افغان پناہ گزینوں کی واپسی: بروقت اور درست فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, March 2025 GMT
پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جنہوں نے افغانستان کی بقاء و سلامتی اور قیام امن کے لیئے بے شمار جانی اور مالی قربانیاں دینے کے ساتھ ساتھ ہر آڑے وقت میں ہمیشہ افغانستان کی مدد کی ہے جس پر افغانی حکومتوں اور افغانیوں کو یوں تو پاکستان کا ممنون و مشکور ہونا چاہئے تھا لیکن بین الاقوامی قوتوں کے ہاتھ میں کھیلنے والی افغانی کٹھ پتلی حکومتوں نے ہمیشہ ہی بھارتی چانکیائی فلسفے پر چلتے ہوئے پاکستان کو ہمیشہ دوست، مددگار اور بڑا بھائی سمجھنے کی بجائے اپنا دشمن سمجھا ہے جس کی ایک بڑی وجہ مغربی دنیا اور بھارت کا افغانستان میں اپنے مفادات کے لیئے گٹھ جوڑ بھی ہے۔
اس گٹھ جوڑ کی ایک بہترین مثال جنرل مشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید قصوری نے اپنی کتاب Neither Dove Nor A Hawk میں دی ہے۔ خورشید قصوری اپنی کتاب کے صفحہ 279-278 پر لکھتا ہے کہ "پاکستان نے حامد کرزئی (افغانی صدر) کو افغانی فارن افیئرز اور ڈیفنس منسٹر کے وہ خطوط دکھائے جن سے ثابت ہوتا تھا کہ افغانستان بھارت کے ساتھ ملکر پاکستان کے مغربی علاقوں (فاٹا اور بلوچستان) میں گڑ بڑ (دہشت گردی) کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والے ان افغانیوں کو سادگی کے ساتھ تین گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جن میں پہلا گروہ تو ہو ہے جن کی باقاعدہ رجسٹریشن ہے اور ان کو پاکستانی حکومت نے کارڈ جاری کر رکھے ہیں اور وہ مہاجرین کیمپس میں رہ رہے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جن کے پاس ڈاکو منٹ نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں لیکن وہ پورے پاکستان کے طول و عرض میں ناصرف قانونی اور غیر قانونی طور پر دندناتے پھر رہے ہیں بلکہ بڑے مزے سے کاروبار بھی کر رہے ہیں۔
تیسرا گروہ وہ ہے جنہوں نے پاکستانی محکموں کے افراد کے ساتھ پاکستانی شناختی کارڈبنوا رکھے ہیں۔ پاک افغان ٹینشن کے قطع نظر ان لوگوں نے پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں اپنی اپنی بستیاں بسا رکھی ہیں جس سے ناصرف ہر شہر کا ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ پاکستان میں دہشت گردوں کی سہولتکاری میں بھی کئی مواقعوں پر یہی افغانی ملوث پائے گئے ہیں۔ کراچی کی ہی مثال لے لیں کراچی میں اس وقت تقریباً چار لاکھ کے قریب افغانی مقیم ہیں۔
تاریخ کے اعتبار سے موجودہ پاکستان کی افغانی تارکین وطن کو واپسی کی ڈیڈ لائن ایک ایسا فیصلہ ہے جو بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھالیکن کی نے افغانی کو کر اور کی تھا لیکن ماضی کی تمام پاکستانی حکومت نے افغانی مہاجرین کو اپنے مسلم بھائی جان کر اور افغانستان کی دگرگوں صورتحال کے پیش نظر ناصرف انہیں اپنے ملک میں پناہ دیتے رکھی بلکہ انہیں کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں رہ رہے ہیں۔
یوں پاکستان میں گذشتہ چالیس سال سے تقریباً چالیس سال (افغان روس جنگ کے آغاز سے لیکر آجتک) چالیس سے پچاس لاکھ افغانی بڑے مزے سے زندگی گذارتے رہے ہیں۔ پاکستان کے اس احسان پر تشکر تو کجا آج وہ افغانستان جو قائم ہی پاکستان کی وجہ سے ہے اس کے حکمران ناصرف پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں کی سرعام حمایت کرنے کے ساتھ پاکستان پر ڈائریکت حملہ کرنے کی جسارت جیسا عزم بھی دوہراتے نظر آتے ہیں۔
افغانی حکومت کی خام خیالی اور ناعاقبت اندیشی کا یہ عالم ہے کہ وہ سپر پاورز کو زیر کرنے کا جو ساگا گارہی اس میں اصل کردار پاکستان کا تھا اور افغان حکومت کو یہ اندازہ ہونا چاہئے کہ امریکہ نے تو چند ہفتوں میں طالبان کا تختہ الٹا تھا افواج پاکستان چونکہ افغانستان کے چپے چپے سے ناصرف واقف ہے بلکہ ان کے ہر خُفیہ ٹھکانے سے بھی واقف ہے اس لیئے پاکستانی بری اور ہوائی افواج کے لئے یہ کام چند گھنٹوں کا ہے۔
پاکستان کے اندر سے جو مذہبی اور سیاسی جماعتیں افغان مہاجرین کے لیئے نرم گوشہ رکھتی ہیں انہیں بھی جاننا چاہئے کہ ریاست پاکستان کی حفاظت کے لیئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ چالیس سالہ ان مہمانوں جن کی پاکستان نے ہمیشہ خدمت کی اور انہوں نے پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ایسے مہمانوں کو اب وقت مناسب ہے کہ زبردستی ان کے وطن روانہ کیا جائے۔
ویسے بھی افغانی حکومت جو امن اور معاشی خوشحالی کی پینگیں مار رہی ہے اُس کا بھی تقاضہ ہے اپنے شہریوں کو اب خود پالے اور انہیں ضروریات زندگی خود مہیا کرے۔ پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں میں تیزی، پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کی روک تھام، پاکستان کے خلاف افغان ۔ بھارت گٹھ جوڑ، پاکستانی معیشت پر افغانی تارکین وطن کا چالیس سالہ بوجھ ، پاکستان میں شرح جرائم میں اضافہ، افغانستان سے پاکستان میں ڈرگز اور اسلحہ کی غیر قانونی امپورٹ، پاکستان میں ٹی ٹی پی کی دہشت گرد کاروائیوں میں افغانی حکومت کی سہولتکاری، افغانستان میں داعیش، آئی ایس، القاعدہ اور بلوچ لبریشن آرمی جیسی دہشت گرد تنظیموں کے اڈوں (Safe Heavens) کی موجودگی اور تیزی سے بڑھتی قربت اور بین الاقوامی سیاسی تناظر اس بات کے غماز ہیں کہ بین الاقوامی سیاسی افق پر ایک بار پھر کوئی نئی چھڑی پک رہی ہے۔
ایسے میں حکومتِ پاکستان کی افغانی مہاجرین کو 31 مارچ تک پاکستان چھوڑنے ورنہ زبردستی ملک بدر کرنے کا فیصلہ ناصرف وقت کی ضرورت بلکہ ایک درست اقدام بھی ہے۔ پاکستانی حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کسی طور پر بھی کسی اندرونی اور بیرونی دباؤ کی پرواہ کیئے بغیر اپنے اس فیصلے پر سختی سے عمل در آمد کرنا چاہیئے اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانی حکومت پاکستان میں پاکستان کے پاکستان کی رہے ہیں کے ساتھ کے لیئے
پڑھیں:
مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
پاک افغان تعلقات کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ کاروں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(ڈین فیکلٹی آف سوشل اینڈ بیہوئرل سائنسز، جامعہ پنجاب)
پاک افغان تنازعہ نیا نہیں ہے مگر اس کی جہت نئی ہے۔ اس وقت بہت کوشش کی جا رہی ہے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آسکے تاہم سوال یہ ہے کہ اس کیلئے کتنی قربانی دی جاسکتی ہے؟ پاکستان کے معاشرتی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے اور تعاون جاری رہے۔
