مشرق کی طرف توسیع سمیت جنگ کی "بنیادی وجوہات" کو حل کریں۔
کچھ امریکی حکام، قانون سازوں اور ماہرین کو خدشہ ہے کہ پوٹن، جو کے جی بی کے ایک سابق افسر ہیں، جنگ بندی کا استعمال، ان کے بقول امریکہ، یوکرین اور یورپ کو تقسیم کرنے اور کسی بھی بات چیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے لیے کریں گے ۔
روس کے سابقہ مطالبات کیا تھے؟یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اس ہفتے سعودی عرب میں امریکی اور یوکرینی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات کو تعمیری قرار دیا، اور کہا کہ روس کے ساتھ ممکنہ 30 دن کی جنگ بندی کو وسیع تر امن معاہدے کے مسودے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ماسکو نے پچھلی دو دہائیوں کے دوران ایسے بہت سے مطالبات پیش کیے ہیں، جن میں سے کچھ نے امریکہ اور یورپ کے ساتھ باضابطہ بات چیت کا راستہ ہموار کیا۔
ماسکو نے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ 2021 کے آواخر اور 2022 کے اوائل میں ملاقاتوں کے سلسلے میں ان پر تبادلہ خیال کیا جب دسیوں ہزار روسی فوجی یوکرین کی سرحد پر حملہ کرنے کے حکم کے منتظر تھے۔
ان میں وہ مطالبات شامل تھے جو مشرقی یورپ سے وسطی ایشیا تک امریکی اور نیٹو کی فوجی کارروائیوں کو روکنے کے حوالے سے ہیں۔
گوکہ بائیڈن انتظامیہ نے ان میں سے کچھ شرائط کو مسترد کردیا لیکن روئٹرز نے جو دستاویزات دیکھے ہیں اور بعض سابق امریکی حکام کے مطابق واشنگٹن حملے کو روکنے کے لیے ان میں سے کئی پر روس کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا تھا۔
البتہ یہ کوشش ناکام ہو گئی اور روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کر دیا۔
مذاکرات کا نقطہ آغاز؟امریکی اور روسی حکام نے حالیہ ہفتوں میں کہا ہے کہ 2022 میں استنبول میں واشنگٹن، کیف اور ماسکو کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا مسودہ امن مذاکرات کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے، یہ معاہدہ کبھی نہیں ہو سکا۔
ان مذاکرات میں روس نے مطالبہ کیا کہ یوکرین اپنے نیٹو کے عزائم ترک کر دے اور مستقل جوہری ہتھیاروں سے پاک حیثیت کو قبول کرے۔
اس نے جنگ کی صورت میں یوکرین کی مدد کرنے والے ممالک کے اقدامات پر ویٹو کا مطالبہ بھی کیا۔ٹرمپ انتظامیہ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ وہ ماسکو کے ساتھ اپنے مذاکرات کے قریب کیسے پہنچ رہی ہے۔ دونوں فریق دو الگ الگ بات چیت میں مصروف ہیں: ایک امریکہ-روس تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے پر اور دوسرا یوکرین امن معاہدے پر۔ اور انتظامیہ آگے بڑھنے کے طریقہ کار پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔
دریں اثنا واشنگٹن میں حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ روس جنگ کو غیر مشروط طور پر روکنے پر راضی ہو۔
ج ا ⁄ ص ز (روئٹرز،اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے مذاکرات کا یوکرین کے ماسکو نے بات چیت کے ساتھ رہے ہیں بات کی پیش کی کے لیے روس کے کہا کہ کہ روس
پڑھیں:
فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا
فورسز کی موثر کاروائیاں،عسکریت پسندوں کو اکتوبر میں تباہ کن نقصانات کا سامنا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (آئی پی ایس )اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان میں اکتوبر کے مہینے میں عسکریت پسندوں کو گزشتہ 10 سال میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، کیوں کہ سیکیورٹی فورسز نے ملک کے مختلف علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی لائی ہے۔پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ پیش رفت ستمبر میں عسکریت پسندوں کے دبا میں آنے کے بعد سامنے آئی ہے، جب 69 حملے ریکارڈ ہوئے تھے، اور اگست کے مقابلے میں حملوں میں 52 فیصد کمی دیکھی گئی تھی۔
تھنک ٹینک کی آج جاری کردہ ماہانہ رپورٹ کے مطابق، اکتوبر میں 355 عسکریت پسند ہلاک ہوئے، 72 سیکیورٹی اہلکار اور 31 عام شہری بھی جاں بحق ہوئے، جن میں بنوں میں امن کمیٹی کا ایک رکن بھی شامل تھا۔مزید برآں، ملک بھر میں 92 سیکیورٹی اہلکار، 48 عام شہری اور 22 عسکریت پسند زخمی ہوئے۔اگرچہ پی آئی سی ایس ایس کے مطابق ستمبر کے 69 حملوں کے مقابلے میں اکتوبر میں عسکریت پسندانہ حملوں میں 29 فیصد اضافہ (89 حملے) ہوا، لیکن ان حملوں میں مجموعی جانی نقصان میں 19 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گزشتہ ماہ عسکریت پسندوں نے 55 افراد کو اغوا کیا، جو پچھلی ایک دہائی میں اغوا کے سب سے زیادہ ماہانہ واقعات ہیں، جب کہ سیکیورٹی فورسز نے 22 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق عسکریت پسندوں کے حملوں میں 55 سیکیورٹی اہلکار، 29 عام شہری، ایک امن کمیٹی کا رکن اور 24 شدت پسند مارے گئے۔ان حملوں میں 88 سیکیورٹی اہلکار، 45 شہری اور ایک عسکریت پسند زخمی ہوئے۔بلوچستان میں اکتوبر کے دوران 23 عسکریت پسند حملے ہوئے، جو ستمبر کے 21 سے کچھ زیادہ تھے
