لاہور ہائیکورٹ نے ایکس کی بندش پر وفاقی حکومت سمیت فریقین سے جواب طلب کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 14th, March 2025 GMT
لاہور ہائیکورٹ نے سماجی رابطے کی ایپلی کیشن ایکس سابقہ ٹوئٹر کی بندش پر وفاقی حکومت سمیت فریقین سے جواب طلب کرلیا ہے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ کے 3 رکنی بینچ نے حافظ شاکر اعوان سمیت دیگر کی جانب سے ایکس ڈاٹ کام کی بندش کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
یہ بھی پڑھیں:
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی یعنی پی ٹی اے کے وکیل نے درخواستوں کی مخالفت کی جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزرات داخلہ کی رپورٹ کی روشنی میں ایکس ڈاٹ کام پر پابندی پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی یعنی پی ٹی اے نے عائد کی تھی۔
عدالت نے وزارت داخلہ سے ایکس کے استعمال کی بابت رپورٹ طلب کرتے ہوئے جبکہ پی ٹی اے کی اس ضمن میں رپورٹ طلب کر لی اور پی ٹی اے کے ذمہ دار افسر کو بھی ریکارڈ سمت طلب کر لیا۔
مزید پڑھیں:
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ یہ بھی بتایا جائے کہ پابندی کے باوجود کون سے حکومتی ادارے ایکس استعمال کر رہے ہیں، وزارت داخلہ نے ایکس کی موجودہ صورت حال کے بارے آگاہ کرنا ہے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے دریافت کیا کہ بتایا جائے ایکس کی قانونی حیثیت کیا ہے، سارے فریقین عدالت میں جواب داخل کرانے کے پابند ہیں، جسٹس علی ضیا باجوہ بولے؛ اگر ایکس پابندی ہے باوجود استعمال ہورہا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔
مزید پڑھیں:
بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا ایپ ایکس پر پابندی کے خلاف درخواست پر مزید سماعت 20 مارچ تک ملتوی کردی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایکس پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی پی ٹی اے جسٹس عالیہ نیلم جسٹس علی ضیا باجوہ چیف جسٹس سوشل میڈیا ایپ لاہور ہائیکورٹ وزارت داخلہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایکس پی ٹی اے جسٹس عالیہ نیلم جسٹس علی ضیا باجوہ چیف جسٹس سوشل میڈیا ایپ لاہور ہائیکورٹ وزارت داخلہ جسٹس عالیہ نیلم لاہور ہائیکورٹ چیف جسٹس پی ٹی اے
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
ویب ڈیسک : صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔
سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔
صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔
جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔
واٹس ایپ کا ویڈیو کالز کیلئے فلٹرز، ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈز تبدیل کرنے کا نیا فیچر
وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔
صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔
لاہور؛ بین الاصوبائی گینگ کا سرغنہ مارا گیا
جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
Ansa Awais Content Writer