پاکستانی خاتون ماہر تعمیرات نے 2.8 کروڑ کا اسرائیلی وولف ایوارڈ ریجیکٹ کردیا
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
یاسمین لاری کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ان کی حمایت اور انسانیت کے ساتھ کھڑے ہونے کے اصولوں کے تحت اس اعزاز کو قبول کرنا ان کے ضمیر کے خلاف ہوتا۔ یاسمین لاری کا یہ فیصلہ عالمی سطح پر ایک جرات مندانہ اور اخلاقی موقف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ معروف پاکستانی آرکیٹیکٹ یاسمین لاری نے غزہ میں فلسطینیوں کی ”مسلسل نسل کشی“ کے خلاف اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے فن تعمیر کے شعبے کا اہم عالمی ایوارڈ وولف پرائز 2025 مسترد کر دیا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایوارڈ کے ساتھ دی جانے والی ایک لاکھ ڈالر کی انعامی رقم ( تقریباً 2 کروڑ 80 لاکھ پاکستانی روپے) بھی لینے سے انکار کر دیا۔ یاسمین لاری کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے ان کی حمایت اور انسانیت کے ساتھ کھڑے ہونے کے اصولوں کے تحت اس اعزاز کو قبول کرنا ان کے ضمیر کے خلاف ہوتا۔ یاسمین لاری کا یہ فیصلہ عالمی سطح پر ایک جرات مندانہ اور اخلاقی موقف کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک پر خاموش رہنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا، اور وہ اس وقت تک کسی قسم کا انعام یا ایوارڈ قبول نہیں کر سکتیں جب تک فلسطینیوں کے حقوق کا مکمل احترام نہ کیا جائے۔ یاسمین لاری کا کہنا تھا کہ فلسطین میں جاری ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کرنا ان کا اخلاقی فرض ہے۔ ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہے اور ان کی آزادی اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنا ہے، انہوں نے اپنے بیان میں کہا۔ یاسمین لاری نے 1970 کی دہائی میں پاکستان میں ایک جدید طرز کی آرکیٹیکچر کی بنیاد رکھی اور اپنے کام میں ماحولیاتی اور سماجی انصاف کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
وہ اپنے کیریئر میں کئی بین الاقوامی اعزازات اور ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں، اور اب تک ان کے کام کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔ یادرہے کہ وولف پرائز جو 1978 سے ہر سال اسرائیل میں دیا جاتا ہے، دنیا بھر کے سائنس دانوں اور فنکاروں کو ان کے نمایاں کاموں پر دیا جاتا ہے۔ اس ایوارڈ کا مقصد انسانی بھلائی اور اقوام کے درمیان بہتر تعلقات کو فروغ دینا ہے، لیکن یاسمین لاری نے اس کا حق کو تسلیم کرتے ہوئے انصافی اور انسانی بنیادوں پر اپنے فیصلے کا دفاع کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یاسمین لاری کا فلسطینیوں کے اور انسانی کے ساتھ کے خلاف کے لیے اور ان
پڑھیں:
تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان
سرخ رنگ کی مشہور لاری، جسے مقامی طور پر ’لاری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کی ایک اہم ثقافتی علامت بن چکی ہے۔ 1940 سے 1970 کی دہائی کے درمیان، جب سفر کے ذرائع محدود تھے اور حالات مشکل، تو اسی سرخ لاری نے نقل و حمل میں بنیادی کردار ادا کیا، ان لاریوں نے دور دراز دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
سعودی پریس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق مورخ عبداللہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ اس دور میں مقامی باشندے اور حجاج کرام لمبے سفر کے لیے انہی لاریوں پر انحصار کرتے تھے، جو کئی دنوں پر محیط ہوتے تھے۔ ’ سرخ لاری نقل و حمل میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی، خاص طور پر خاندانوں اور بچوں کے لیے آرام دہ ذریعہ سفر کے طور پر۔‘
یہ بھی پڑھیں:
صرف مسافروں کی آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ان لاریوں کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ’یہ گاڑیاں کھانے پینے کی اشیاء کو بازاروں اور تجارتی مراکز تک پہنچاتیں، جبکہ تاجر کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسا سامان بھی ان کے ذریعے منتقل کرتے، جس سے دیہی تجارت کو فروغ اور خطے کی باہمی وابستگی کو تقویت ملی۔‘
طائف کے جنوبی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری سالم الابدالی نے بتایا کہ ان کے والد ایک سرخ لاری چلاتے تھے، انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان لاریوں کا سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے کی چھت، جو مسافروں کو موسم کی شدت سے بچاتی تھی، سب کچھ منفرد تھا۔
مزید پڑھیں:
سالم الابدالی کے مطابق، سرخ لاری اونٹوں کے بعد مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم سفری ذریعہ تھی اور اس سے کئی داستانیں، تجربات اور سفر کے دوران گائے جانے والے لوک نغمے جُڑے ہوئے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو دیہاتیوں کو مفت میں بھی سفری سہولت دیتے تھے، جو اس دور کی باہمی مدد اور سماجی یکجہتی کی اعلیٰ مثال تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
خلیج سرخ سعودی عرب لاری