، تاہم ہلاکتوں میں نمایاں کمی دیکھی گئی، سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات 33 سے گھٹ کر 16 اور شہریوں کی 38 سے کم ہو کر 3 رہ گئیں۔دونوں مہینوں میں 8 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔زخمی ہونے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد 37 سے کم ہو کر 15، جب کہ شہریوں کی تعداد 85 سے گھٹ کر 20 رہ گئی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ اکتوبر میں عسکریت پسندوں نے 31 افراد اغوا کیے، جن میں زیادہ تر مزدور تھے۔انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے حوالے سے پی آئی سی ایس ایس نے بتایا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز نے 67 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا، جو 2002 کے بعد سے ایک مہینے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ادارے نے اسے صوبے کی سیکیورٹی صورتحال میں نمایاں بہتری قرار دیا، کیوں کہ شہریوں کی ہلاکتوں میں 92 فیصد اور سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات میں 52 فیصد کمی آئی ہے۔
سابق قبائلی اضلاع میں 22 عسکریت پسند حملے ریکارڈ ہوئے، جو ستمبر کے برابر تھے مگر جانی نقصان میں نمایاں اضافہ ہوا۔ان حملوں میں کل 31 افراد مارے گئے، جن میں 18 سیکیورٹی اہلکار اور 13 شہری شامل تھے، جبکہ 45 افراد زخمی ہوئے، جن میں 32 سیکیورٹی اہلکار اور 13 شہری تھے۔عسکریت پسندوں نے علاقے سے 18 افراد کو اغوا بھی کیا۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق اس خطے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی اموات میں 200 فیصد اضافہ ہوا (6 سے بڑھ کر 18)، جب کہ مجموعی ہلاکتوں میں 48 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 209 عسکریت پسند مارے گئے، جو نومبر 2014 کے بعد کسی ایک مہینے میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ان کارروائیوں میں 16 سیکیورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے،
جن میں اورکزئی ضلع میں پیش آنے والا سب سے خونریز واقعہ شامل ہے، جس کے بعد افغانستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی پیدا ہوئی۔ادارے نے تصدیق کی کہ سیکیورٹی فورسز نے کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق نائب امیر اور شیڈو وزیرِ دفاع، قاری امجد کو باجوڑ میں ہلاک کیا، جو 2007 میں ٹی ٹی پی کے قیام کے بعد سب سے ہائی پروفائل ہلاکت ہے۔خیبر پختونخوا میں اکتوبر کے دوران 37 عسکریت پسند حملے ہوئے، جو ستمبر کے 25 حملوں سے زیادہ ہیں، جن میں 48 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 21 سیکیورٹی اہلکار، 10 شہری، 16 عسکریت پسند اور ایک امن کمیٹی رکن شامل ہیں۔
مجموعی طور پر 42 افراد زخمی ہوئے، جن میں 35 سیکیورٹی اہلکار اور 7 شہری شامل تھے، جبکہ 4 افراد کو عسکریت پسندوں نے اغوا کیا۔سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 55 عسکریت پسند مارے گئے، جب کہ ایک اہلکار شہید ہوا۔ستمبر کے مقابلے میں اکتوبر میں کارروائیوں میں عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تعداد 88 سے کم ہو کر 55 رہی۔سندھ میں 3 حملوں میں 3 شہری ہلاک اور 7 افراد زخمی ہوئے، جن میں 4 شہری اور 3 سیکیورٹی اہلکار شامل تھے۔پی آئی سی ایس ایس کے مطابق، کالعدم زینبیون بریگیڈ کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا گیا، جس کے اہم کمانڈرز سمیت 8 مشتبہ عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا گیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکا نے چین کی معدنی بالادستی کے توازن کیلئے پاکستان سے مدد طلب کرلی امریکا نے چین کی معدنی بالادستی کے توازن کیلئے پاکستان سے مدد طلب کرلی خطے میں کسی نے بدمعاشی ثابت کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا: ملک احمد خان بھارتی خفیہ ایجنسی نے پاکستانی مچھیرے کو پیسوں کا لالچ دیکر اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا، عطا تارڑ ڈی جی این سی سی آئی اے نے ضبط تمام جائیدادوں،گاڑیوں کی تفصیلات مانگ لیں وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے داخلے پر نئی پابندیاں عائد پنجاب میں اب کسی غریب اور کمزور کی زمین پرقبضہ نہیں ہوگا، وزیر اطلاعات پنجابCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم