ایرانی شہر چابہار خطے سے آگے تک بین الاقوامی سیاست کا حصہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مارچ 2025ء) چابہار، جنوب مشرقی ایرانی بندرگاہ، جو خلیج عمان میں واقع ہے، دراصل 1983ء میں ایران عراق جنگ کے دوران خلیج فارس سے دور اور تجارت کو متنوع بنانے کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔ بعد ازاں چابہار بندرگاہ کو بھارت کی جانب سے تقریباً 500 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اور قرضوں کے بعد توسیع دی گئی تھی۔
یہ سائٹ دو الگ الگ بندرگاہوں پر مشتمل ہے، شاہد کلانتری اور شاہد بہشتی، جن میں کل دس گہرے پانی کی برتھیں ہیں۔بھارت کا ایران کے ساتھ چابہار بندرگاہ منصوبے کا دفاع
چابہار محض بندرگاہ نہیں
چابہار ایک بندرگاہ سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ جنوبی ایشیائی جوہری طاقت بھارت کے علاقائی تجارتی عزائم سے بھرپور منصوبہ ہے، جس کے لیے بھارت اپنی خصوصیات کے ساتھ ''بیلٹ اینڈ روڈ ‘ انیشی ایٹیو کو حقیقی شکل دینے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
(جاری ہے)
1.6 بلین ڈالر لاگت کے ساتھ چابہار بندرگاہ زاہدان ریلوے لنک کے ساتھ افغانستان سے جڑتی ہے۔ یہ وسطی ایشیا کے لیے نئے علاقائی تجارتی راستوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسے راستے جو بعض صورتوں میں چین کے ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) اقدام، خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) سے براہ راست مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔ چابہار بندرگاہ بھارت کے زیادہ پرعزم شمال جنوب ٹرانسپورٹیشن کوریڈور میں بھی شامل ہے۔ یہ اہم کوریڈور ایک ریل/سڑک اور میری ٹائم کنیکٹیویٹی پروجیکٹ ہے، جو شمال کی طرف سے وسطی ایشیا، روس اور آخر میں یورپ تک پہنچتا ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے میں باضابطہ طور پرشمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں، طالبان
چابہار بندرگاہ کو بھارت 2024 ء میں طے پانے والے ایک 10 سالہ معاہدے کے تحت تیار کر رہا ہے، تاکہ پاکستان کی حریف بندرگاہ گوادر کو نظر انداز کرتے ہوئے وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ تجارت کھولنے کے امکانات کو نئی دہلی کی مہم کے لیے آسان بنایا جا سکے۔
چابہار اور گوادر ایک دوسرے سے صرف 72 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔چابہارکی نئی دہلی کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت کو اسے بین الاقوامی شمال جنوب ٹرانسپورٹ کوریڈور میں شامل کرنے سے واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے اور اس کا مقصد بھارت، ایران، روس اور اس سے بھی آگے تک تجارت کو بڑھانا ہے۔
چابہار کی اہمیت پر ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے عالمی امور کے ماہر اور جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا نے کہا، ''چابہار کی اہمیت علاقائی تجارتی محرکات میں تبدیلی، پابندیوں کو نظر انداز کرنے اور خطے میں بندرگاہوں کے درمیان مسابقت کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں میں مضمر ہے۔
‘‘انڈونیشیا میں جنوب مشرقی ایشیا کی تیز ترین ٹرین کا افتتاح
علاقائی سطح سے بھی آگے چابہار کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کاشف مرزا نے کہا، ''اس بندرگاہ کا جغرافیائی مقام اسے وسطی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے ساتھ ساتھ یورپ تک سے جڑنے کا متحمل بناتا ہے اور یوں یہ تجارت اور نقل و حمل کے ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتی ہے۔
‘‘علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں
گزشتہ چند سالوں کے دوران دنیا بھر میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں دیکھا جائے، تو کئی سطحوں پر علاقائی سیاست بین الاقوامی سیاست کا حصہ بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس بارے میں بین الاقومی امور کی ماہر اورکراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں کہا، ''مغربی ایشیا میں رونما ہونے والی تبدیلیاں معنی خیز ہیں۔
ایران نے بھارت کی مدد سے چابہار بندرگاہ بنائی۔ شروع میں تاثر یہ دیا گیا کہ بھارت اس کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارت کرے گا اور اس کے لیے اسے پاکستان کو بائی پاس کرنے کا موقع مل جائے گا۔ دراصل بھارت نے چابہار کو پاکستان کے خلاف جاسوسی کے لیے بھی استعمال کرنا شروع کیا۔ بھارتی کمانڈر کلبھوشن یادیو نے چابہار کو اپنی سرگرمیوں کا سینٹر بنایا تھا۔‘‘امریکہ نے بھارت کو ایران کے ساتھ کام کر نے کی چھوٹ کیوں دی؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر طلعت وزارت کا کہنا تھا، ''امریکہ کے ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود چین کو دور رکھنے کے لیے واشنگٹن نے نئی دہلی کو ایران میں چابہار پروجیکٹ پر کام کر نے کے لیے فری ہینڈ دے رکھا تھا۔‘‘
چابہار بندرگاہ: بھارت اور ایران میں معاہدہ، امریکہ کی تنبیہ
چابہار میں مبینہ امریکی مداخلت
جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا چابہار میں مبینہ امریکی مداخلت کی بنیادی وجہ اس بندرگاہ میں بھارتی سرمایہ کاری اور ایران کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات پر امریکی تشویش بتاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ''امریکہ کو خدشہ ہے کہ یہ تعاون خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کو مضبوط کر سکتا ہے اور امریکی مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایران پر حالیہ دنوں میں امریکہ کی طرف سے دباؤ میں اضافہ اور اسے دھمکی دیے جانے پر تہران کا امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے انکار بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جبکہ امریکہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے اور چابہار کی ترقی کو بھارت کے ساتھ اپنی شراکت داری کے اہم پہلو کے طور پر دیکھتا ہے۔ امریکہ اس خطے میں چابہار بندرگاہ کی اسٹریٹیجک حیثیت کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔‘‘سی پیک منصوبے کے ’اپ گریڈڈ ورژن‘ پر کام کے لیے تیار ہیں، چین
چابہار پاکستان کے لیے ایک چیلنج؟
کیا چابہار پاکستان کے لیے ایک ممکنہ چیلنج ہے؟ اس بارے میں کاشف مرزا نے کہا، ''چابہار کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اہم مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ یہ بندرگاہ ایک وسیع تجارتی راستے کے طور پر ابھر سکتی ہے۔
چابہار بندرگاہ کی ترقی ایران اور بھارت کے تعلقات کو مضبوط بنا سکتی ہے جو ممکنہ طور پر پاکستان کے علاقائی اثر و رسوخ کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔‘‘ایرانی پالیسی میں تبدیلی؟
پروفیسر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ اب ایران کی پالیسی تبدیل ہو رہی ہے اور اس نے بھارت کے ساتھ چابہار کو شمالی علاقوں سے جوڑنے کا پروجیکٹ منسوخ کر کے اسے اب چین کو دے دیا ہے۔
چین گوادر میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے اور چابہار منصوبہ بھی اب چین کی مہارت سے مستفید ہوگا۔داسو میں ڈیم بنانے والی چینی کمپنی کے کیمپ آفس میں آتش زدگی
پاکستان کے لیے یہ صورتحال کیسی ثابت ہو سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسر طلعت اے وزارت نے کہا، ''پاکستان کے لیے یہ بہتر ہوگا۔ اس طرح بھارت پاکستان کے خلاف اس ایرانی بندرگاہ کو استعمال نہیں کر سکے گا۔
‘‘امریکہ کی نئی حکمت عملی کیا ہو گی؟
ڈاکٹر وزارت کے بقول، ''اب امریکہ کی نئی حکمت عملی یہ ہے کہ پاکستان، ایران اور افغانستان کو ایک نئی جنگ میں دھکیل دیا جائے۔ امریکہ خطے میں چین کے اثر و رسوخ پر بھی سخت تشویش کا شکار ہے۔ خطے میں عدم استحکام کے ساتھ چین کو روکا جا سکے گا۔ اسی لیے آج کل امریکی سی آئی اے کی پوری کوشش ہے کہ خطے کے تین اہم محرکوں ایران، پاکستان اور افغانستان کو عدم استحکام کا شکار کر دیا جائے۔‘‘
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان کے لیے ایران کے ساتھ بین الاقوامی وسطی ایشیا چابہار کی امریکہ کی کاشف مرزا بھارت کے سکتا ہے سکتی ہے رہا ہے ہے اور اور اس نے کہا
پڑھیں:
ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد ( میاں منیر احمد) کیا امریکا اور ایران کے درمیان ڈیل ممکن ہے؟ جسارت کے سوال کے جواب میں سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ایران امریکا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کے لیے تیار ہوسکتا ہے‘ پاکستان مسلم لیگ(ض) کے صدر رکن قومی اسمبلی محمد اعجاز الحق نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک امریکا سے برابری کی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ایران نے سفارتکاری سے کبھی انکار نہیں کیا،مذاکرات کے ذریعے امریکا کو مناسب حل دے سکتا ہے‘ایران نے یورپی ممالک کو منصفانہ اور متوازن جوہری تجویز پیش کی ہے‘ ایران کی لیڈر شپ کہہ چکی ہے امریکا کے ساتھ ہونے والے آئندہ مذاکرات باہمی احترام کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں جس میں کوئی ملک کم یا زیادہ اہمیت پر نہیں شامل ہوگا۔ ایرانی قوم کے بنیادی حقوق پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا اور نہ کسی کے دباؤ میں آئے گا‘ قومی اسمبلی کے سابق دائریکٹر جنرل طارق بھٹی نے کہا کہ آج کل دونوں کے درمیان کوئی ڈیل ہونا مشکل ہے۔ میرے خیال میں 1980 سے ان کے کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔اگر ایران لبنان میں حزب اللہ کی حمایت بند کر دے تو اسرائیل کے لیے یہ واحد خطرہ ہو سکتا ہے۔ٹرمپ اس وقت اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے سعودی سمیت عرب ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔مستقبل میں کچھ بھی ہوا۔ تو دیکھتے ہیں ٹرمپ انتظامیہ اس میں کہاں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔اسرائیل کی مستقبل کی حکمت عملی پر بھی انحصار کرتا ہے کہ آیا وہ فلسطین میں خاص طور پر غزہ میں امن قائم کرنے اور بین الاقوامی افواج کی تعیناتی کی اجازت دیتا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو موقع مل سکتا ہے۔تو آئیے انتظار کریں اور دیکھیں۔ تجزیہ کار رضا عباس نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں باالکل بھی ایسا نظر نہیں آرہا مگر یہ کہ ایران کا ولایت فقیہ کا نظام تبدیل کردیا جائے‘ تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ ایران نے یورپی ممالک کو ایک منصفانہ اور متوازن جوہری تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز ناصرف حقیقی خدشات کو دور کرے گی بلکہ فریقین کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند بھی ثابت ہوگی۔ بزنس کمیونیٹی کے ممبر اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سینئر ممبر اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ ایران نے ایرانی جوہری تنصیبات پر کی گئی غیر قانونی بمباری کے باوجود انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی IAEA کے ساتھ نیا معاہدہ کیا ہے جو تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز ہے۔