اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 13 مارچ 2025ء) انسانی حقوق کی پامالیوں پر اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں پر مشتمل کمیشن آف انکوائری نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں الزام عائد کیا ہے کہ غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی جانب سے بچوں سمیت فلسطینیوں کے خلاف جنسی و صنفی بنیاد پر تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے رکن کرس سیدوتی کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو کمزور کرنے کے لیے ان کے خلاف جنسی، تولیدی اور دیگر طرح کے صنفی تشدد کا اطلاق کیا ہے۔

Tweet URL

انہوں نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کو بتایا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں جنسی و صنفی بنیاد پر ہونے والے جرائم کی رفتار، پھیلاؤ اور شدت کو دیکھتےہوئے کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کو غیرمستحکم کرنے، ان پر غلبہ پانے، انہیں دبانے اور تباہ کرنے کے لیے سوچے سمجھے انداز میں ایسے تشدد کا ارتکاب کیا۔

(جاری ہے)

کرس سیدوتی نے یہ بات کونسل کو اس مسئلے پر کمیشن کی تازہ ترین رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہی۔ اس کمیشن کو مئی 2021 میں قائم کیا گیا تھا جسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں بشمول مشرقی یروشلم میں بین الاقوامی قانون کی مبینہ پامالیوں کی تحقیقات کرنے اور اپنی رپورٹ دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

اسرائیل کا عدم تعاون

کمیشن اس سے قبل 7 اور 8 اکتوبر 2023 کو حماس کے زیرقیادت فلسطینی مسلح گروہوں کی جانب سے اسرائیلی دیہات اور قصبوں پر دہشت گرد حملوں کی تفصیلات بھی کونسل کو پیش کر چکا ہے۔

کمیشن کی پیش کردہ حالیہ رپورٹ میں جنسی و تولیدی تشدد کے متاثرین و گواہوں اور انہیں مدد دینے والے طبی عملے کے بیانات بھی شامل ہیں جبکہ سول سوسائٹی کے نمائندوں، ماہرین تعلیم، وکلا اور طبی ماہرین سے کی جانے والی بات چیت بھی اس رپورٹ کا حصہ ہے۔

کرس سیدوتی نے کہا ہے کہ کمیشن نے اسرائیلی حکام کو غزہ میں گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کے خلاف جنسی و صنفی بنیاد پر تشدد کے مبینہ واقعات سے متعلق معلومات دینے کی متعدد درخواستیں دیں۔

تاہم اسرائیل کی جانب سے اس کی سکیورٹی فورسز یا اس تشدد میں ملوث آباد کاروں کے خلاف کسی قانونی کارروائی کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔تشدد کی حوصلہ افزائی

کمیشن کی رپورٹ ساتھ جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے فلسطینیوں کو سرعام جبراً برہنہ کرنے، انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے، جنسی زیادتی کی دھمکیوں اور جنسی حملوں جیسے ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا۔

اس کے علاوہ فلسطینیوں کے خلاف جنسی زیادتی اور ان کے جنسی اعضا کو نقصان پہنچانے جیسے طریقے بھی اختیار کیے گئے اور نوجوانوں کو سخت سردی میں مکمل برہنہ کر کے تین یوم تک ننگی زمین پر بٹھایا گیا۔ جنسی و صنفی بنیاد پر تشدد کے لیے اہلکاروں کو یا تو واضح احکامات دیے گئے تھے یا اسرائیل کی اعلیٰ سویلین اور فوجی قیادت کی طرف سے ایسے ہتھکنڈوں کی حوصلہ افزائی کی گئی تھی۔

تولیدی صحت کے مراکز کی تباہی

کمیشن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے منظم طور سے غزہ میں جنسی و تولیدی صحت کے مراکز کو تباہ کیا۔ ان میں تولیدی خدمات مہیا کرنے والا غزہ کا سب سے بڑا کلینک البسمہ سنٹر بھی شامل ہے۔ ٹینکوں کی بمباری کے باعث اس کلینک میں تقریباً 4,000 ایمبریو تباہ ہو گئے۔ اس مرکز پر ماہانہ تقریباً 3,000 لوگوں کو مدد مہیا کی جاتی تھی۔

تاہم، ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بمباری کرنے والے اس بات سے آگاہ تھے کہ یہ ایک طبی مرکز ہے۔ تاہم، یقینی طور پر ان کے کمانڈر کو اس بات کا علم تھا کیونکہ جنگ کے دوران طبی مراکز پر ان کی نشاندہی کرنے والے واضح نشانات موجود تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ میں طبی مراکز کی تباہی میثاق روم اور انسداد نسل کشی کنونشن کے تحت دو طرح کی نسل کشی کی ذیل میں آتی ہے جس میں لوگوں کو جسمانی طور پر ختم کرنے اور بچوں کی پیدائش کو روکنے کے اقدامات شامل ہیں۔

