نئی سولر پالیسی سے عام بجلی صارفین کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟
اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT
وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن سردار اویس احمد خان لغاری کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نئی سولر پینل پالیسی کی منظوری کے لیے جلد اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے ایک سمری پیش کرنے جا رہے ہیں۔ جس کے تحت چھتوں پر نصب کیے جانے والے نئے سولر پینلز سے بجلی ساڑھے 9 سے 10 روپے فی یونٹ کےریٹ پر خریدی جائے گی۔
ان کی جانب سے مزید یہ بھی کہا گیا کہ حکومت اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے نصب چھتوں کے سولر پینلز کے معاہدوں کا احترام جاری رکھے گی اور ان سے بجلی 27 روپے فی یونٹ کے نرخ پر خریدتی رہے گی۔
یہ بھی پڑھیے: سولر نیٹ میٹرنگ صارفین سے 18 فیصد سیلز ٹیکس کیسے وصول کیا جائے گا؟
واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی منظوری دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ نیٹ میٹرنگ صارفین کی وجہ سے ملک میں بجلی خرید کر استعمال کرنے والے عام صارفین پر اضافی معاشی بوجھ پڑا ہے جس کی وجہ سے یہ پالیسی منظوری کی گئی ہے۔
اس ساری صورتحال کے پیش نظر اب یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا اس پالیسی کے منظور ہونے کے بعد واقعی اب عام بجلی صارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی آئے گی؟
سولر سگما کمپنی کے مالک محمد نثار کا کہنا تھا کہ حکومت کے مطابق ڈسکوز نیٹ میٹرنگ کی وجہ سے 150 ارب روپے کا نقصان کر رہے ہیں۔ مگر دیکھا جائے تو پچھلے سال ڈسکوز نے صرف 1269 جی واٹ آور سولر میٹر صارفین سے خریدا تھا، جو کہ 27 روپے فی یونٹ کے حساب سے صرف 34.
یہ بھی پڑھیے: کیا حکومت سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی تبدیل کر رہی ہے؟
ان کا کہنا ہے کہ تقسیم کے نقصانات کو کم کرنے کے بجائے (جو کہ سولر یونٹس کی خریداری سے 20 گنا زیادہ ہیں) حکومت چھوٹے سبز سولر یونٹس کی خریداری کے لیے ادائیگی میں کمی کر رہی ہے، جو اب درمیانی طبقے کے لوگ انسٹال کر رہے ہیں تاکہ اپنے بھاری بجلی کے بلوں سے بچ سکیں۔ لیکن حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ اس کا بوجھ درمیانی درجے کے صارفین پر پڑ رہا ہے۔ دراصل حکومت کا ریلیف امیر طبقے کے لیے اب بھی برقرار رہے گا کیونکہ حکومت ان سے تو 27 روپے فی یونٹ میں ہی بجلی خریدتی رہے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے سال سولر پاور خریدنے کے لیے 34.3 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے، اور اس سال یہ رقم 50 ارب روپے سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔ یہ 50 ارب روپے ڈسکوز کا نقصان نہیں کیونکہ اس کے بدلے انہیں 1,850,000,000 یونٹس ملتے ہیں جنہیں وہ دوبارہ بیچ سکتے ہیں۔ اس لیے یہ جو نقصان کی رٹ حکومت نے لگا رکھی ہے اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
محمد نثار کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ پرانے اور نئے صارفین سے بجلی فی یونٹ ایک ہی قیمت پر خریدے کیونکہ نئے سولر صارفین کی اس سے حوصلہ شکنی ہو گی اور وہ افراد جو سولر سسٹم کی طرف جانا چاہ رہے ہیں یا سوچ رہے تھے، ان میں سے ایک بڑی تعداد سولر پاور سسٹم لگوانے کے خیال کر ترک کر دے گی۔ خود حکومت تقریباً 48 روپے میں فی یونٹ بجلی فروخت کر رہی ہے اور سولر صارفین سے 10 روپے فی یونٹ خریدنا چاہتی ہے۔ یہ ناانصافی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: گھریلو سولر پینل کا متبادل کیا اور کتنا کارآمد ہے؟
