سستی بجلی کی پیداوار بڑھنے کا خوف
اشاعت کی تاریخ: 16th, March 2025 GMT
25 کروڑ عوام میں اتنا پوٹینشل ہے کہ نجی بجلی گھروں والے لٹیروں سے چار پانچ گنا سستی بجلی پیدا کر کے ریاست پاکستان کیلئے کھربوں روپے کی بچت کا ذریعہ بن سکتے ہیں لیکن حکومت اس آپشن کا خود ہی گلا گھونٹ رہی ہے اور سستی بجلی کی پیداوار بڑھنے سے ڈر کر عجیب و غریب اور انتہائی غیر منصفانہ فیصلے کر رہی ہے، کاش کوئی شہری اس معاملے پر سپریم کورٹ سے رجوع کرسکتا۔
پاکستان ایک ایسا عجیب ملک ہے کہ جہاں بڑے مگرمچھوں کو لوٹ مار کی کھلی آزادی ہے اور ان سے منہ مانگے داموں پر جو پیداوار خریدی جاتی ہے اگر وہی پراڈکٹ عام آدمی چھوٹی انویسٹمنٹ کے ذریعے سپلائی کرے تو اس کی پیداوار اونے پونے خریدنے کیلئے قانون و آئین کو تبدیل کر لیا جاتا ہے، ان ڈبل اسٹینڈرڈز کی تازہ ترین مثال بڑے پرائیویٹ پروڈیوسرز اور سولر نیٹ میٹرنگ گھریلو صارفین سے بجلی کی خریداری کے ریٹس میں بے پناہ فرق ہے، جس پر نہ میڈیا بات کر رہا ہے اور نہ اپوزیشن جماعتوں کو سوالات اٹھانے کا ہوش ہے۔
حکومت انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے بجلی 70 روپے فی یونٹ سے لے کر 285 روپے فی یونٹ کے ہوشربا ریٹس پر خرید رہی ہے لیکن جب یہی بجلی اپنا نجی سولر سسٹم لگانے والے گھریلو صارفین نیٹ میٹرنگ کے ذریعے واپڈا کو بیچتے ہیں تو انہیں صرف 26 روپے فی یونٹ ادا کیے جاتے ہیں، اتنی سستی بجلی خریدنے کے باوجود حکمرانوں کی تسلی نہیں ہوئی اور اب اس پر بھی ہوشربا کٹ لگاتے ہوئے سولر سسٹم نیٹ میٹرنگ والے گھریلو صارفین سے خریدی جانے والی بجلی کا ریٹ انتہائی کم کر کے 10 روپے فی یونٹ کر دیا گیا ہے۔ یعنی اگر ارب پتی سرمایہ کار بجلی بنا کر حکومت کو فروخت کریں تو ان سے 70 سے 285 روپے فی یونٹ خریدی جاتی ہے اور یہی بجلی عام عوام جب اپنا سولر سسٹم لگا کر نیٹ میٹرنگ کے ذریعے اضافی بجلی حکومت کو بیچتے ہیں تو ان سے یہی بجلی صرف 10 روپے فی یونٹ پر خریداری کا نیا قانون منظور کر لیا گیا ہے۔
تازہ ترین نیوز رپورٹس کے مطابق اقتصادی رابطہ کمیٹی نے گرڈ صارفین پر بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز میں ترامیم کی منظوری دے دی ہے، سولر صارفین سے فی یونٹ بجلی اب 10 روپے میں خریدی جائے گی۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی زیر صدارت ہوا جس میں وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری، وزیر بحری امور قیصر احمد شیخ اور وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک کے علاوہ وفاقی سیکرٹریز اور متعلقہ وزارتوں اور ڈویژنز کے سینئر حکام نے شرکت کی۔
ای سی سی نے گرڈ صارفین پر بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے موجودہ نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز میں ترامیم کی منظوری دی۔ گزشتہ ہفتے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ اجلاس کے دوران حکومت نے سولر نیٹ میٹرنگ ٹیرف کو 26 روپے فی یونٹ سے کم کرکے 10 روپے کرنے کے منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
