سندھ میں بڑھتی ہوئی مزاحمت
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
صوبہ سندھ سے ایک نئی تحریک جنم لے رہی ہے، جس کا بنیادی عنصر ہے مزاحمت۔ پیپلزپارٹی اگر چھ کینالوں کے مسئلے پر خاموشی اختیارکرتی ہے کیونکہ سندھ حکومت نے ابھی تک اس معاملے پر اپنا واضح موقف بیان نہیں کیا تو آنیوالا وقت پیپلزپارٹی کے لیے سندھ میں مشکل ترین وقت ہے اور یقینا پیپلز پارٹی سندھ میں اپنا ووٹ بینک گنوا دے گی۔
ایسا نہ بھی ہو مگر یہ پارٹی اپنی اخلاقی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکے گی۔ مشکل یہ کہ سندھ میں مضبوط لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے سوا کوئی ایسی پارٹی نہیں جو سندھ میں مقبول ہو۔ پانی کی تقسیم پر سندھ ایک متفقہ بیانیہ رکھتا ہے اور پیپلز پارٹی نے اس پر اپنی سیاسی ترجیحات وضع کی ہوئی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے موقف اور پالیسی میں جھول نظر آرہا ہے۔ ایک طرف انھوں نے SIFC کے اجلاس میںکینالوں کے معاملے میں اپنی رضا مندی دکھائی ہے اور دوسری طرف سندھ میں ان کے لیڈر لوگوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ کینال نہیں بن رہے ہیں۔ لوگوں کے سامنے اس بات کا انکشاف تب ہوا جب پارلیمنٹ کے اجلاس میں صدر آصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ نئے چھ کینال بن رہے ہیں، بقول ان کے کہ یہ نہیں بننے چاہئیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر کیوں ان کینالوں کے بننے پر پہلے رضامندی ظاہرکی گئی؟
08-07-2024 کو ایوانَ صدر میں SIFC کا اجلاس ہوا ۔ SIFC آئینی ادارہ نہیں، اس ادارے کا آئین کے کسی آرٹیکل میں بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ لٰہذا SIFC مجاز نہیں کہ وہ آئینی اداروں کو بائی پاس کرتے ہوئے خود فیصلے کرے اور ان فیصلوں پر باقی تمام اداروں سے عمل درآمد کرائے یا پابند کرے۔
ان فیصلوں کے لیے کونسل آف کامن انٹرسٹ (CCI) جو ایک آئینی ادارہ ہے، اس کی منظوری لازمی ہوتی ہے۔ صوبہ سندھ میں ایسا گمان کیا جا رہا ہے کہ جیسے ملک میں اب بھی ون یونٹ رائج ہے۔ یہی فیصلے بنیاد بنے کہ سندھ میں قوم پرست لوگوں نے اپنے الگ بیانیہ بنایا۔ پہلے تو ان کی باتیں سندھ کے لوگوں کے لیے توجہ کا مرکز نہیں تھیں،کیونکہ پیپلزپارٹی نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی اور تمام قوم پرست بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو ئے، مگر آج پیپلزپارٹی وفاق و سندھ میں برسراقتدار ہے یعنی حکومت کا حصہ ہے اسی لیے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے اور اگر کچھ کہا بھی تو بہت ہی رسمی طور پر۔
آج جب سندھ میں پیپلز پارٹی کے بغیر ہی قوم پرستوں کا بیانیہ پانی کے مسئلے پر مضبوطی پکڑ رہا ہے تو پیپلز پارٹی پریشان ہے اور شاید پیپلز پارٹی کی پچاس سالہ حکومت میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ سندھ کی سرزمین ان کے پاؤں تلے سے کھسک رہی ہے۔
سندھ میں نہروں کے ایشو پر تحریک ابھرتی نظر آ رہی ہے اور یہ بھی پہلی مرتبہ ہوگا کہ سندھ کا وڈیرہ اس تحریک کا حصہ نہیں ہوگا۔ 1983 میں ایم آر ڈی کی تحریک کی قیادت غلام مصطفی جتوئی نے کی تھی، وڈیرے جیلوں میں گئے۔ مگر پندرہ یا بیس دنوں میں ہی بہت سے وڈیروں نے اپنا معافی نامہ پیش کر کے جیل سے رہا ئی پائی۔
اس تحریک میں صرف وڈیرے نہیں تھے یہ تحریک ایک عوامی تحریک تھی جنرل ضیاء الحق کے خلاف اور یہ تحریک دیہی سندھ میں زوروں سے چلی۔ اس تحریک کو پوری دنیا نے رپورٹ کیا۔ گو کہ یہ تحریک پیپلز پارٹی کی تحریک تھی محترمہ بے نظیر بھٹو اس وقت جلاوطن تھیں اور اس تحریک کا بنیادی عنصر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تھی جس کا غم سندھ کے لوگوں میں شدید تھا۔