پہلے صرف ریاست فیصلہ کرتی تھی اور عوام کو بتا دیتی تھی۔ عصر حاضر میں ذرائع ابلاغ بدل چکے ہیں، اب حکومت اکیلئے فیصلہ نہیں کرتی بلکہ عوام بھی پرزور انداز میں اپنی رائے دیتے ہیں۔ اگر 2025ء میں یہ سوال کیا جائے کہ کیا ریاست اپنے طور پر مسئلہ افغانستان حل کر سکتی ہے تو جواب ہوگا نہیں، بلکہ اب ریاست کو اس مسئلے میں عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ اس معاملے پر معاشرے کے مختلف گروہوں میں اطمینان ضروری ہے۔ ہمیں دنیا پر واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کو مسئلہ افغانستان سے نہیں بلکہ وہاں موجود دہشت گرد گروہوں سے ہے جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور قیادت کو چاہیے کہ پارلیمنٹ میں باقاعدہ قرارداد لا کر دنیا کو دو ٹوک پیغام دیا جائے تاکہ اختلافات اور افواہیں ختم ہوں اور ایک موقف کے ساتھ ملک میں استحکام لایا جاسکے۔یہ سب کی یکساں ذمہ داری ہے کہ ملکی استحکام کو دوام بخشنے کیلئے ایک موقف اپنائیں۔ بارڈر پر دی جانے والی قربانیوں کا فائدہ اس وقت ہی ہوگا جب سب متحد ہوں۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہماری نوجوان نسل میں تصدیق کا عمل ختم ہوگیا ہے۔
انہیں یہ سکھانا ہے کہ جب بھی کوئی خبر آئے اس کی تصدیق کر لیں، اس کا سورس لازمی دیکھیں۔ ہمارے لیے سوچ بدلنا بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہم نے اپنی نسلوں کو اس بیانیے پر پروان چڑھایا کہ افغانستان برادر اسلامی ملک ہے جس پر دشمن قابض ہے لہٰذا ہمیں ہر حال میں اس کا ساتھ دینا ہے۔
اب اس نسل کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ہم پہلے ٹھیک تھے یا اب۔ بھارت نے ہمیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے جس کی تیاری کیلئے ہمیں بہت سارے پہلوؤں پر سوچنا ہوگا، اس کیلئے اندرونی اتحاد اور پاک افغان اعتماد بحال کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر ذمہ دارانہ بیانات دیے جائیں۔ جذباتی بیانات کے نتائج قوموں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
افغانستان کے ساتھ ہمارا بھائی چارے کا تعلق ہے، وہاں چند عناصر ہیں جو ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کا ذمہ دار پورے افغانستان کو نہیں ٹہرایا جاسکتا۔ ہمیں بھارت کے ہاتھوں میںکھیلنے والوں کو بہترین حکمت عملی سے ڈیل کرنا ہے۔ ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا جس سے لوگ مشتعل ہوں، ہم نیا محاذ کھولنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں تمام عناصر کا سمجھداری سے مقابلہ کرنا ہے۔ میرے نزدیک پاک افغان معاملے پر ریاست کو ذمہ دارانہ بیانات دینے چاہئیں۔ سب سے پہلے ہمیں اندرونی استحکام لانا ہے، ہمارے ادارے، حکومت اور افواج پاکستان ملک کو ہر طرح سے محفوظ بنانے اور استحکام لانے کیلئے تیار ہیں، تمام سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو اعلانیہ طور پر غلط چیزوں کی مذمت کرنی چاہیے، سب کو واضح ہونا چاہیے ہمارا ملک بھی ایک ہے اور دشمن بھی سب کا ہے۔
بریگیڈیئر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ کار)