کمیشن کی سربراہ نیوی پلائی نے کہا ہے کہ تولیدی صحت کے مراکز کی تباہی، ہسپتالوں میں زچہ وارڈ اور آئی وی ایف کلینک پر براہ راست حملوں اور بھوک کے بطور جنگی ہتھیار استعمال سے تولیدی عمل کا ہر پہلو متاثر ہوا۔ اس سے خواتین اور لڑکیوں کو ناصرف شدید اور فوری جسمانی و زہنی نقصان پہنچا بلکہ ان کی طویل مدتی ذہنی و تولیدی صحت اور حمل کے امکانات بھی متاثر ہوئے ہیں۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے جنسی و صنفی بنیاد پر ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے کے خلاف جنسی کمیشن کی

پڑھیں:

غزہ کے جلاد کا آخری ہتھیار

اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، یونیسف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا مکمل گھیراو کر کے اور ہر قسم کی غذائی اشیاء، پانی، دوائیاں اور ایندھن کی منتقلی روک کر جان بوجھ کر غزہ میں قحط پیدا کیا ہے۔ غذا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مائیکل فخری نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "غزہ میں بھوک کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ انسانی ساختہ قحط ہے جو محاصرے، زراعت سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی نابودی اور انسانی امداد کی غزہ منتقلی روک کر پیدا کیا گیا ہے۔" یونیسف نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت شدید حد تک بڑھ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد تعداد غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہے۔ تحریر: رسول قبادی
 
غزہ کی پٹی، جو طویل محاصرے کا شکار چھوٹا سا علاقہ ہے اس وقت اکیسویں صدی کے سب سے بڑے انسانی المیے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا گھیراو تنگ کرتے ہوئے ایک طرف تو اسے شدید فضائی بمباری کا نشانہ بنا رکھا ہے جبکہ دوسری طرف ہر قسم کی انسانی امداد غزہ میں داخل ہونے سے روک رکھی ہے۔ یوں صیہونی فوج 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر بروئے کار لانے میں مصروف ہے۔ دوسری طرف اس گھناونے مجرمانہ اقدام پر، جو واضح طور پر نسل کشی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کا مصداق ہے، بعض عرب اور اسلامی ممالک نے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے بلکہ اس سے بھی بالاتر یہ کہ کچھ عرب ممالک تو حتی اسرائیل سے دوستی اور تعاون بڑھانے میں مصروف ہیں۔
 
بھوک کا جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال
اقوام متحدہ، یونیسف اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد بین الاقوامی تنظیموں کی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ غاصب صیہونی رژیم نے غزہ کا مکمل گھیراو کر کے اور ہر قسم کی غذائی اشیاء، پانی، دوائیاں اور ایندھن کی منتقلی روک کر جان بوجھ کر غزہ میں قحط پیدا کیا ہے۔ غذا کے امور میں اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مائیکل فخری نے اپنے بیانیے میں کہا ہے: "غزہ میں بھوک کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور یہ انسانی ساختہ قحط ہے جو محاصرے، زراعت سے متعلقہ انفرااسٹرکچر کی نابودی اور انسانی امداد کی غزہ منتقلی روک کر پیدا کیا گیا ہے۔" یونیسف نے بھی اپنی رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ غزہ کے بچوں میں غذائی قلت شدید حد تک بڑھ گئی ہے اور پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 50 فیصد تعداد غذائی قلت کے باعث خرابی صحت کا شکار ہے۔
 
امداد رسانی کے بہانے عام شہریوں کا قتل عام
غزہ میں جاری ایک انتہائی مجرمانہ اقدام فلسطینیوں کو امداد فراہم کرنے کے بہانے بلا کر گولیوں کا نشانہ بنانا ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق صیہونی ٹھیکے دار جنہوں نے غزہ میں امداد تقسیم کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، بھوکے فلسطینی شہریوں کے خلاف جنگی ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ شائع ہونے والی رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقدامات انتہائی مشکوک اور مرموز ہیں جن میں اب تک 700 کے قریب عام فلسطینی شہری شہید اور ہزاورں زخمی ہو چکے ہیں۔ غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ گذشتہ چوبیس گھنٹے میں کم از کم 18 فلسطینی بھوک کی وجہ سے شہید ہو گئے ہیں جبکہ غذا کی تلاش کرنے والے 70 فلسطینی صیہونی فوج کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ حملے جو "آزادانہ قتل عام" کے نام سے مشہور ہو چکے ہیں، جنگ سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی اور عام شہریوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا مصداق ہیں۔
 
