عمر ایوب کی حاضری معافی کی درخواست منظور یا مسترد؟ انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ آگیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
عمر ایوب کی حاضری معافی کی درخواست منظور یا مسترد؟ انسداد دہشتگردی عدالت کا فیصلہ آگیا WhatsAppFacebookTwitter 0 15 March, 2025 سب نیوز
راولپنڈی(آئی پی ایس) انسداد دہشتگردی عدالت نے 5 اکتوبر احتجاج کیس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کی حاضری معافی کی درخواست منظور کرلی۔
راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی عدالت میں عمر ایوب کیخلاف تھانہ صدر حسن ابدال میں درج مقدمات میں عبوری ضمانت کی درخواست پر سماعت ہوئی، اے ٹی سی کے جج امجد علی شاہ نے عمر ایوب کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے وکلاء کی جانب سے حاضری معافی کی درخواست جمع کرائی گئی جو عدالت نے منظور کرلی۔
مقدمہ میں نامزد ملزمان مشال یوسفزئی،صنم جاوید اور احد خٹک کی ضمانتوں پر بھی سماعت ہوئی، صنم جاوید عدالت پیش ہو گئیں جبکہ مشال یوسفزئی اور احد خٹک پیش نہ ہوئے ، عدالت نے دونوں ملزمان کی جانب سے حاضری سے ایک روزہ استثنیٰ کی درخواست بھی منظور کرلی۔
عدالت نے وکلاء صفائی کو19مارچ کودرخواست ضمانت پر بحث کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے چاروں ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت 19مارچ تک کے لئے ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ ملزمان کے خلاف تھانہ صدر حسن ابدال میں دہشتگردی ایکٹ سمیت دیگر دفعات کے تحت 2مقدمات درج ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: حاضری معافی کی درخواست انسداد دہشتگردی عدالت عمر ایوب کی
پڑھیں:
جعلی ڈگری کیس، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام سے روک دیا گیا
اسلام آباد: جعلی ڈگری کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے تحت اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج فرائض انجام دینے سے عارضی طور پر روک دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت تک نافذ العمل رہے گا جب تک سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں سنا دیتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل دو رکنی بینچ نے یہ حکم جاری کیا۔ عدالت نے معروف قانون دان بیرسٹر ظفر اللہ خان اور اشتر اوصاف علی کو عدالتی معاون مقرر کیا، جبکہ اٹارنی جنرل سے درخواست کی سماعت کے قابل ہونے پر قانونی معاونت طلب کی گئی ہے۔
یہ فیصلہ ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے دائر کردہ کو وارنٹو رٹ پٹیشن پر دیا گیا۔ تاہم، کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار عدالت میں پیش نہ ہو سکے۔ ان کے معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ وہ میڈیکل ایمرجنسی کی وجہ سے غیر حاضر ہیں اور سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
دورانِ سماعت اسلام آباد بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار کونسل کے نمائندگان روسٹرم پر آ گئے اور اس درخواست پر تحفظات کا اظہار کیا۔ وکلا نمائندگان نے پٹیشن کو ناقابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کرنے کا مطالبہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فی الوقت عدالت صرف ابتدائی اعتراضات کا جائزہ لے رہی ہے، اور ابھی نہ تو جج صاحب کو اور نہ ہی کسی دوسرے فریق کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کوئی فیصلہ نہیں دیتی، یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا رہے گا۔
عدالت اس اہم آئینی سوال پر غور کر رہی ہے کہ اگر کسی جج کے خلاف شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں زیر سماعت ہو، تو کیا ایسی صورتحال میں آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے؟
اسلام آباد بار کونسل کے رکن راجہ علیم عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ ججز کے خلاف شکایات کا اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو حاصل ہے، اور اگر عدالتیں اس نوعیت کی پٹیشنز کو سماعت کے لیے منظور کرتی رہیں تو یہ عدلیہ کے وقار کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
عدالت نے بار کے نمائندوں سے استفسار کیا کہ آیا وہ اس کیس میں فریق ہیں؟ ساتھ ہی کہا کہ اگر نوٹس جاری کیا گیا تو تمام متعلقہ فریقین کو سنا جائے گا۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر نعیم علی گجر نے کہا کہ بار اس معاملے میں ایک اسٹیک ہولڈر ہے اور ان کا مؤقف ہے کہ یہ درخواست قابلِ سماعت نہیں۔
چیف جسٹس نے جواب میں کہا کہ بار کا آئینی مؤقف قابلِ قدر ہے، تاہم اس وقت عدالت صرف ابتدائی قانونی اعتراضات پر غور کر رہی ہے۔
Post Views: 6