میڈیا اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر جنگ کی بات ہوتی ہے، ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں ٹکراؤ کا عنصر زیادہ ہوتا ہے اور امن کی بات کم۔ میرے نزدیک ’افغانستان کو کھلی دھمکی‘ جیسے الفاظ سے پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر ہوتی ہے، ہمیں پاک افغان مذاکرات کے معاملے میں اشتعال انگیز بیانات کے بجائے امن کے پیغام کو اجاگر کرنا چاہیے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے اور اس لیے ہی مذاکرات بھی کر رہا ہے۔
پاک افغان تعلقات کبھی بھی مثالی نہیں رہے، ان میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ ستمبر 1947ء میں افغانستان نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت کی اور پھر اکتوبر میں پاکستان کو بطور ملک تسلیم کر لیا۔ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ لیاقت علی خان کی شہادت ہے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کی آرکائیوز میں یہ موجود ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل میں سی آئی اے کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ امریکا کی مرضی کے خلاف جا رہے تھے۔ سی آئی اے نے افغانستان سے شوٹر لیے اور اپنا کام کروا لیا۔ پاک افغان اور پاک بھارت تعلقات میں بہت کچھ مشترک ہے۔
بھارت نے بھی آزادی سے پہلے ہی پاکستان کیلئے مسائل پیدا کیے۔ آزادی کے بعد بھی یہی سب چل رہا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ سب کے سامنے ہے۔ اسی طرح فیروزپور اور گرداسپور میں مسیحیوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا، 51 فیصد ووٹ ہونے کے باوجود علاقہ بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت کی بنیاد میں دہشت گردی پوشیدہ ہے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان کا گٹھ جوڑ ہے اور دونوں ہی شروع دن سے پاکستان کے مخالف ہیں۔افغانستان کے بادشاہ عبدالرحمن نے ڈیورنڈ لائن کو عالمی سرحد تسلیم کیا لیکن اب افغانستان اسے نہیں مانتا۔ بھارت خطے میں مسائل پیدا کر رہا ہے اور پاک افغان تعلقات میں مزید خرابیاں پیدا کرنی کی کوشش میں ہے۔
آر ایس ایس ، اجیت دوول، ششی تھرور و دیگر اشتعال انگیز سیاست کر رہے ہیں۔ فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ امریکا افغانستان میں 7.2 ارب ڈالر کا اسلحہ چھوڑ کر چلا گیا جو وہاں طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں ہے۔ وہاں اسلحہ کی فروخت اور سمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔یہ جدید اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
بی ایل اے جاوید مینگل گروپ کے پاس جدید ہتھیار ہیں، یہ اسلحہ انہیں افغان لیڈرز نے دیا ہے۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کو بھی مستحکم پاکستان پسند نہیں ہے۔امریکا جب افغانستان میں تھا تو ہم نے اسے یہاں سے کور دیا تاکہ دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں مگر آپریشن ضرب عضب میں ہمیں دھوکا دیا گیا۔ جب طالبان نے ٹیک اوور کیا تو وہاں کی جیلوں سے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کر دیاجنہوں نے خود کو دوبارہ سے منظم کر لیا۔ گلبدین حکمت یار، منگل باغ و دیگر کی کہانی سب کے سامنے ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں 33 دہشت گرد تنظیمیں کام کر رہی ہیں جنہیں افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ بھی کام کر رہی ہیں۔