اگر کوئی ملک ایم ایل ون میں ساتھ نہیں دیتا تو ہم اسے اپنے پیسے سے بنائیں گے، وزیر ریلوے
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 15 مارچ 2025ء ) وفاقی وزیر برائے ریلوے حنیف عباسی کا کہنا ہے کہ ایم ایل ون کے لیے اگر کوئی شراکت دار ساتھ نہ آیا تو حکومت اس منصوبے کے لیے اپنے وسائل استعمال کر سکتی ہے۔ لاہور ریلوے سٹیشن پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ایم ایل ون منصوبہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اگر کوئی اس منصوبے میں ہمارا ساتھ نہیں دیتا تو ہم اسے اپنے پیسے سے بنائیں گے، میڈیا کے ذریعے قوم کو بتائیں گے کہ اس منصوبے پر کب دستخط ہوں گے، میں آپ کو ایمانداری سے بتاؤں گا کہ اس منصوبے پر دستخط کب ہوں گے اور میں اس سلسلے میں آپ کو جو کچھ بھی بتاؤں گا اس کا دفاع کروں گا۔
حنیف عباسی کہتے ہیں کہ کہ ہم اپنی خدمات کو بہتر بنانے کے لیے لاہور ریلوے سٹیشن پر صفائی ستھرائی سمیت کچھ سروسز آؤٹ سورس کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں، خستہ حال ریلوے ٹریک کو فوری طور پر ٹھیک نہیں کروا سکتے، کیوں کہ اس میں وقت لگے گا لیکن ہم وقت کی پابندی سے متعلق مسائل کو برداشت نہیں کریں گے، لہٰذا کسی بھی ٹرین کی آمد یا روانگی میں تاخیر کی صورت میں متعلقہ ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ کو جواب دینا ہوگا۔(جاری ہے)
اس سے پہلے وفاقی وزیر برائے ریلوے یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ مین لائن ون منصوبے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور اس سلسلے میں معاہدہ طے پا چکا ہے، جس کے تحت دوست ملک اس منصوبے میں سرمایہ کاری کرے گا، اس کے علاوہ موجودہ حکومت نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو بھی دوبارہ بحال کر دیا ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے دور میں الزامات اور رکاوٹوں کی وجہ سے تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں چینی کمپنیوں اور اعلی عہدیداروں پر بدعنوانی کے الزامات لگائے گئے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ چینی حکام بھی مبینہ کرپشن میں ملوث ہیں، جس سے سی پیک کے منصوبوں کو نقصان پہنچا، تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے دورہ چین کے دوران سی پیک کی بحالی کو یقینی بنایا، جس کے بعد سے 9 اقتصادی زونز پر چین کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا گیا ہے جب کہ انڈسٹری کے لیے 23 مارچ سے بجلی کے نرخ کم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے، بجلی کے نرخ میں کتنی کمی ہوگی اس کی تفصیلات وزیراعظم خود اعلان کریں گے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے
پڑھیں:
لاڈلا بیٹا شادی کے بعد ’’کھٹکنے‘‘ کیوں لگتا ہے؟
وہ تمام لوگ جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہیں، یقیناً ان کا جواب ہاں میں ہوگا۔ آپ کے ذہن میں یہ سوال کلبلا سکتا ہے کہ اکلوتے کےلیے ’’سب‘‘ کا لفظ گرامر کے لحاظ سے غلط ہے۔ آگے جو کچھ غلط آنا ہے تو اس کے مقابلے میں اسے ناقابل اعتنا سمجھ کر آگے چلتے ہیں۔
جو لوگ دو بھائی یا ایک بھائی ایک بہن یا دو بہنیں ہیں، ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کچھ کا جواب ہاں میں اور کچھ کا نہ بھی ہوسکتا ہے مگر وہ لوگ جو تین یا تین سے زائد بھائی یا بہنیں ہیں، یقیناً ان میں سے اکثریت کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہوگا۔
میں عموماً اپنی تربیتی نشستوں میں شرکا سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ بھائی بہنوں میں والد یا والدہ کا پسندیدہ بچہ کون ہے؟ لوگوں کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ عموماً والد کی پسندیدہ اولاد کوئی بہن ہوتی ہے اور والدہ کی پسند کوئی بڑا یا چھوٹا بھائی ہوتا ہے اور جو خود پسندیدہ ہوتے ہیں وہ شرماتے ہوئے اس کا اقرار کرلیتے ہیں۔
