بالی ووڈ کے معروف اداکار اور ’’دی ایونجرز‘‘ فلم کے سب سے خطرناک ولن جوناتھن میجرز نے اپنے بچپن کے جنسی تشدد کے تلخ تجربات کو شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے 9 سال کی عمر سے ہی مردوں اور خواتین کی جانب سے جنسی زیادتی کا سامنا کیا۔

جوناتھن میجرز نے حال ہی میں دی ہالی ووڈ رپورٹر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنے ماضی کے بارے میں کھل کر بات کی۔ انہوں نے بتایا، ’’میں نے 9 سال کی عمر سے ہی مردوں اور خواتین کی جانب سے جنسی تشدد کا سامنا کیا۔ یہ زیادتیاں ان لوگوں کی جانب سے ہوئیں جو میرے خیال رکھنے والے تھے، خاص طور پر جب میرے والد موجود نہیں تھے۔ میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔‘‘

میجرز نے بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں اپنی ماں کو اس تشدد کے بارے میں بتایا۔ ان کی ماں کو بہت دکھ ہوا، لیکن میجرز نے انہیں تسلی دی کہ اب ان کا مقصد شفایابی ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا، ’’میں نے ماں سے کہا کہ یہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں صرف آپ کو بتانا چاہتا تھا۔ اب ہم سب اس سے سیکھ کر آگے بڑھ سکتے ہیں، کیونکہ یہ ہمارے خاندان کا ایک حصہ تھا۔‘‘

اپنے والد کے بارے میں بات کرتے ہوئے میجرز نے انہیں ایک پیار کرنے والے لیکن غیر حاضر شخص کے طور پر بیان کیا۔ انہوں نے کہا، ’’میرے والد بہت خوبصورت انسان تھے، بہت نرم دل، لیکن ان میں کچھ ایسی خصوصیات تھیں جو خاندانی زندگی کے لیے موزوں نہیں تھیں۔‘‘

میجرز نے تسلیم کیا کہ ان کے ماضی کے درد نے ان کے تعلقات پر بھی اثر ڈالا ہے، لیکن وہ خود آگاہی اور ترقی کےلیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’کوئی بہانہ نہیں ہے، لیکن مدد حاصل کرنے سے آپ اپنے بارے میں بہت کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔‘‘

حالیہ برسوں کی مشکلات کے بعد، میجرز اب اپنی کہانی کو خود لکھنے کےلیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’کسی نہ کسی مرحلے پر آپ کو اپنی کہانی خود لکھنے کی ذمے داری لینی ہوگی۔ کیا میں اس کہانی میں پھنس جاؤں گا کہ میں ٹوٹ گیا ہوں، خود تباہ ہوگیا ہوں؟ مشکلات ہوں، دنیا کو مورد الزام ٹھہراؤں۔ مشکلات ہوں، اپنے آپ سے نفرت کروں، سب کچھ انکار کردوں۔ ان میں سے کوئی بھی کہانی فائدہ مند نہیں ہے۔‘‘

دسمبر 2023 میں، جوناتھن میجرز کو ایک مین ہٹن جیوری نے تیسری درجے کے حملے اور دوسری درجے کی ہراسمنٹ کے ایک الزام میں مجرم قرار دیا۔ اگرچہ انہیں جیل کی سزا نہیں ہوئی، لیکن انہیں ایک مداخلتی پروگرام میں حصہ لینے کی سزا سنائی گئی۔

مجرم قرار دیے جانے کے بعد، جوناتھن میجرز کو مارول اسٹوڈیوز نے مستقبل کی ایم سی یو فلموں سے ڈراپ کردیا، جس میں ’ایوینجرز‘ کی اگلی دو قسطیں بھی شامل ہیں۔ میجرز کا کردار ’کانگ‘ ایوینجرز فلمز میں مرکزی مخالف کے طور پر تھا، اور ایک فلم کا عنوان بھی ’’ایوینجرز: کانگ ڈائنیسٹی‘ تھا۔ تاہم، میجرز کے فرنچائز سے باہر جانے کے بعد، اسٹوڈیوز نے کانگ دی کنکورر کو ڈاکٹر ڈوم سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جوناتھن میجرز انہوں نے کہا

پڑھیں:

اسلام آباد نہیں بلائوں گا

بانی تحریک انصاف کی بہن علیمہ خان کا ایک بیان میرے سامنے ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ بانی تحریک انصاف نے کہا ہے کہ اب وہ احتجاج کے لیے لوگوں کو اسلام آباد نہیں بلائیں گے۔ جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے کہ بانی تحریک انصاف نے لوگوں کو اڈیالہ بلانے کی کال نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی بیان کے اگلے حصہ میں یہ کہا گیا ہے کہ اب پورے ملک میں احتجاج کیاجائے گا۔ لیکن میرے لیے ا ہم یہ ہے کہ اب اسلام آباد کی کوئی کال نہیں دی جائے گی۔

اس سے پہلے رمضان میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ عیدالفطر کے بعد بڑی احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔ لیکن ہمیں عید الفطر کے بعد کوئی احتجاجی تحریک نظر نہیں آئی۔ میڈیا بار بار تحریک کے بارے میں پوچھتا رہا۔ لیکن عید الفطرکے بعد تحریک کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔ کے پی میں چند ورکر کنونشنز ضرور ہوئے۔ لیکن ان کی قومی سطح پر کوئی اہمیت نہیں۔ اس سے نہ تو مرکز اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ دباؤ میں آتے ہیں۔ اس لیے ان کنونشنز سے تحریک کا کوئی ماحول نہیں بن سکا۔ جب تحریک چلانے کے لیے جنید اکبر کو کے پی کا صدر بنایا گیا تھا۔ تب ہی پنجاب کی صدارت عالیہ حمزہ کو دی گئی تھی۔

عالیہ حمزہ سے بھی یہی توقعات لگائی گئی تھیں کہ وہ پنجاب میں احتجاج کا ماحول بنائیں گی۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو پنجاب میں کسی بھی قسم کی احتجاجی تحریک کا کوئی ماحول نہیں نظر نہیں آرہا۔ چھوٹے چھوٹے ورکر کنونشنز ضرور ہوئے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف پنجاب میں کوئی بڑااحتجاج یا ریلی نہیں نکال سکی ہیں۔ یوں قیادت کی تبدیلی سے جو توقع رکھی گئی تھی، پنجاب اس طرح متحرک نہیں ہوا ہے۔

سونے پر سہاگا، گرینڈ الائنس بھی نہیں بن سکا۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی گرینڈ الا ئنس بنانے سے انکار کر دیا۔ تحریک انصاف کا خیال تھا کہ مولانا ساتھ آجائیں گے تو احتجاجی تحریک چلانا آسان ہو جائے گی، مولانا کا کارکن انتظامیہ سے ٹکرا جائے گا اور ہم فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن مولانا نے اپنا کارکن نہیں دیا۔

صاف بات ہے وہ تحریک انصاف اور بالخصوص بانی تحریک انصاف کے لیے اپنے کارکنان کو استعمال کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ویسے تحریک انصاف انھیں کوئی خاص قائل بھی نہیں کر سکی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں مولانا کے انکار نے بھی تحریک انصاف کی احتجاج تحریک کے امکانات کو ختم کیا۔ کیونکہ مولانا کے ساتھ شاید احتجاج کی کوئی شکل نکل آتی۔ لیکن تنہا تحریک انصاف کسی پوزیشن میں نہیںہے۔

اس سے پہلے اسلام آباد کے لیے دو کالز دی گئی ہیں، دونوںدفعہ وزیر اعلیٰ کے پی سرکاری وسائل کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو لے کر آئے ۔ سرکاری مشینری بھی آئی لیکن پھر تحریک انصاف میں ہی یہ پراپیگنڈا شروع ہو گیا کہ گنڈا پور آخری موقع پر غائب جاتے ہیں، وہ ڈی چوک نہیں پہنچتے۔ اس لیے جنید اکبر کو لانچ کیا گیا۔ لیکن ان کی کارکردگی تو گنڈا پور کی نسبت بہت کمزور رہی ہے۔ انھوں نے تو کے پی کارڈ ختم ہی کر دیا۔ پھر جنید اکبر کے خلاف باتیں شروع ہو گئیں۔ ان کے خلاف پراپیگنڈا شروع ہوگیا۔اور اب یہ خبریں بھی ہیں کہ احتجاجی تحریک کی ذمے داری دوبارہ گنڈا پور کو دے دی گئی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر اسلام آباد آنے کی کال نہ دی جائے تو کیا احتجاجی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے؟ موجودہ صورتحال میں مجھے پنجاب میں احتجاجی تحریک کا کوئی چانس نظر نہیں آتا۔ پنجاب کے بغیر تحریک کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اگر پورے ملک میں دھرنوں کی کال دی جائے تو پنجاب کے بغیر کیا کامیابی ہے۔ اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف کسی بھی قسم کی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ کارکن تیار نہیں ہیں جب کہ بڑے لیڈر مفرور ہیں۔ کچھ کے پی سے پنجاب آنے کو تیارنہیں۔

