Express News:
2025-04-25@02:36:04 GMT

چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط پنجم)

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی کے فلسطینی سماج کا سیاسی سرمایہ روائیتی عصبیتی سوچ کا مظہر تھا اور اسی نظام کے مدار میں مقامی سیاست بھی گھوم رہی تھی جس پر لامحالہ اشرافیہ کا قبضہ تھا۔جب کہ ان کا حریف (صیہونی) یورپی اقدار ، شہری پس منظر اور جدت کارانہ سوچ سے مسلح تھا۔

بالاخر انیس سو سترہ کے اعلانِ بالفور نے فلسطینی سماج کو اپنی بقا کے لیے جدید قوم پرستی اور منظم سیاسی جدوجہد کے قرینے اپنانے پر مجبور کر دیا۔ قوم پرستی کی آنچ سے تشکیل پانے والی سول سوسائٹی کی پرورش میں شرحِ خواندگی میں اضافے ، ابھرتے ہوئے اخباری و صوتی میڈیا اور رابطہ کاری کے تیز رفتار ذرایع نے اہم کردار نبھایا۔

سماج کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کے کئی طریقے سامنے آنے لگے۔مثلاً یادگار دن منانے کی روائیت۔جیسے دو نومبر بطور یومِ بالفور ( یومِ سیاہ ) منانے کی روائیت۔ تاکہ عام لوگوں کو یاد رہے کہ کس طرح ان کی زمین غصب کرنے کی کوششوں میں برطانیہ کا کلیدی کردار ہے۔ چار جولائی گیارہ سو ستاسی عیسوی کی جنگِ حطین یومِ فتح کی شکل میں فلسطینی سیاسی کیلنڈر کا حصہ بنی۔جنگِ حطین میں صلاح الدین ایوبی نے یورپی صلیبی لشکر کو شکست دی تھی۔

سولہ مئی انیس سو چھتیس سے یومِ فلسطین منانے کا آغاز ہوا تاکہ صدیوں سے بسنے والی اکثریت کی شناخت اجاگر ہو سکے۔ یروشلم میں سالانہ نبی موسی تہوار جو کہ روائیتی روحانی عقیدت کے اظہار کے لیے جانا جاتا تھا۔اب اس میلے میں سیاستِ حاضرہ کا رنگ بھی بھرنے لگا۔

ہم گزشتہ مضامین میں عزالدین القسام اور ان کے مسلح گروہ الکف الاسود کے بارے میں بتا چکے ہیں کہ القسام نے ہی یہ نکتہ اپنے عمل سے اجاگر کیا کہ مسلح جدوجہد دراصل سیاسی مقصد کے حصول کا ہی ایک راستہ ہے بشرطیکہ مسلح طاقت کو ذمے دارانہ انداز میں انفرادی کے بجائے اجتماعی اہداف حاصل کرنے کی نیت سے استعمال کیا جائے۔

القسام کے مسلح سیاسی جدوجہد کے نظریے سے متاثر ہو کے فلسطین کے متعدد علاقوں میں کئی مقامی گروہ ابھرے۔جیسے شمالی فلسطین میں القف الخضرہ ، یروشلم کے علاقے میں الجہاد المقدس ، اور تلکرم و قلقالیہ کے علاقے میں الشباب التحئیر نام سے انیس سو انتیس تا انیس سو پینتیس مسلح گروہ متحرک رہے۔کچھ تحلیل یا ضم ہو گئے اور کچھ انیس سو چھتیس تا انتالیس کی مزاحمتِ عظمی کا حصہ بن گئے۔

اسی طرح کئی سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آگئیں۔مگر زیادہ تر جماعتوں کی قیادت کا انحصار قبائلی و برادری وفاداریوں پر تھا۔مثلاً حزب الدفاع الوطنی بااثر برطانیہ نواز النشیشیبی خاندان کی نمایندہ تھی۔ابتدا میں یہ پارٹی مزاحمتی تحریک کا حصہ بنی مگر پھر اس نے یہی تحریک دبانے میں برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ بھی دیا۔ چنانچہ جب دیگر فلسطینی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں خلافِ قانون قرار پائیں تب بھی نوآبادیاتی انتظامیہ کی وفادار حزب الدفاع الوطنی کو کام کرنے کی کھلی چھوٹ تھی۔یہ واحد مقامی جماعت تھی جس نے فلسطین کی تقسیم کی سب سے پہلے حمائیت کی۔