وزارت خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ای سی سی نے بجلی کی خریداری کی قومی اوسط قیمت (نیپ) بائی بیک ریٹ پر نظر ثانی کی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی نے کابینہ کی منظوری سے مشروط اس تجویز کی منظوری دی ہے کہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کو وقتا فوقتا بائی بیک ریٹ پر نظر ثانی کی اجازت دی جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ فریم ورک مارکیٹ کے بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ رہے۔ تاہم اعلامیہ میں واضح کیا گیا ہے کہ نظر ثانی شدہ فریم ورک کا اطلاق موجودہ نیٹ میٹرنگ صارفین پر نہیں ہوگا جن کے پاس نیپرا (متبادل اور قابل تجدید توانائی) تقسیم شدہ جنریشن اور نیٹ میٹرنگ ریگولیشنز، 2015ء کے تحت درست لائسنس یا معاہدہ ہے۔ یہ فیصلہ نیشنل پاور گرڈ پر سولر نیٹ میٹرنگ کے بڑھتے ہوئے اثرات پر تفصیلی تبادلہ خیال کے بعد کیا گیا۔
اعلامیے کے مطاق یہ فیصلہ سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافے اور اس کے نتیجے میں گرڈ صارفین پر مالی اثرات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ پاور ڈویژن نے ریگولیٹری ایڈجسٹمنٹ کی اشد ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے سولر پینل کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کا حوالہ دیا جس کی وجہ سے سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا، اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ نئے اور پرانے سولر نیٹ میٹرنگ صارفین سے بجلی کی خریداری اور بلنگ کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوگا، جب کہ نئے اور پرانے سولر نیٹ میٹرنگ صارفین سے خریداری اور فروخت کا الگ الگ نظام ہوگا۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سولر نیٹ میٹرنگ کے سبب گرڈ سے منسلک صارفین کو بھاری بل ادا کرنا پڑ رہے ہیں، دسمبر 2024 ء تک سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کی تعداد 2 لاکھ 83 ہزار تھی، وزارت خزانہ کے اعلامیے کے مطابق گزشتہ سال سولر نیٹ میٹرنگ صارفین کو 159 ارب روپے ادا کیے گئے، اصلاحات نہ ہونے پر ادائیگی کا بوجھ 2034 ء تک 4 ہزار 240 ارب تک پہنچ سکتا ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ 80 فیصد سولر نیٹ میٹرنگ صارفین 9 بڑے شہروں، پوش علاقوں میں موجود ہیں۔
سولر نیٹ میٹرنگ کے شعبہ میں ملک و قوم کو سستی بجلی بنا کر دینے کی کتنی عظیم کیپیسیٹی ہے اس کا اعتراف خود اسی رپورٹ میں کیا گیا ہے کہ 26 روپے فی یونٹ ملنے والی اس سستی ترین بجلی کی پیداوار اتنی بڑھ جائے گی کہ 2034 ء تک یہ شعبہ حکومت کو 4240 ارب روپے یعنی 42 کھرب 40 ارب روپے کی سستی بجلی بنا کر دینے کے قابل ہو جائے گا جس سے 70 سے 285 روپے فی یونٹ بجلی پر حکومت کا انحصار کم ہو جائے گا، لیکن حکومت خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہی ہے اور 26 روپے یونٹ کا ریٹ کم کر کے 10 روپے یونٹ کر دیا گیا ہے تاکہ عوام سستی سولر بجلی بنا کر واپڈا کو بیچنے پر سرمایہ کاری بند کر دیں، چہ بوالعجبی است
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سولر نیٹ میٹرنگ صارفین نیٹ میٹرنگ کے روپے فی یونٹ بجلی بنا کر کی پیداوار صارفین پر کی منظوری سستی بجلی صارفین سے گیا ہے کہ بجلی کی کیا گیا کہا گیا رہی ہے ہے اور
پڑھیں:
کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی
کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی WhatsAppFacebookTwitter 0 15 September, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