انہوں نے کہا کہ حکومت یہ بھی کہتی ہے کہ انہوں نے بہت سی آئی پی پی معاہدوں کو ختم کرنے یا کم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اس سے عوام کو کیا فائدہ پہنچا ہے؟ بجلی کے بلوں میں تو کوئی فرق نہیں آیا۔ اور اس سولر پالیسی کا بھی بجلی کے بلوں پر کوئی خاص فرق نہیں آئے گا۔
سولر سگما کمپنی کے مالک نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سولر کی نئی پالیسی سولر پینل کے صارفین کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی کیونکہ ان کے سولر کی انوسٹمنٹ اتنی جلد پوری نہیں ہو پائی گی۔ جو یونٹ وہ پاور کمپنی کو 10 روپے میں فروخت کریں گے۔ وہی یونٹ وہ خود تقریباً 40 سے 41 روپے فی یونٹ میں اس وقت خریدیں گے جب انہیں حکومت سے بجلی کی ضرورت پڑے گی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے غریب طبقے کی ریلیف کی بات کی جا رہی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ فی یونٹ بجلی کی قیمت میں سولر پینل آن گریڈ استعمال کرنے والوں کا فی یونٹ 27 روپے کے بجائے 10 روپے میں خریدیں گے۔ اس سے یہ ہوگا کہ جن پر بوجھ پڑ رہا ہے انہیں ریلیف ملے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے باقی لوگوں کے بجلی کی قیمتوں میں بھی قابل ذکر کمی نہیں ہوگی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آن گریڈ سولر سسٹم استعمال کرنے والوں کو نقصان یہ ہوگا کہ ان کا پے بیک پیریڈ بہت طویل ہو جائے گا۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر ری انرجی شرجیل احمد سلہری نے وی نیوز کو بتایا کہ اس نئی سولر پالیسی کے بدلنے سے صرف ایکسپورٹ یونٹس کی فنانشل ایڈجسٹمنٹ چارجز میں کمی ہوگی۔ حکومت کی جانب سے ایک بار جب گراس میٹرنگ کی جانب بڑھا جا چکا ہے تو اب صارفین کے لیے سولر انسٹالیشن میں کوئی کشش نہیں رہے گی۔
نیٹ میٹرنگ اور گراس میٹرنگ کیا ہے؟
نیٹ میٹرنگ میں صارف اپنی بنائی ہوئی بجلی استعمال کرتا ہے اور بغیر بل ادا کیے اضافی بجلی بیچ کر پیسے کماتا ہے، جبکہ گراس میٹرنگ پر سولر صارف اپنی بنائی ہوئی بجلی حکومت کو سستے داموں بیچ کر حکومتی یونٹ ریٹ پر بجلی خریدتا ہے اور اس پر بل بھی ادا کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: آئی ایم ایف کو ملک میں بڑھتی ہوئی سولر انرجی کی تنصیب پر تشویش، گردشی قرض میں کمی کا بھی مطالبہ کر دیا
شرجیل احمد سلہری کا مزید کہنا تھا چونکہ ابھی پالیسی کے نفاذ میں وقت ہے اس لیے اگلے 3 مہینے آن گرڈ سسٹمز کو کسٹمرز تک پہنچانے کا بہترین وقت ہے تاکہ وہ اگلے 4-5 سالوں کے لیے اعلیٰ نیٹ میٹرنگ ریٹ کا فائدہ اٹھا سکیں۔ حکومت کی جانب سے سولر صارفین کے لیے مشکلات ہی پیدا کی گئی ہیں۔ پاکستان میں اور اتنی پالیسیوں سے کچھ خاص بدلاو نہیں آیا تو اس سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
