سویلینز کا ملٹری ٹرائل: قانون کے اطلاق کا معیار طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں، وکیل خواجہ حارث
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کررہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ بنایا ہی اسی لیے جاتا ہے کہ فوج کو ڈسپلن میں رکھا جا سکے، ان کی رائے میں پارلیمنٹ کے بجائے آئین پاکستان سپریم ہے کیونکہ پارلیمنٹ بھی آئین کے تابع ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: یہ کوئی ہائیکورٹ نہیں کہ دائرہ سماعت محدود ہوگا، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث بولے؛ ایک شق کے بجائے آئین پاکستان کو مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے،کسی قانون کے اطلاق کا معیار کیا ہوگا یہ طے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے عدلیہ کا نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا کل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ سویلینز کے لیے مزید شقیں بھی شامل کر سکتا ہے، جس پر خواجہ حارث کا موقف تھا کہ یہ سوال عدالت کے سامنے ہے ہی نہیں، چیلنج شدہ فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 8(5) میں نہیں جانا چاہیے تھا۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: سپریم کورٹ کا کسی پارٹی کے دلائل پر انحصار لازمی نہیں ہوتا، جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 8(3) میں بنیادی حقوق سے استثنیٰ دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ استثنیٰ صرف آرمڈ فورسز تک ہے یا اس کا دائرہ اختیار سویلینز تک بڑھایا جاسکتا ہے۔
خواجہ حارث کے مطابق آئین کے آرٹیکل 8(3) صرف آرمڈ فورسز کے اراکین کے لیے نہیں اس میں سویلینز کو بھی لایا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: آرٹیکل 245 کے تحت بھی فوج کو جوڈیشل اختیار حاصل نہیں، وکیل حامد خان کا موقف
جس پر جسٹس جمال مندوخیل بولے؛ چلیں مان لیتے ہیں کہ 1962 کے آئین کے تحت ایف بی علی کیس میں سویلینز کو ٹرائل کیا جاسکتا تھا، لیکن کیا سویلینز کا فوجی عدالتوں میں کورٹ مارشل 1973 کے آئین کے مطابق ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ کورٹ مارشل آرٹیکل 175(3) اور آرٹیکل 10 اے کے مطابق ہے، جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ اس کا جواب دیں گے مگر پہلے آرٹیکل 8 پر دلائل مکمل کرلیں۔
مزید پڑھیں: سویلینز کا ملٹری ٹرائل: آرمی ایکٹ میں فراہم پروسیجر پر عمل نہ ہونا الگ بات ہے، جسٹس محمد علی مظہر کے ریمارکس
خواجہ حارث کے مطابق ہمیں پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ چیلنج شدہ فیصلے میں کیا خرابیاں ہیں، یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کون سے ایسے نئے نکات ہیں جنہیں اس اپیل میں طے کرنا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان خواجہ حارث سپریم کورٹ ملٹری ٹرائل.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین خان خواجہ حارث سپریم کورٹ ملٹری ٹرائل سویلینز کا ملٹری ٹرائل جسٹس جمال مندوخیل خواجہ حارث کے مطابق آرٹیکل 8 آئین کے
پڑھیں:
الیکشن کمیشن فائنل آرڈر پاس نہیں کرے گا،چیف الیکشن کمشنر
بیرسٹر گوہر پی ٹی آئی سربراہ کیسے بنے ،انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں الیکشن کمیشن کا سوال
الیکشن کمیشن کو پارٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں، وکیل پی ٹی آئی
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت ہوئی، ممبر خیبر پختونخوا جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے ریمارکس دیے کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ، پھر چیئرمین پی ٹی آئی کیسے بن گئے ؟تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو پارٹی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں، نہ ہی انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگی پر کمیشن جماعت کو ریگولیٹ کر سکتا ہے ۔تحریک انصاف انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں بینچ نے کی۔پی ٹی آئی کے وکیل عزیز بھنڈاری نے دلائل دیے کہ لاہور ہائی کورٹ نے انٹرا پارٹی کیس میں الیکشن کمیشن کو فیصلے سے روکا ہے ۔چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن فائنل آرڈر پاس نہیں کرے گا۔دوران سماعت الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لا نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند ہوتی ہے ، پی ٹی آئی 2021 میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کی پابند تھی، پی ٹی آئی نے نیشنل کونسل کی عدم موجودگی میں جنرل باڈی سے آئین منظور کروایا، کیا پارٹی آئین میں جنرل باڈی ہے ؟انہوں نے کہا کہ انتظامی ڈھانچے کی عدم موجودگی میں فنانشل اکاؤنٹ کسی تصدیق کے بغیر ہیں۔درخواست گزار اکبر ایس بابر نے استدعا کی کہ پی ٹی آئی کے فنڈز منجمد کیے جائیں، انتظامی ڈھانچے کے بغیر انتخابات کیسے ہوئے ؟ سلمان اکرم راجا کو سیکریٹری جنرل بنانا غیر آئینی ہے ۔الیکشن کمیشن کے ممبر کے پی جسٹس ریٹائرڈ اکرام اللہ نے ریمارکس کہا کہ بیرسٹر گوہر سنی اتحاد کونسل میں
شامل ہوئے ، پھر پی ٹی آئی کے چیئرمین کیسے بن سکتے ہیں؟چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے دلائل دیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کی تفصیلات پارٹی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ممبر سندھ نثار درانی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے الیکشن تو کروائے ، تاہم خلاف قانون ہوئے ۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حکم پر 23 نومبر کو الیکشن کرائے گئے ، لیکن کمیشن نے الیکشن تسلیم ہی نہیں کیا، آئین پاکستان 90 روز میں جنرل الیکشن کا کہتا ہے کیا وہ کرائے گئے ؟وکیل نے کہا کہ اگر انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائے جائیں تو کیا پارٹی ختم ہو جاتی ہے ؟ اگر یہ فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو پھر چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن میں بے ضابطگی پر سیاسی جماعت ریگولیٹ کرنے اور پارٹی معاملات میں مداخلت کا اختیار ہی نہیں۔الیکشن کمیشن نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