النشیشیبی خاندان کے سیاسی حریف یروشلم کے الحسینی خاندان نے الحزبِ العربی الفلسطینی کی بنیاد رکھی۔یہ صیہونی مخالف جماعت کٹر قوم پرست موقف اپنانے کے سبب جلد ہی مقبول ہو گئی۔اس جماعت کا بنیادی مطالبہ تھا کہ برطانیہ جلد از جلد عرب اکثریتی نمایندوں کو اقتدار سونپ کر رخصت ہو جائے۔

 اکتوبر انیس سو سینتیس میں برطانوی انتظامیہ نے حسینی خاندان کی الحزب العربی الفلسطینی کو کالعدم قرار دے کر کارکنوں کی وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع کی۔پارٹی سربراہ جمال الحسینی شام فرار ہو گئے۔ بعد ازاں برطانویوں نے انھیں پکڑ کے اپنی دوردراز افریقی نوآبادی روڈیشیا میں قید رکھا اور پھر قاہرہ منتقل کر دیا۔جب کہ الحسینی خاندان کے سب سے معروف رکن امین الحسینی کو بھی انھی حالات سے گذرنا پڑا۔

انیس سو چھتیس تا انتالیس کی مزاحمت میں امین الحسینی کا اہم کردار رہا اور انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو عرب ہائر کمیٹی کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے تحریک کو منظم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔جب کریک ڈاؤن شروع ہوا تو وہ بیرونِ ملک چلے گئے اور جرمنی میں ایڈولف ہٹلر سے ملاقات کر کے برطانویوں کے خلاف مدد طلب کی۔الحزب العربی الفلسطینی نے انیس سو اکتالیس میں عراق میں برطانیہ نواز وزیرِ اعظم نوری السعید کی حکومت کا تختہ الٹنے والے جرمنی نواز فوجی افسروں کی بھی حمائیت کی مگر جلد ہی برطانیہ نے اس حکومت کو برطرف کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

ایک اور پارٹی حزبِ استقلال العربی کے نام سے متوسط طبقے کے ان فلسطینی رہنماؤں نے قائم کی جن کے عرب حکمرانوں سے قریبی تعلقات تھے۔مگر اس جماعت کو کوئی خاص عوامی پذیرائی نہ مل سکی۔حزبِ استقلال انڈین نیشنل کانگریس کی طرز پر عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کی حامی تھی۔

ایک اور معروف فلسطینی الخالدی خاندان نے حزبِ اصلاح قائم کی۔اس کے سربراہ یروشلم کے مئیر حسین الخالدی تھے۔انھیں مزاحمتی تحریک میں حصہ لینے پر اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے اور برطانوی انتظامیہ نے چار دیگر فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ حسین الخالدی کو بھی بحرِ ہند کے جزیرہ سیشلز بجھوا دیا اور حزبِ اصلاح کو کالعدم قرار دے دیا۔

یہاں پر فلسطینی کیمونسٹ پارٹی کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔یہ فلسطین میں متحرک ہونے والی پہلی منظم سیاسی پارٹی تھی جو انیس سو تئیس میں قائم ہوئی۔اس کے ارکان میں صیہونیت مخالف عرب اور یہودی شامل تھے۔تاہم جب انیس سو سینتالیس میں اسٹالن نے اقوامِ متحدہ کے تحت فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی حمائیت کی تو فلسطین کیمونسٹ پارٹی بھی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔

ایک دھڑے نے نیشنل لبریشن لیگ کے نام سے فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کی جب کہ دوسرے دھڑے نے مکئی کے نام سے کیمونسٹ پارٹی آف اسرائیل کا روپ دھار لیا۔یہ دھڑا اگرچہ عربوں کو اسرائیل میں مساوی حقوق دینے کا حامی تھا مگر اسرائیل کے قیام کو بھی جائز سمجھتا تھا۔( فلسطینی کیمونسٹ پارٹی نے انیس سو ستاسی میں پیپلز پارٹی کے نام سے پی ایل او میں شمولیت اختیار کر لی )۔

 فلسطینی خواتین کی سیاسی بیداری کا تذکرہ تاراب عبدالہادی کے بغیر نامکمل رہے گا۔تاراب نے انیس سو بیس کے عشرے میں فلسطین عرب ویمنز کانگریس کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔یہ تنظیم بھی صیہونیت مخالف اور فلسطین کی آزادی کی پرزور حامی تھی۔انیس سو اڑتالیس میں تاراب کو بھی اپنے وطن سے جبری ہجرت کر کے قاہرہ جانا پڑا۔جہاں انیس سو چھہتر میں ان کا انتقال ہوا۔