والد کی پسند عموماً مستقل ہوتی ہے اور بیٹی کی شادی ہونے کے بعد بھی جو پہلے پسندیدہ ہوتی ہے وہی رہتی ہے لیکن والدہ کی پسند میں تغیر آتا ہے اور یہی ہماری آج کی تحریر کا اصل موضوع ہے۔
والدہ کی پسند عموماً کوئی نہ کوئی بیٹا ہوتا ہے جس کو گھر میں سب سے زیادہ لاڈ پیار ملتا ہے۔ کھانے پینے میں اس کی پسند کا ترجیحی بنیادوں پر خیال رکھا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس وقت تک تواتر سے جاری رہتا ہے جب تک اس کی شادی نہیں ہوجاتی۔ شادی چاہے وہ اپنی پسند سے کرے یا والدہ کی پسند سے، اب وہ اس مقام پر مستقل فائز نہیں رہ سکتا۔ بس یوں سمجھ لیجیے اور میں یہ بات مبالغہ آرائی سے لکھ رہا ہوں کہ پہلے سب گھر والے مل کر اس کےلیے دلہن لاتے ہیں اور پھر سب مل کر یہ چاہتے ہیں کہ بس اب دلہا اور دلہن خوش نہ رہیں۔
شادی سے پہلے والدہ کو بیٹی کی شکل میں ذمے داری نظر آتی ہے اور شادی کے بعد بیٹی میں سہیلی بلکہ بیٹے اور بہو کے خلاف کسی بھی قسم کی محاذ آرائی میں ایک بااعتماد شریک اور ساتھی نظر آتی ہے۔
شادی کے بعد بیٹا اگر گھر کے کام کاج میں اپنی بیوی کا ہاتھ بٹائے تو زن مرید اور اگر یہی سب کچھ داماد کرے تو کہا جاتا ہے کہ میاں بیوی میں کیا خوب ہم آہنگی ہے اور اللہ ایسے داماد سب کو دیں۔ مگر خود کے بیٹے پر ایسا داماد بننے کی پابندی تا دم مرگ برقرار رہتی ہے۔
اگر بیٹا معاشی لحاظ سے داماد سے بہتر ہو تو یہ بات بھی وجہ تنازعہ بن جاتی ہے اور اب بیٹے سے یہ امید بلکہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ اپنے بیوی بچوں کےلیے کرے ایسا ہی سب کچھ اپنی بہن اور اس کے بچوں کےلیے بھی کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر اماں نہ صرف اس کو ناخلف قرار دیتی ہیں اور حالات اپنے ہاتھ میں لے کر بیٹی کے گھر چیزیں پہنچانا شروع کردیتی ہیں کہ جس سے گھر کا ماحول کشیدہ ہوتے ہوئے جنگ و جدل کا میدان بن جاتا یے۔ تمام خاندان میں بہو اور اس کے بچوں جو کہ دراصل ان کے اپنے پوتے پوتیاں ہوتے ہیں، کی ایک منفی تصویر بنا کر پیش کی جاتی ہے۔
اس حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اب ڈراموں میں ایسے کردار کھل کر دکھائے جارہے ہیں اور عقیدت اور احترام کو پس پشت ڈال کر حقیقت دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام وصف تھوڑے تھوڑے ہمیں بھی دیے ہیں جیسے محبت کرنا، خوش ہونا، انعام دینا، غصہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔ میری ذاتی رائے میں جس وصف کا سب سے زیادہ حساب دینا ہوگا اور جس پر ہماری سب سے زیادہ پکڑ ہوگی، وہ عدل ہوگا۔ اللہ چاہتا ہے کہ ہم اپنے ہر رشتے میں عدل کریں چاہے اولاد کا ہو یا والدین کا اور اگر اس میں ہم نے ظلم کیا تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوگی۔
والدین بالخصوص والدہ کی اس جانبدارانہ رویے کی وجہ مشترکہ خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے اور بدقسمتی سے بزرگوں کو تنہائی کا کرب سہنا پڑتا ہے جو کہ خود ان کا اپنا بویا ہوا ہوتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ تمام غلطیاں والدین ہی کی ہوتی ہیں، کوئی بھی انتہا پسند یا جانبدارانہ رویہ غلط ہے، چاہے کسی بھی جانب سے ہو۔
آج جب ہر موضوع پر بات ہورہی ہے تو میں نے سوچا کہ اس حساس موضوع پر بھی بات کر لیتے ہیں جو عموماً تمام گھروں کی کہانی ہے لیکن کوئی بھی اس پر بات کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو میری یہ تحریر بیٹے یا بہو کی بے جا حمایت محسوس ہوگی لیکن اگر اپنے تمام جذبات کو بالائے طاق رکھ کر اگر آپ اس پر سوچیں گے اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیں گے تو آپ کو یہ کہانیاں کھلی آنکھوں نظر آنے لگیں گی۔
اس دفعہ آخر میں کوئی کہانی نہیں، بس ایک مضمون کا حوالہ ہے۔ ’’میبل اور میں‘‘ میں پطرس نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ مردوں سے ضرور داد چاہیں گے بالکل اسی طرح میں اپنی اس تحریر کے مظلوم طبقے یعنی بہو اور بیٹے سے اپنی حمایت ضرور چاہوں گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