سانحہ آرمی پبلک سکول کے پیچھے بھارت ہے، دہشت گرد’’را‘‘ کے ساتھ رابطے میں تھے، پاکستان نے اقوام متحدہ کو بھی شواہد دیے ہیں۔ بھارت نے افغان حکومت کو فنڈز دیے ہیں، یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت کا رویہ غیر لچکدار ہے۔افغانستان میں ’’را‘‘ کا دفتر بھی ہے، اب وہاں بھارتی سفارتخانہ بھی کھولا جا رہا ہے ۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کی دو تشکیلوں پر حملہ کیا گیا۔ ایف سی پر حملے میں ملوث پانچ افراد میں سے تین افغانی تھے جو وہاں بیان ریکارڈ کرو ا کر آئے تھے۔پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں 70 ہزار سول ملٹری شہادتیں دیں اور اربوں ڈالرز کا نقصان بھی اٹھایا۔ پاکستان نے خطے میں سٹرٹیجک رسٹرینٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے افغانستان پر کبھی حملہ نہیں کیا، اب بھی صرف جوابی کارروائی کی ہے۔ اس سے پہلے جب چمن بارڈر پر افغانستان کی طرف سے حملہ ہوا تھا تو اس کا جواب دیا، پاکستان نے افغان بارڈ پر باڑ لگائی اور انٹرنیشنل بارڈر کو یقینی بنایا۔ گزشتہ مہینے افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی ہوئی اور پاکستان نے جوابی کارروائی کی۔
افغان حکومت کہتی ہے کہ اس کا دہشت گردوں پر کنٹرول نہیں ہے تو پھر دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جب پاکستان نے افغان چیک پوسٹوں پر حملہ کیا تو وہاں افغان فورسز اور خوارج دونوں موجود تھے جو پاکستان کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے۔ پاکستان نے بھرپور جواب دیا جس کے بعد جنگ بندی ہوئی۔افغانستان بھارت گٹھ جوڑ بے نقاب ہو چکا ہے۔ استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات میں ترکیہ کی خفیہ ایجنسی نے کالیں ٹریس کی تو معلوم ہوا کہ مذاکرات میں شریک افغان نمائندوں کا رابطہ بھارت میں اجیت دوول کے ساتھ ہے۔ طالبان قندھا ر اور کابل کے درمیان پھنسے ہیں۔ افغان حکومت چاہتی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کوبھی مذاکرات میں شامل کیا جائے، پاکستان اس پر تیار نہیں ہے۔
افغانستان یہ مان نہیں رہاکہ وہاں دہشت گرد موجود ہیں جبکہ پاکستان نے ترکیہ کے سامنے ویڈیو ثبوت بھی پیش کیے ہیں۔ مذاکرات میں پاکستان کا یک نکاتی ایجنڈہ ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہواور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں کوئی دہشت گردی کی کارروائی نہ ہو، پاکستان افغانستان کے ساتھ جنگ کی طرف نہیں جائے گا، کوشش ہوگی کہ مذاکرات سے معاملہ حل ہو لیکن اگرمعاملہ حل نہ ہوا تو پھر دنیا نے جو ’’نیو نارمل‘‘ سیٹ کیا ہے کہ دور رہ کر کارروائی کرکے اپنے دشمنوں کا خاتمہ کریں تو پاکستان بھی یہ طریقہ استعمال کر سکتا ہے۔
محمد مہدی
(ماہر امور خارجہ)
پاک افغان تعلقات کی تاریخ پاکستان کی تحریک آزادی سے منسلک ہے۔ آزادی کے وقت آزاد پختونستان کی باتیں تھیں اور آج بھی یہ سوچ مسئلہ ہے۔ پاکستان نے شروع دن سے ہی کوشش کی کہ افغانستان کے ساتھ معاملات حل بہتر رہیں۔ آزادی کے بعد پہلے افغانستان نے پاکستان کی مخالفت کی اور بعدازاں تسلیم کر لیا۔ 65ء کی جنگ میں افغانستان نے مہمند پر حملہ کیا۔
71ء میں بنگلہ دیش کے بننے پر کابل میں بڑا جشن منایا گیا۔ 1998ء میں طالبان کے پہلے دور میں برٹش انڈیا معاہدے کے 100 سال مکمل ہوئے، اس وقت طالبا ن کا پہلا دور تھا۔ پاکستان کا خیال تھا کہ اس کی توثیق کی جائے گی لیکن طالبان نے نہیں کی۔ اسی طرح جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں افغان حکومت کے ساتھ استنبول میں مذاکرات ہوئے۔ صدرپاکستان آصف علی زرداری کے سابق دور میں بھی استنبول میں سہ فریقی مذاکرات ہوئے لیکن دونوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو۔
دوحہ مذاکرات کے بعد خیال تھا کہ طالبان ہمارے احسان مند ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ طالبان نے کہا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوئے ہی نہیں۔ اب استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مذاکرات ہوئے جن سے فی الحال کچھ نہیں نکلا۔ پاکستان کہتا ہے کہ افغانستان دہشت گردی کو سپورٹ کر رہا ہے اور باقاعدہ ثبوت دکھا رہا ہے جبکہ طالبان کہتے ہیں کہ ہمارے پاس دہشت گرد نہیں ہیں، ہم لکھ کر کیوں دیں۔ اس وقت بھارت افغانستان کی مدد کر رہا ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کاکول اکیڈمی میں دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ اگر بھارت اور افغانستان نے مل کر ہمیں انگیج کرنے کی کوشش کی تو ملکی دفاع میں ہر حد تک جائیں گے۔
خطے کے دیگر ممالک کی بات کریں تو چین نے افغانستان کے ساتھ سڑک تعمیر کی لیکن تجارت نہیںکھلی، چین چاہتا ہے کہ تجارت ہوں ۔ اس وقت خطے کے تقریباََ ہر ملک کو طالبان سے مسئلہ ہے۔ طالبان کی پالیسی ہے کہ ہر ملک کیلئے مسائل پیدا کرو تاکہ وہ گھبرا کر ان سے تعلق قائم کریں اور پھر یہ اپنی بات منوا سکیں۔ فیلڈ مارشل نے بارڈر سمگلنگ کا خاتمہ کر دیا ہے جس سے افغانستان کی معیشت کو نقصان ہوا ۔ افغانستان میں بھوک بڑھ رہی ہے۔ اگر پاکستان نے تمام افغان مہاجرین واپس بھیج دیے تووہاں بھوک کی صورتحال بدترین ہو جائے گی۔ طالبا ن قیادت کے اپنے بچے دوسرے ممالک میںرہتے ہیں۔
سہیل شاہین کے بچے قطر میں رہتے ہیں، ان لوگوں کو تو کوئی مسئلہ نہیںہے۔ پہلے قطر اور اب ترکی میں مذاکرات ہوئے، پاکستان جو چاہتا تھا وہ نہیں نکلا۔ افغانستان پر اس وقت دنیا کی توجہ ہے اور کچھ قوتیں متحرک بھی نظر آتی ہیں۔ جنرل احسان نے کہا ہے کہ دنیا میں بات ہو رہی ہے کہ اب افغانستان میں استحکام نہیں آئے گا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ دنیا افغانستان کی تقسیم پر غور کر رہی ہے، اگر امریکا اور چین دونوں اس پر متفق ہوجاتے ہیں تو یہ کام ہوسکتا ہے۔ افغانستان کا معاملہ سادہ نہیں ہے لہٰذا پاکستان کو احتیاط اور سفارتی محاذ پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمیں صرف ٹرمپ اور امریکا پر ہی توجہ نہیں دینی چاہیے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو مزید مضبوط کرنا چاہیے ۔ ہمیں دنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان امن پسند ہے اور افغانستان میں بھی امن چاہتا ہے۔ TAPI گیس پائپ لائن منصوبہ اہم ہے۔ اس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت شامل ہیں۔ گیس ہم تک آنی ہے اور کرایہ افغانستان کو ملنا ہے۔ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے وسط ایشیائی ممالک تک درست رسائی نہیں ہوسکی۔ پاکستان کو سفارتی محاذ پر محتاط تو رہنا ہے لیکن خاموش نہیں، ہمیں امن اور دفاع کا واضح پیغام دینا چاہیے۔
Tagsپاکستان