یہ تھا وہ سیاسی پس منظر جسے سمجھے بغیر انیس سو چھتیس تا انتالیس کی پہلی بڑی فلسطینی مزاحمت سمجھ میں نہیں آ سکتی۔             ( جاری ہے )

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیمونسٹ پارٹی انیس سو چھتیس فلسطین کی کے نام سے کو بھی

پڑھیں:

جے یو آئی اجلاس:سیاسی جدوجہد جاری رکھنے اور سیاسی اتحاد میں نہ جانے کا فیصلہ

جمعیت علمائے اسلام(ف) نے مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس کے فیصلوں میں از سرنو صاف اور شفاف انتخابات کے مطالبہ کا اعادہ کرتے ہوئے صرف اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور باقاعدہ کسی سیاسی اتحاد میں نہ جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے. اجلاس میں مائنز اینڈ منرلز بل کو مکمل مسترد کرتے ہوئے بلوچستان میں پارٹی کے جن اراکین اسمبلی نے اس بل کو ووٹ دیا اور ان سے وضاحت طلب کرتے ہوئے انہیں باقاعدہ شوکاز نوٹس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق صوبائی دارالحکومت لاہور میں جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی زیر صدارت دو روزہ اجلاس ہوا جس میں جے یو آئی کی مرکزی مجلس عمومی کے متعدد فیصلے ہوئے جس کے مطابق اجلاس میں27 اپریل کو لاہور، 11 مئی کو پشاور اور 15 مئی کو کوئٹہ میں شہداء غزہ ملین مارچ کا فیصلہ کیا گیا اور قوم سے اہل غزہ کیلئے مالی مدد فراہم کرنے کی اپیل کی گئی اورکہا گیا اجلاس ملک میں امن وامان کی بدترین صورتحال کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ حکومتی اور ریاستی ادارے عوام کی جان ومال کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام نظر آتے ہیں اور دھاندلی کے نتیجے میں قائم مرکزی اور صوبائی حکومتیں عوام کے مسائل کے حل اور امن وامان کے قیام میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں۔  جمعیت علماء اسلام پرزور الفاظ میں از سرنو صاف اور شفاف انتخابات کے مطالبہ کا اعادہ کرتی ہے اور صرف اپنے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور باقاعدہ کسی سیاسی اتحاد میں نہ جانے کا فیصلہ کیا البتہ مشترکہ امور پر مختلف مذہبی اور پارلیمانی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ جدوجہد کی حکمت عملی مرکزی مجلس شوری یا مرکزی مجلس عاملہ طے کرے گی۔ اجلاس میں مائنز اینڈ منرلز بل کو مکمل مسترد کیا گیا اور بلوچستان میں پارٹی کے جن اراکین اسمبلی نے اس بل کو ووٹ دیا ہے ان سے وضاحت طلب کرتے ہوئے انہیں باقاعدہ شوکاز نوٹس دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جبکہ مختلف صوبوں کو درپیش مسائل پر مرکزی مجلس عاملہ اور شوریٰ حکمت عملی طے کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • صیہونی فوج کے غزہ پر سفاکانہ حملے جاری، مزید 32 فلسطینی شہید
  • جے یو آئی کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، حافظ حمداللّٰہ
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کا خونی کھیل جاری،وحشیانہ بمباری سے مزید 28 فلسطینی شہید
  • متحدہ علماء محاذ کا 26 اپریل ملک گیر شٹر ڈاؤن ہڑتال کی حمایت کا اعلان
  • متحدہ علماء محاذ کا 26 اپریل ملک گیر شٹر ڈائون ہڑتال کی حمایت کا اعلان
  • فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی، جامعہ اردو کراچی میں آئی ایس او کی احتجاجی ریلی
  • فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی
  • فلسطین سے اظہار یکجہتی کے نام پر انٹرنیشنل فوڈ چین پر حملے غلط ہیں: سیاسی جماعتوں میں اتفاق
  • جے یو آئی اجلاس:سیاسی جدوجہد جاری رکھنے اور سیاسی اتحاد میں نہ جانے کا فیصلہ