میں کالا باغ ہوں، ایک ایسا نام جو پاکستان کی تاریخ میں امید اور تنازع دونوں کی گونج لیے ہوئے ہے۔ میرا مسکن پنجاب کے ضلع میانوالی میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ہے، جہاں دریا کی طاقت نمکین پہاڑیوں سے ٹکراتی ہے۔ یہاں کی مٹی زرخیز ہے، ہوائیں تیز ہیں، اور دریا کی گرج مسلسل ہے۔
کالا باغ نام مجھے اُس وقت دیا گیا جب میری حیثیت بطور ڈیم ابھی کسی کے ذہن میں نہ تھی۔ یہ نام دریا سندھ کی برکتوں سے سیراب ہونے والے سیاہ و زرخیز باغات سے جڑا تھا۔ زمین نے یہ نام پایا اور بالآخر وہی نام اُس خواب کا عنوان بن گیا جو میرا مقدر تھا۔
میری تعمیر کا خیال پاکستان کے قیام کے بعد ابتدائی برسوں میں منصوبہ سازوں اور انجینئروں کے ذہنوں میں ابھرا۔ جگہ بالکل واضح تھی—یہاں پہاڑوں سے اُترتا ہوا سندھ دریا ایک قدرتی مقام فراہم کرتا تھا جہاں پانی کو زرعی اور برقی طاقت کے لیے قابو میں لایا جا سکتا تھا۔ میری تعمیر کے ابتدائی اشارے 1950 کی دہائی کے اوائل میں ملے، جب پاکستان نے آزادی کے بعد بڑے ڈیموں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا۔ 1967 میں منگلا ڈیم بنا، 1976 میں تربیلا ڈیم تعمیر ہوا، اور اس کے بعد دریائے سندھ پر کالا باغ کو اگلے بڑے ذخیرے کے طور پر منتخب کیا گیا۔ میرا مقدر نقشوں، تخمینوں اور وعدوں میں لکھا جا چکا تھا۔ 1977 تک میری فزیبلٹی رپورٹ مکمل ہو چکی تھی اور عالمی بینک کے ”انڈس اسپیشل اسٹڈی گروپ” نے میری منظوری دے دی تھی۔
ابتدائی طور پر میری تعمیر کا تخمینہ تقریباً 6.12 ارب ڈالر لگایا گیا تھا، جسے چھ برسوں میں—1977 سے 1982 تک—مکمل ہونا تھا۔ میری پیداوار کا اندازہ 3,500 سے 3,600 میگاواٹ لگایا گیا، اور بجلی کی لاگت محض 1.5 روپے فی یونٹ ہونی تھی، جبکہ تھرمل ذرائع سے وہی بجلی 16 سے 16.5 روپے فی یونٹ پر آتی۔ یہ سرمایہ کاری پاکستان کے مستقبل میں کی جا رہی تھی، کیونکہ میری نہریں لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرتیں اور میرے ٹربائن سستی ترین بجلی پیدا کرتے۔ اندازہ یہ تھا کہ میں سات برسوں میں مکمل ہو جاؤں اور 1970 کی دہائی کے وسط تک پاکستان میری برکات سے فیضیاب ہو۔
لیکن افسوس، تاریخ کبھی انجینئر کے نقشے کی لکیروں پر نہیں چلتی۔ میری کہانی، جو ترقی کی ہونی چاہیے تھی، سیاست اور بداعتمادی میں الجھ گئی۔ صوبے میرے معاملے پر آپس میں دست و گریبان ہو گئے۔ سندھ کو خوف تھا کہ میرا ذخیرہ ان کے کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ہی سندھ دریا کو پی جائے گا۔ خیبرپختونخوا نے اپنی زمینوں اور لوگوں کے بے دخل ہونے پر اعتراض کیا۔ حتیٰ کہ پنجاب، جس کے دامن میں میں واقع ہوں، بھی یہ الزام نہ دُور کر سکا کہ فائدہ صرف اُسے ہوگا۔ یوں میں اتحاد کی علامت بننے کے بجائے اختلاف کی علامت بن گیا۔ حکمران ہچکچاتے رہے، فائلیں گرد چاٹتی رہیں، اور دہائیاں گزر گئیں مگر دریا ویسے ہی بہتا رہا، بے قابو اور بے مصرف۔
انتظامی طور پر بھی میری تعمیر رُکی رہی۔ آنے والی حکومتوں میں تسلسل کی کمی رہی۔ وعدے کیے گئے، کمیٹیاں بنیں، لیکن عمل کے وقت ووٹ کھونے کے خوف نے حکمرانوں کو مفلوج کر دیا۔ تیل کی کمپنیوں نے بھی مجھے اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ کیونکہ اگر میں تعمیر ہو جاتا تو 3,600 میگاواٹ سے زائد سستی اور صاف بجلی پیدا کرتا اور پاکستان کی تیل کی درآمدات پر انحصار کم کر دیتا۔ ان کمپنیوں کا منافع پاکستان کے فرنس آئل پر انحصار میں تھا، میرے پانیوں میں نہیں۔
