Express News:
2025-09-18@19:05:04 GMT

والدین کے لیے لمحۂ فکریہ (پہلا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT

’’ہیڈ آیا تو چھوڑ دوں گا، ٹیل آیا تو مار دوں گا‘‘ تین بار پانچ روپے کے سکے سے ٹاس کیا گیا، بالکل فلمی انداز میں، نہایت ہولناک طریقۂ واردات۔ یہ میڈیا میں آئی ہوئی روداد ہے مصطفیٰ عامر قتل کی ۔

اس کیس سے جڑی تمام تر تفصیلات آپ روز اخبارات میں، ٹیلی وژن پر اور سوشل میڈیا پر دیکھ رہے ، سن اور پڑھ رہے ہیں اور کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہوں گے۔ پاکستان میں خوشحال گھرانوں کے نوجوان کس طرح منشیات کی لت اور اس کے کاروبار سے منسلک ہیں، بیشتر والدین کو کچھ پتا ہی نہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ والدین کو پتہ بھی ہو اور وہ سرپرستی بھی کرتے ہوں گے۔ ارمغان، مصطفیٰ عامر عرف تیمور، عثمان سواتی، ساحر حسن اور بہت سے دوسرے نوجوانوں کی تفصیلات بھی سامنے آ رہی ہیں اور تعجب ہوتا ہے کہ بائیس سے تیس سال کے نوجوان کس دھڑلے اور بے فکری سے منشیات کا کاروبارکر رہے ہیں، منشیات کا استعمال کرتے ہیں، نائٹ پارٹیاں کرتے ہیں۔

میرا موقف یہ ہے کہ جو لوگ پکڑ لیے گئے ہیں، ان کے والدین کیسے اپنے بیٹوں کے غلط کاموں سے ناواقف تھے؟ میں نہیں مانتی۔ دراصل یہ سارے نوجوان ایزی منی کے چکر میں اس کاروبار میں پھنسے ہیں، سب سے پہلے تو سوال یہ ہے کہ کیا والدین کو اپنے بچوںکی سرگرمیوں کا علم نہیں تھا؟ یہ سوال ہے، جو ہر ایک کے ذہن میں آتا ہے۔

اگر کسی کا بیٹا بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑی چلا رہا ہے، رات کو دیر تک گھر سے باہر رہتا ہے، گھروں میں نائٹ پارٹیاں ہوتی ہیں،  والدین اگر پڑھے لکھے بھی ہوں، تو سوال یہی ہے کہ انھوں نے کیوں نوٹس نہیں لیا ؟ ویسے بھی پوش ایریاز میں رہنے والی مخلوق باقی لوگوں سے کچھ الگ ہے۔

یہ علاقے صرف پیسے والوں کے ہیں، شرفا اور عزت دار لوگ بھی یہاں رہتے ہیں لیکن پوش ایریاز میں موجود ایلیٹ کلاس کے بچوں کے لیے قائم تعلیمی اداروں تک کے حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ منشیات اور غیر قانونی اسلحے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ دکھاؤے کا کلچر بھی عروج پر ہے، کون سے غیر قانونی کام ہیں جو کراچی میں نہیں ہو رہے۔ کمزور گھرانوں کے مقتولین کے ورثا سے معافی نامہ لکھوانا اور دولت کے ذریعے ان کا منہ بند کر دینا ایک عام سی بات ہے۔

والدین جب اپنی اولادوں کو کھلی چھوٹ دیں گے اور ان کے معمولات پر نظر نہیں رکھیں گے تو بڑے ہولناک نتائج نکلیں گے۔ آج کل بعض ماں باپ نے اپنی اولاد کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ جہاں جی چاہے جائیں، جو چاہیں وہ کریں، کیونکہ کراچی میں پوش ایریاز کے رہائشیوں کی پہچان صرف پیسہ ہے۔ یہ عیاشیاں اور یہ شاہانہ طرز زندگی صرف دولت سے ملتی ہے، پیسہ محنت سے کمایا جائے تو اسے خرچ بھی انسان سلیقے سے کرتا ہے ورنہ یہی پارٹیاں اور نشے کا استعمال غیر ضروری دولت اور طاقت سے ہوتا ہے۔ لڑکے لڑکیاں مخلوط پارٹیاں کر رہے ہیں جن میں نشے کا استعمال عام ہے، کئی بنگلوں میںساری ساری رات پارٹیاں ہوتی ہیں، اولاد پر وہ والدین کیا نظر رکھیں گے جو خود اس لائف اسٹائل کے عادی ہوں، رات رات بھر جاگنا اور شور شرابہ کرنا اور دوسرے دن سہ پہر تک سوتے پڑے رہنے دینا۔

 جنھیں لوگ اپر کلاس کہتے ہیں اس میں وہی لوگ بھی شامل ہیں جن کے پاس اسمگلنگ اور دوسرے ناجائز ذرائع سے کمانے والا پیسہ ہے۔ اس طبقے کے لوگوں کو یقین ہوچکا ہے کہ وہ امیر ہیں اور امیر آدمی چاہے کتنا بڑا جرم کر لے ، اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ طبقہ امرا کے بچوں اور بڑوں کی عجیب نفسیات ہے، وہ اپنے سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھ سکتے ،اگر کسی مڈل کلاسیے دوست کے کپڑے اس سے زیادہ اچھے ہوں یا کسی کی گاڑی نئے ماڈل کی اور مہنگی ہو تو وہ ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ اپنے ہدف کے خلاف سازش کرتے ہیں، اس کی ٹرولنگ کرتے ہیں۔

 ساحر حسن معروف اداکار ساجد حسن کے فرزند ارجمند ہیں۔ اب اس بارے میں کیا کہا جائے ۔ بس اتنا ہی کہ خوشحال لوگ کس جانب چل نکلے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بڑی تباہ کن خبریں آرہی ہیں۔ ماں باپ کی حالت تباہ ہے، پہلے شتر بے مہار کی طرح اولادوں کو چھوڑ دیا اور اب جب پتا چل رہا ہے تو ان کی راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔

اپر کلاس کے ایک حصے میں جو کلچر پروان چڑھ چکا ہے، اس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، صرف بیٹے ہی نہیں بیٹیاں بھی بگڑ رہی ہیں، اسکول اور کالج میں فنکشن اور ایکسٹرا کلاس کے بہانے مختلف کیفے میں یونیفارم میں اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ میں پہلے بھی اس پرکالم لکھ چکی ہوں، آپ کی بیٹی مہنگا موبائل یا مہنگا پرفیوم یہ کہہ کر گھر لاتی ہے کہ یہ تحفہ اس کی سہیلی نے دیا ہے، تو آپ سمجھ لیں کہ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔ لیکن ماؤں کو ڈرامے دیکھنے اور موبائل پر سارا دن غیر ضروری باتیں کرنے سے فرصت ہو تو وہ جوان اولاد کی خبر لیں۔

(جاری ہے)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کرتے ہیں

پڑھیں:

جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ

وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا ہے کہ جب قوم اخلاقی پستی کا شکار ہو جاتی ہے تو وہ کھیل کو بھی سیاست کا میدان بنا دیتی ہے۔

قومی پیغامِ امن کمیٹی کے پہلے اجلاس کے بعد صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بھارت کے 6 جہاز گر گئے، جنگ بھی ہار گئے، اب کہتے ہیں کرکٹ میں ہاتھ نہیں ملائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ایشیا کپ تنازع: دبئی میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی آج ہونے والی پریس کانفرنس ملتوی

انہوں نے کہاکہ جن کی کوئی عزت نہیں ہوتی وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے ایسے رویے اپناتے ہیں، تاہم ہر صورت میں اسپورٹس مین اسپرٹ زندہ رہنی چاہیے۔

ایک صحافی نے سوال کیاکہ آیا آئی سی سی نے میچ ریفری کو ہٹانے کے ضمن میں پاکستان کا مطالبہ منظور کر لیا ہے؟ تو اس پر عطااللہ تارڑ نے کہاکہ اس بارے میں بہتر جواب محسن نقوی ہی دے سکتے ہیں، مگر ان کے نزدیک میچ ریفری کو ریفری کی طرح ہی عمل کرنا چاہیے تھا۔

دہشت گردی کے موضوع پر بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات نے کہا کہ دہشتگرد کا سہولت کار بھی دہشتگرد ہی ہے، جو کسی دہشتگرد کو پناہ دیتا ہے وہ بھی انہی جرائم میں شریک ہے۔

انہوں نے کہاکہ قوم نے 90 ہزار جانوں کا نذرانہ دیا ہے اور سہولت کار چاہے کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے منسلک ہوں، وہ گرفت میں آئیں گے۔

عطااللہ تارڑ نے مزید کہاکہ دہشتگردوں کا کوئی مذہب نہیں، وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں اور بالاخر امن قائم ہو گا۔ جن لوگ اسکولوں میں معصوم بچوں کو معاف نہیں کرتے ان کا کوئی دین و مذہب نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر پاکستان نے ایشیا کپ کا بائیکاٹ کیا تو ایونٹ کو مالی طور پر کتنا نقصان ہوسکتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی پاکستانی اور ریاست کے خلاف سازشیں کرتے ہیں یا ان کی حمایت کرتے ہیں، وہ سہولت کار تصور کیے جائیں گے اور اس پر سب کی متفقہ رائے ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews آئی سی سی ایشیا کپ تنازع پاک بھارت کرکٹ پاکستان بھارت تعلقات پی سی بی عطااللہ تارڑ کرکٹ کا میدان وفاقی وزیر اطلاعات وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • 29 لاکھ پاکستانیوں کا بیرون ملک منتقل ہونا ترقی کی دعویدار حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے، کاشف سعید شیخ
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • طاقتور حلقوں کو فارم 47 سے بنی حکومت کا بوجھ نہیں اٹھانا چاہیے، اعظم سواتی
  • جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس کا ہر لمحہ قیمتی، اینالینا بیئربوک
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • ’’یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ رویش کمار نے ارنب گوسوامی کا پردہ چاک کر دیا
  • جنگ میں 6 جہاز گرنے کے بعد بھارت کھیل کے میدان میں اپنی خفت مٹا رہا ہے، وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ
  • فنگر پرنٹس کے مسئلے سے دوچار معمر افراد کیلئے فیس ریکگنیشن لارہے ہیں: ترجمان نادرا
  • بچے کی پیدائش پر اسکی شناخت نہ کروانا بچے کے ساتھ حق تلفی ہے، ترجمان نادرا
  • والدین بیٹیوں کو کینسر سے بچاؤ کی ویکسین ضرور لگوائیں: آصفہ بھٹو