غزہ میں نازک انسانی صورتحال
غزہ اس وقت بھرپور انسانی المیے کے دہانے پر کھڑا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کی کل آبادی کا 90 فیصد حصہ جلاوطنی پر مجبور ہو چکا ہے اور 18 لاکھ سے زیادہ فلسطینی انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں عارضی کیمپس میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ پانی کی قلت، وبائی امراض جیسے ہیپاٹائٹ پھیل جانا، میڈیکل سہولیات کا تقریباً نہ ہونا اور دیگر مسائل نے فلسطینیوں کی زندگی دوبھر کر دی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اعلان کیا ہے کہ مارچ 2025ء سے اب تک کم از کم 57 بچے بھوک کے باعث شہید ہو چکے ہیں اور موت کے خطرے سے روبرو فلسطینی بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ غزہ کے اسپتال اور طبی مراکز صیہونی بمباری اور جارحیت کے نتیجے میں ناکارہ ہو چکے ہیں اور بھوک کے مارے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی تصاویر دل دہلا دینے کے لیے کافی ہیں۔
 
عرب اور اسلامی ممالک کی کوتاہی
اس انسانی المیے پر عرب اور اسلامی ممالک کی خاموشی درحقیقت فلسطین کاز اور انسانی اقدار سے غداری کے مترادف ہے۔ ایک طرف اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اپنے مجرمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ دوسری طرف اسلامی ممالک نے توقع کے برخلاف مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اسرائیل کے خلاف سفارتی، اقتصادی اور سیاسی دباو ڈالنے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر خلیجی عرب ریاستوں نے اسرائیل سے تجارتی تعلقات پہلے کی طرح جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں سیاسی اور اقتصادی مفادات کی اہمیت بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کی جان سے زیادہ اہم ہے۔ عالمی فوجداری عدالت کی جانب سے اسرائیلی حکمرانوں پر نسل کشی کے الزام میں فرد جرم عائد کی جا چکی ہے اور یہ اسلامی ممالک اس کی بنیاد پر اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر سکتے تھے۔
 
عمل کا وقت ہے
غزہ میں اسرائیلی جرائم خاص طور پر بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، بین الاقوامی قوانین، جنیوا کنونشن اور ابتدائی انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یہ انسانی المیہ عالمی برادری خاص طور پر اسلامی ممالک کی جانب سے فوری اور موثر اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اسلامی ذرائع ابلاغ ان حکمرانوں کا چہرہ عیاں کریں جو فلسطین کاز سے غداری میں مصروف ہیں اور عوام کو فلسطینیوں کی حمایت کی ترغیب دلائیں۔ عالمی سطح پر فلسطین میں اسرائیلی ظلم و ستم سے آگاھی بڑھتی جا رہی ہے اور انسانی معاشرے بیدار ہو رہے ہیں۔ برطانیہ سمیت تقریباً 27 مغربی ممالک نے مشترکہ بیانیے میں صیہونی رژیم پر عام شہریوں کے وحشت ناک قتل عام اور جان بوجھ کر انسانی امداد روکنے کا الزام عائد کیا ہے اور فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف کچھ اسلامی ممالک ایسے بھی ہیں جو زور شور سے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • مشہور برطانوی اداکار جنسی زیادتی اور تشدد کے سنگین الزامات کی زد میں
  • غزہ کے جلاد کا آخری ہتھیار
  • امریکا اور اسرائیل کا غزہ جنگ بندی مذاکرات سے اچانک انخلا، حماس پر نیک نیتی کی کمی کا الزام
  • خیبرپختونخوا: رواں سال خواجہ سراؤں پر تشدد کے 12 اور قتل کے 15کیسز رپورٹ
  • امریکی اداکارہ خاتون پر حملے، تشدد اور چوری کے الزام میں گرفتار
  • نسل کشی کا جنون
  • شوہر کے بدترین جنسی تشدد کا شکار ہونے والی بیوی زندگی کی بازی ہار گئی
  • دبئی میں بطور ویٹرس کام کرنے والی لڑکی مس یونیورس فلپائنز 2025 کی امیدوار کیسے بنی؟
  • ایمنسٹی کا اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام: تہران جیل پر حملے کی تحقیقات کا مطالبہ
  • اسرائیلی فوج نے غزہ میں امداد لینے والے 1000 سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا، اقوامِ متحدہ کا انکشاف