اب قوم پرست نہروں کی تعمیر کے ایشو کو لے کر تحریک بنانے کی کوشش کررہے ہیں ، سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو سولہ سال گزر چکے ہیں اور جس طرح سے انھوں نے سسٹم کو کنٹرول کیا ہے تو اگلے بیس برس تک ان کا اقتدار سے باہر رہنا محال ہے۔ ان کی حکومت میں ان کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
سندھ کے ڈیڑھ کروڑ بچے اسکولوں میں جانے سے محروم ہیں۔ تعلیمی اداروں کا نظام تباہ حال ہے، بلدیاتی نظام زوال زمین بوس ہے، صحت کے ادارے غیر فعال ہیں۔ پولیس کا محکمہ کرپٹ پریکٹسزکا شکار ہے۔ کراچی اور دیگر شہروں میں منشیات کا کاروبار گہری جڑیں پکڑچکا ہے۔
میں یہ ضرورکہوں گا کہ لوگ اب پیپلز پارٹی سے بیزار ہیں۔ ان کا نعم البدل شاید اب چولستان کی نہر کو ایشو بنا کر نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ سندھ میں ایسی تحریک ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس میں پیپلز پارٹی کی کوئی شمولیت نہیں اور سندھ کا وڈیرہ بھی غائب ہے۔
ایک غیر فطری طریقے سے پورا پاکستان جاگیرداروں اور قبائلییت کے جمود سے باہر نکل چکا ہے، مگر سندھ میں اب بھی وڈیروں کا غلبہ ہے اور ان وڈیروں کا نعم البدل بھی وڈیروں کو ہی سمجھا جاتا رہا ہے۔ قوم پرستوں کا یہ موقف ہے کہ وڈیروں کی سوچ یہ ہے کہ سندھ کی مڈل کلاس سندھ کی قیادت نہ کرے اور پانی کے سنگین معاملے میں جس طرح سے ان وڈیروں اور پیپلز پارٹی نے چپ سادھ لی ہے، اس نے قوم پرستوں کے اس موقف کو مزید مضبوط کیا ہے۔
بلوچستان میں بھی ایسا ہی کیا گیا۔ غیر مقبول لوگوں کو پیپلز پارٹی کا رکن بنا کر، ڈاکٹر عبد المالک جیسی مڈل کلاس قیادت کو پیچھے دھکیل دیا گیا۔ حقیقی عوامی نمایندگان کو اقتدار میں جب شرکت نہیں دی گئی تو ماہ رنگ بلوچ ، بلوچستان میں بڑے جلسے کرنے لگ گئی۔
پیپلز پارٹی سندھ میں وہ ہی کام کرتی ہے ۔ سندھ کے اندر موجودہ نہری زمینوں کے لیے بھی اس وقت پانی کی قلت ہے۔ کوٹری سے ڈاؤن اسٹریم پانی جس کی اِرسا کے معاہدے کے تحت گارنٹی دی گئی تھی، و ہ اب ماضی بن چکا۔انڈس ڈیلٹا اب تباہ ہو چکا۔ لگ بھگ تین لاکھ ایکڑ زمین سمندر نگل چکا ہے۔ زیرِ زمین پانی، پینے کے لائق نہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہیں۔
اگر وفاقیت کی نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان سیاسی طو ر پر انتہائی نچلی سطح پرکھڑا ہے۔ ہم نے کبھی بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ پاکستان کا وفاقی نظام حساس ترین وفاقی نظام ہے۔ 1973 میں پاکستان کو آئین دیا گیا اور یہی آئین اس ملک کی بقاء کا باعث بنا گوکہ ہم نے اس آئین کو بار بار توڑا۔ ملک میں اس وقت جمہوری قوت کا فقدان ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) جمہوری قوتیں ہیں۔ تاہم اس وقت ایک ہائبرڈ نظام جو چل رہا ہے۔ 14 مارچ نہروں کی حفاظت کا عالمی دن تھا۔ اس دن کو سندھیوں نے اپنے وجود اور بقاء کا اہم دن قرار دے دیا ہے۔کل تک سندھی اپنے ثقافت کے دن کو اہم مانتے تھے مگر اب نہروں کی حفاظت کے عالمی دن کو اہم ترین مانتے ہیں۔ پچھلے جمعے کو سندھ کے لوگوں نے جن میںعورتیں، بچے، بوڑھے، ڈاکٹرز، اساتذہ، وکلاء شامل تھے ، احتجاج کیا۔ بس اس احتجاج میں نہ پیپلز پارٹی کی شرکت تھی اور نہ ہی سندھ کے وڈیروں کی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی کی پارٹی کے اس تحریک سندھ کے کہ سندھ کی کوشش رہی ہے اور یہ کے لیے ہے اور رہا ہے
پڑھیں:
اساتذہ کا وقار
کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔
کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔
ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔
80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔
1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔
تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔
کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