سندھ کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اندرون سندھ تحریک انصاف پہلے ہی کمزور تھی۔ کراچی میں بھی اب کوئی حال نہیں۔ جیسے پنجاب میں احتجاجی تحریک کی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ ویسے کراچی میں اب تحریک انصاف کافی کمزور ہو گئی ہے۔

اس لیے مجھے وہاں بھی احتجاجی تحریک کاکوئی چانس نظر نہیں آرہا۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف کو زیادہ اتحادی بلوچستان سے میسر ہیں۔ لیکن وہاں دہشت گردی اتنی زیادہ ہے کہ جلسہ جلوس ممکن نہیں۔ ویسے بھی بلوچستان میں دھرنوں سے مرکزی حکومت نہیں گر سکتی۔ بلوچستان میں اول تو سیاسی تحریک کوئی گنجائش نہیں، اگر ہو بھی تو مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔ اس لیے بلوچستان میں بھی تحریک کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

ایسے میں مجھے تو کہیں کوئی احتجاجی تحریک نظر نہیں آرہی۔ اسلام آباد کی کال تو کے پی کے کی وجہ سے کسی حد تک رنگ جما دیتی ہے۔وزیر اعلیٰ کی سرکاری سرپرستی میں ایک بحران ضرور پیدا ہوجاتا تھا۔ لیکن دو دفعہ کی کوشش میں کامیابی نہیں ہوئی۔ الٹا نقصان ہوا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بانی تحریک انصاف تو دوبارہ اسلام آباد کی کال ہی دینا چاہتے ہوں گے۔

انھیں اس بات کی سمجھ ہے کہ اسلام آباد پر چڑھائی کے بغیر نہ تو ان کی رہائی ممکن ہے اور نہ ہی حکومت گر سکتی ہے۔ لیکن شاید ان کی جماعت اب اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ آپ گزشتہ ایک ماہ کی تحریک انصاف کی سرگرمیوں کو دیکھیں تو بانی تحریک انصاف نے سب پر تحریک کے لیے دباؤ کافی دباؤ ڈالا ہے۔ لیکن شاید پارٹی تیار نہیں۔ انھیں سمجھایا گیا کہ لوگ اب ان کے لیے مار کھانے کے لیے تیار نہیں۔ 26 نومبر کو جو لوگ گرفتار ہو ئے تھے۔

ان کی پارٹی نے کوئی دیکھ بھال نہیں کی۔ انھیں سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ ان کی ضمانتوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا۔ انھیں بے یار ومددگار چھوڑ دیا گیا۔اس لیے شاید کے پی سے بھی اب لوگ اتنی تعداد میں نہیں آئیں گے۔ لوگ ریاست کی رٹ سے لڑنے کے لیے مزید تیار نہیں۔ اس لیے اسلام آباد کی کال نہ دینے کا اعلان کر دیا گیا۔ باقی سب خیر ہے۔ یہ خبر حکومت اور نظام کے لیے اچھی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سے جنگ کے نتیجے میں بھارت چار بھرم تھے ان کے پرخچے اڑ گئے
  • امریکی اخبار کا انکشاف: غزہ پر مسلسل جارحیت نے اسرائیل کو تنہا کر دیا
  • غزہ پر مسلسل جارحیت نے اسرائیل کو تنہا کر دیا:امریکی اخبار کا انکشاف
  • ’’میرے ساتھ طوائف جیسا سلوک ہوا‘‘، برطانوی حسینہ نے بھارت کی حقیقت بیان کردی
  • اسلام آباد نہیں بلائوں گا
  • یوم تکبیر
  • اداکارہ صبا فیصل کا کورونا تشخیص سے متعلق انکشاف
  • سندھ اور پیپلزپارٹی
  • خواتین سیاسی کارکنان اور جنسی تشدد کی دھمکی
  • وینا ملک سے شادی؟ گھر ساتھ خریدا، مگر انجام کچھ اور نکلا! ببرک شاہ کا انکشاف