معاشی ماہرین راجہ کامران کا اس بارے میں کہنا تھا کہ اب حکومت کی جانب سے 10 روپے فی یونٹ بجلی خریدنے کا کہا جا رہا ہے جبکہ پرانے صارفین سے 27 روپے میں ہی خریدی جائے گی۔ کہتے ہیں کہ نیٹ میٹرنگ ویسے بھی دنیا بھر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہاں یونٹ ٹو یونٹ ایکسچینج ہو رہا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں پیمنٹ والا سلسلہ ہے۔ بجائے فی یونٹ بجلی کی قیمت کو کم پیسوں میں حکومت خریدے بہتر ہے کہ اس نظام کو یونٹ ٹو یونٹ ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سردیوں میں کسی سولر صارف نے کم بجلی کے یونٹس استعمال کیے ہیں مگر ان کی بجلی گریڈ میں زیادہ گئی ہے تو گرمیوں میں اس کو نیٹ آف کر دیا جانا چاہیے لیکن پاکستان میں پیمنٹس کی جا رہی ہیں۔ حکومت پہلے ہی خسارے میں ہے تو اس پالیسی میں مزید تبدیلیاں ہونی چاہیے تھیں۔ نیٹ میٹرنگ زیادہ تر امیر طبقہ استعمال کر رہا ہے اور وہی طبقہ لابنگ کے ذریعے اس کی درست پالیسی نہیں بننے دے رہا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس پالیسی سے ڈسکوز کی مجموعی طور پر نیٹ میٹرنگ میں کمی ہوگی لیکن اس کا عام بجلی صارفین کے بجلی کے بلوں پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
SOLAR NET METERING سولر نیٹ میٹرنگذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سولر نیٹ میٹرنگ حکومت کی جانب سے روپے فی یونٹ بجلی کے بلوں کہنا تھا کہ نیٹ میٹرنگ سولر پینل صارفین کے صارفین سے کہ حکومت ارب روپے کہا گیا رہے ہیں سے بجلی ہے اور کے لیے
پڑھیں:
10سال میں 23 سرکاری اداروں سے قومی خزانے کو 55 کھرب روپے کے نقصان کا انکشاف
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) ملک کے 23 سرکاری اداروں (اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز) نے گزشتہ 10 سال کے دوران قومی خزانے کا 55 کھرب روپے (5.19 ارب ڈالرز) کا نقصان کیا ہے اور اس میں اگر صرف قومی ائیرلائن پی آئی اے کی بات کی جائے تو اسے 700 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔
یہ ایک ایسا انکشاف ہے جس نے احتساب اور نجکاری کی ضرورت کو ایک مرتبہ پھر اجاگر کیا ہے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں وزیراعظم کے مشیر برائے امور نجکاری محمد علی کی جانب سے پیش کیے گئے اعداد و شمار سرکاری شعبہ جات میں کئی دہائیوں سے پائی جانے والی نا اہلی اور بد انتظامی پروشنی ڈالتے ہیں۔
محمد علی کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال نہ صرف ناپائیدار ہے بلکہ ہر ٹیکس دہندہ پر بوجھ ہے۔ رکن قومی اسمبلی فاروق ستار کی زیر صدارت ہوئے اجلاس میں بتایا گیا کہ رواں ماہ مزید ایک ہزار یوٹیلیٹی اسٹورز بند کیے جائیں گے، سینکڑوں ملازمین فارغ ہو جائیں گے۔ اس صورتحال سے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت اجاگر ہوتی ہے۔
کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ موجودہ 5500 میں سے صرف 1500 یوٹیلیٹی اسٹورز ہی فعال رہیں گے، جبکہ مالی لحاظ سے بہتر حالات والے اسٹورز کی نجکاری کا منصوبہ موجود ہے۔
فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ملازمتوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ان اقدامات کی وجہ سے ملازمین کا مستقبل نظر انداز نہیں ہونا چاہیے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسٹورز کے 2237 ملازمین کو فارغ کیا جا چکا ہے، گزشتہ مالی سال کے دوران 38 ارب روپے کی سبسڈی کے باوجود یوٹیلیٹی اسٹورز کو رواں سال مختص کردہ 60 ارب روپے نہیں دیے گئے۔
پاور ڈویژن کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ خسارے کا شکار بجلی کی تین تقسیم کار کمپنیاں (سیپکو، حیسکو اور پیسکو) کی نجکاری کیلئے ورلڈ بینک کے ساتھ مشاورت جاری ہے۔
نوازشریف کا فوری پاکستان واپس آنے کا فیصلہ