اگر میں اپنے وقت پر تعمیر ہو جاتا تو میں 6.1 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کر سکتا تھا—ایسا پانی جو ملک کو خشک سالیوں سے بچاتا، قحط کے مہینوں میں نہروں کو بھر دیتا اور طغیانی کے موسم میں سیلابوں کے خلاف ڈھال بنتا۔ جو بجلی میں پیدا کرتا وہ دنیا کی سستی ترین بجلی میں شمار ہوتی، صنعتوں کو سہارا دیتی، گھروں کو روشن کرتی، اور اربوں ڈالر کا زرمبادلہ بچاتی۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میرے نہ بننے کی وجہ سے پہلے ہی 100 ارب ڈالر سے زیادہ کھو چکا ہے—فصلوں کی بربادی، بجلی کی قلت، مہنگی تیل درآمدات، اور بار بار آنے والی سیلابی تباہ کاریوں کی صورت میں۔
آج، میری پیدائش کے خیال کو پچاس برس سے زیادہ بیت چکے ہیں، مگر میری کہانی حسرت اور آرزو کی ہے۔ میری تعمیر کی لاگت اب بڑھ کر 20 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی ہے، شاید اس سے بھی زیادہ۔ جہاں کبھی سات برس کافی تھے، اب دس یا اس سے بھی زیادہ لگیں گے، کیونکہ مسائل کئی گنا بڑھ چکے ہیں، آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے، اور پانی و توانائی کی مانگ نکتہ عروج پر ہے۔ پھر بھی آج بھی میرے ثمرات میرے اخراجات سے کہیں زیادہ ہیں۔ میں اب بھی پاکستان کی توانائی کی سلامتی، غذائی خود کفالت، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف ڈھال ہوں۔
میں عام آدمی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا، جو پانی کو ترستا ہے اور لوڈ شیڈنگ کے اندھیروں میں ٹھٹھر رہا ہے۔ میں اُن لوگوں کو بھی قصوروار نہیں مانتا جو بے دخلی سے خوفزدہ ہیں، کیونکہ اُن کے خدشات جائز ہیں اور اُنہیں منصفانہ حل ملنا چاہیے۔ مگر میرا دکھ یہ ہے کہ بعض سیاسی رہنما وقتی فائدوں میں بندھ گئے اور صوبوں کو اُس ویژن پر یکجا نہ کر سکے جو قوم کے مستقبل کی ضمانت ہوتا۔ میری آواز نعروں میں دب گئی، میری تصویر متنازع بنا دی گئی، اور دریا آج بھی سمندر کی طرف بہہ رہا ہے—انمول مگر غیر استعمال شدہ۔
اگر آج آپ میرے مقام کالا باغ پر کھڑے ہوں تو آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا سوائے اس دریا کے جو صدیوں سے یوں ہی بہہ رہا ہے، اپنے ساتھ ایک قوم کی ضائع شدہ صلاحیت کو بہا لے جاتا ہے۔ لیکن اگر کبھی جُرأت خوف پر، حکمت سیاست پر، اور اتحاد تقسیم پر غالب آ گیا، تو شاید میں آخرکار اُٹھ کھڑا ہوں—دریا کے سامنے کنکریٹ کی ایک دیوار، عوام کے لیے روشنی کا چراغ، اور ایک یادگار جو انتشار کی نہیں بلکہ کھوئے ہوئے وقت کی تلافی کی علامت ہو۔ اُس دن تک، میں صرف رپورٹوں اور مباحثوں میں بیان کی جانے والی کہانی ہوں، ایک نامکمل وعدہ، ایک ٹلا ہوا خواب—مگر کبھی مردہ نہیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل کو اپنے کئے کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا؛ دوحہ اجلاس سے قبل قطری وزیراعظم کا بیان قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا پاکستان: عالمی افق پر ابھرتی طاقت پاکستانی فضائیہ: فخرِ ملت، فخرِ وطن انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب یوم دفاعCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم