اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 مارچ 2025ء) تقریبا دو برس قبل نارتھ ویسٹ یونیورسٹی الینوائے کے میٹا سائنسدان رچرڈ سن ریز نے اپنی ٹیم کے ساتھ سوشل میڈیا پر شائع کیے گئے چند اشتہارات پر تحقیق کا آغاز کیا تھا۔ جن کمپنیوں نے یہ اشتہارات جاری کئے تھے انھیں "پیپر ملز" کہا جاتا ہے۔ یہ کمپنیاں محققین اور طلبہ کو سائنسی مقالہ جات، مضامین اور تھیسز شائع کروانے کا جھانسا دیتی ہیں۔

اس دوران رچرڈ سن ریز اور ان کی ٹیم کو فیس بک، واٹس ایپ گروپس اور ٹیلی گرام پر جاری کیے گئے کچھ ایسے اشتہارات بھی ملے جن میں برطانوی ڈیزائن پیٹنٹ کے ساتھ سائنسی ایجادات کے پیٹنٹ فروخت کیے جارہے تھے۔

ان اشتہارات میں پیٹنٹ کی قیمت 23 سے 398 امریکی ڈالر بیان کی گئی تھی اور ساتھ ہی محققین کو رجھانے کے لیے بتایا گیا تھا کہ پیٹنٹ کی رجسٹریشن سے ان کے کیریئر میں بہتری آئے گی۔

(جاری ہے)

نئی تحقیق سے کیا انکشافات ہوئے؟

نارتھ ویسٹ یونیورسٹی الینوائے کے میٹا سائنسدان رچرڈسن ریز اور ان کی ٹیم کی یہ تحقیق رواں ہفتےسائنسی جریدے ''انٹرنیشنل جرنل آف اکیڈمک انٹیگریٹی‘‘ میں اشاعت کے لیے منظور کی گئی ہے۔

اس تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ دو سال کے دوران ان پیٹنٹ ملز نے بوگس سائنسی ایجادات کو برطانوی انٹیلکچوئل پراپرٹی آفس (آئی پی او) کے ساتھ رجسٹر کیا ہے۔

ان میں زیادہ تر عجیب و غریب طبی آلات تھے جن کے پیٹنٹ کے ساتھ موجد کے نام ''انوینٹر شپ‘‘ بھی بھاری فیس لے کر فروخت کی گئی تھی۔

رچرڈسن ریز کے مطابق یہ پیٹنٹ ملز خاص طور پر ایسے ممالک کے محققین یا طلبہ کو ٹارگٹ کرتی ہیں جہاں اکیڈیمک کیریئر میں ترقی کا انحصار شائع شدہ سائنسی مقالہ جات کی تعداد اور رجسٹرڈ پیٹنٹ پر ہوتا ہے۔

واضح رہےکہ بھارت اور پاکستان سمیت متعدد ممالک کی جامعات میں سائنسی پیپرز کی اشاعت اور رجسٹرڈ پیٹنٹ کی تعداد سے ملازمین کو پوائنٹس دیئے جاتے ہیں اور اسی بنیاد پر ان کی سالانہ رپورٹ تشکیل پاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پیٹنٹ ملز آئی پی سسٹم کے متعلق محققین کی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ برطانیہ سمیت بہت سے ممالک میں فنکاروں، سائنسدانوں اور پروفیشنل افراد کے بنائے ڈیزائن کو محفوظ کرنے کے لیے ان کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔

یہ پیٹنٹ نہیں ہوتے بلکہ ان ڈیزائن کا باقاعدہ اندراج ہوتا ہے لیکن اسے بھاری فیس لے کر پیٹنٹ کے طور پر فروخت کیا جا رہا ہے۔ پیٹنٹ ملز کیا ہیں؟

پیٹنٹ ملز ایسی تنظیمیں یا ادارے ہیں جو بڑی تعداد میں غیر معیاری یا مشکوک پیٹنٹس تیار کرتے ہیں، جن میں حقیقی جدت کا فقدان ہوتا ہے۔ یہ اکثر اس شعبے میں موجود قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر پیٹنٹ فیس لینے، مقدمے بازی کرنے، یا اپنی قدر مصنوعی طور پر بڑھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

بوگس طبی آلات کی رجسٹریشن

رچرڈسن ریز بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم نے ابتدا میں سوشل میڈیا پر شائع کیے گئے ایسے 20 سے زائد اشتہارات کو آئی پی او کے ساتھ رجسٹر کیے گئے ڈیزائن کے ساتھ ملایا تھا، جس سے معلوم ہوا کہ ایسی مزید دو کمپنیوں نے 2 ہزار ڈیزائن فائل کئے تھے۔

رچرڈسن بتاتے ہیں کہ ان میں زیادہ تعداد بوگس طبی آلات کی تھی۔

مثال کے طور پر ایک آلہ ''اے آئی پاورڈ سکن کینسر انسپیکشن ڈیوائس‘‘ کے نام سے رجسٹر تھا جس کی تصاویر دراصل گلاک پستول کا تھری ڈی ڈیزائن تھی۔ اس دوران ایسی مزید چھ کمپنیاں بھی سامنے آئیں جنہوں نے مجموعی طور پر دو سال میں 3 ہزار سے زائد بوگس ایجادات فائل کی تھیں جو برطانیہ میں اس دوران رجسٹر کی گئی کل ایجادات کا تین اعشاریہ تین فیصد تھا۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان انکشافات سے نہ صرف آئی پی سسٹم مشکوک ہوا ہے بلکہ محنتی سائنسدانوں کے لیے اپنے ڈیزائنوں پر کام کرنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ اسی آئیڈیا پر کوئی اور محقق پیٹنٹ فائل کر چکا ہوتا ہے جو عموما بوگس ہوتا ہے۔

طبی آلات کے پیٹنٹ کی اہمیت

مارچ 2020 میں جب کورونا وائرس عالمی وبا عروج پر تھی امریکہ میں پیٹنٹ کی مانیٹرنگ کرنے والے ایک ادارے لیب راڈار نے طبی آلات تیار کرنے والی ایک کمپنی "بایو فائر" پر ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔

یہ کمپنی کورونا وائرس کے ٹیسٹ کا آلہ لانچ کرنے جا رہی تھی۔ جبکہ لیب راڈار اس کی جگہ اپنی پسندیدہ کمپنی کو پیٹنٹ دلوانا چاہتی تھی جو دراصل بوگس تحقیق و ایجادت کے حوالے سے خاصی شہرت رکھتی تھی۔ یہ پہلا واقعہ تھا جب طبی آلات کے پیٹنٹ رجسٹریشن سے متعلق عوامی سطح پر سوالات اٹھائے گئے۔

جون 2024 میں جرمنی کی وفاقی عدالت برائے انصاف نے فیصلہ دیا تھا کہمصنوعی ذہانت کو کسی بھی ایجاد کے پیٹنٹ کے طور پر رجسٹر نہیں کیا جا سکتا۔

اسی طرح امریکہ اور برطانیہ میں بھی کسی ایجاد کا پیٹنٹ رجسٹر کروانے کے لیے موجد کا ''انسان‘‘ ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پیٹنٹ رجسٹریشن میں جعل سازی کی وجوہات کیا ہیں؟

بایو کلسٹر سوسائٹی سے وابستہ ایک معروف پاکستانی سائنسدان نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ محققین کے اس طرح کی جعل سازی میں ملوث ہونے کی متعدد وجوہات ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان جیسے ممالک کی جامعات میں اساتذہ بمشکل ہزار سے پندرہ سو ڈالر ماہانہ کماتے ہیں جبکہ یہاں تحقیق کے لیے گرانٹس کی سہولیات بھی محدود ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی کچھ جامعات جیسے لمز، آغا خان یونیورسٹی کراچی، اور آئی بی اے میں تحقیق کا عمل بہت بہتر ہے لیکن زیادہ تر جامعات میں بیوروکریسی کا راج ہے، جہاں اساتذہ کی تقرری میرٹ کے بجائے انتظامی صوابدید پر کی جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے غیر صحتمندانہ ماحول میں محققین لوکل پیٹنٹ فائل کرتے ہیں، جس کا مقصد کیریئر میں ترقی اور بہتر پوائنٹس کا حصول ہوتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس کے باوجود پیٹنٹ کو اگر باقاعدہ مارکیٹ میں متعارف نہیں کروا یا جائے اور یہ فائلنگ تک محدود ہوں تو ان کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق اصل مسئلہ پاکستان میں اکیڈیمک ریسرچ اور پالیسی سازوں کے درمیان فاصلہ ہے۔

سائنسی تحقیق کی اہمیت سے نا بلد افراد اہم عہدوں پر فائض ہیں اور غیر ضروری مسائل کھڑے کرتے ہیں۔

شاحر شمسیر ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ایکسپرٹ ہیں وہ کہتے ہیں کہ رچرڈسن ریز کی تحقیق میں بھارتی محققین کو سرفہرست ظاہر کر کے بہت سے زمینی حقائق نظر انداز کیے گئے ہیں۔ بھارت میں طبی آلات کی تیاری میں تیزی آنے سے 2025 میں یہ سیکٹر 50 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ مقامی آلات ابھی معیاری نہیں ہیں مگر محققین پر ان کی آئی پی رجسٹریشن کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ لہذا بہت سے بھارتی سائنسدان محنت کے بجائے ''شارٹ کٹ‘‘ نکالتے اور پیٹنٹ ملز سے رجوع کرتے ہیں۔

طبی آلات کی تیاری، عالمی قوانین کیا ہیں؟

اگرچہ رچرڈسن ریز کی تحقیق میں بھارتی اور پاکستانی محققین سرفہرست ہیں لیکن اس طرح کی جعل سازی روس، چین اور دیگر ممالک میں بھی ہوتی ہے جس کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

قدیر قریشی امریکہ میں مقیم معروف اردو سائنس کمیونیکیٹر ہیں جو پاکستان میں سو ڈو سائنس سے متعلق آگاہی پھیلانے میں کوشاں ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہر ملک کا اپنا قانونی نظام ہے جس کا تعلق ان کی تاریخ سے بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی برے واقعہ کے بعد ان قوانین میں تبدیلی بھی آتی ہے۔

قدیر قریشی کے مطابق یہی وجہ ہے کہ طبی تحقیق و ایجادات کو عالمی سطح پر کنٹرول کرنا ایک مشکل عمل ہے۔

یہ کام زیادہ تر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کرتی ہے اور اسی کے ذریعے دنیا بھر میں طبی تحقیق و آلات کو منظور یا مسترد کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ قوانین مقامی ایجادات پر لاگو نہیں ہوتے۔

وہ کہتے ہیں کہ فی الوقت ہمیں ایک گلوبل باڈی کی ضرورت ہے جو ڈبلیو ایچ او کے ماتحت ہو اور دنیا بھر میں ایجنسیوں کو پابند کرنے کے لیے ٹیکنیکل گائیڈ لائنز فراہم کرے۔

لیکن موجودہ صورتحال میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ امریکہ جہاں سائنسی آلات کے سب سے زیادہ پیٹنٹ فائل کیے جاتے ہیں وہ اب ڈبلیو ایچ او میں شامل نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیٹنٹ ملز یہ جعل سازی سوشل میڈیا کے ذریعے کرتی ہیں اور ایسی کمپنیوں کی حقیقت میں کوئی شناخت بھی نہیں ہوتی۔ لہذا اس عمل کو کنٹرول کرنے کے لیے تمام ممالک کو اپنے پیٹنٹ سسٹمز کو بہتر کرنے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی رجسٹریشن اور پاکستان طبی آلات کی سوشل میڈیا پیٹنٹ ملز کے مطابق کرتے ہیں پیٹنٹ کی کے پیٹنٹ پیٹنٹ کے ہوتا ہے آلات کے کیے گئے کے ساتھ آئی پی کے لیے کی گئی

پڑھیں:

بھارتی ویمنز ٹیم نے پہلی بار ورلڈ کپ جیت لیا، جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں کو کتنی انعامی رقم ملی؟

بھارت کی خواتین کرکٹ ٹیم نے 2025 کا آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر نئی تاریخ رقم کر دی۔ ہرمن پریت کور کی قیادت میں بھارتی ٹیم نے ممبئی میں کھیلے گئے فائنل میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ یہ بھارت کی خواتین ٹیم کی پہلی ورلڈ کپ جیت ہے، جس کے بعد ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

A special moment! ????

ICC Chairman Mr. Jay Shah presents the ICC Women’s Cricket World Cup 2025 Trophy to our winning captain Harmanpreet Kaur ????????@JayShah | @ImHarmanpreet

#TeamIndia | #WomenInBlue | #CWC25 | #INDvSA | #Champions pic.twitter.com/wETVXoMNnA

— BCCI (@BCCI) November 2, 2025

آئی سی سی کے مطابق، ٹورنامنٹ جیتنے پر بھارتی ٹیم کو 4.48 ملین امریکی ڈالر کا انعام دیا گیا، جو قریباً 39 کروڑ 55 لاکھ بھارتی روپے یا 1 ارب 25 کروڑ پاکستانی روپے بنتا ہے۔

رنر اپ ٹیم جنوبی افریقہ کو 2.24 ملین ڈالر (قریباً 19 کروڑ 77 لاکھ بھارتی روپے یا 62 کروڑ 70 لاکھ پاکستانی روپے) بطور انعام دیے گئے۔

ٹورنامنٹ میں آسٹریلیا اور انگلینڈ سیمی فائنل میں پہنچنے والی دیگر ٹیمیں تھیں، جنہیں 1.12 ملین ڈالر (قریباً 9 کروڑ 89 لاکھ بھارتی روپے یا 31 کروڑ پاکستانی روپے) فی ٹیم انعام میں دیے گئے۔

????️ Raw Reactions

Pure Emotions ❤️

The moment when #WomenInBlue created history by winning the #CWC25 Final ????#TeamIndia pic.twitter.com/5jV4xaeilD

— BCCI Women (@BCCIWomen) November 3, 2025

اس کے علاوہ گروپ مرحلے میں ہر کامیابی پر ٹیموں کو 34 ہزار 314 ڈالر (قریباً 30 لاکھ بھارتی روپے یا 96 لاکھ پاکستانی روپے) ملے۔

آئی سی سی نے بتایا کہ ویمنز ورلڈ کپ 2025 کی کل انعامی رقم 13.88 ملین امریکی ڈالر رکھی گئی تھی، جو قریباً 122 کروڑ بھارتی روپے یا 3 ارب 90 کروڑ پاکستانی روپے بنتی ہے۔ یہ اب تک کے تمام ویمنز ورلڈ کپ مقابلوں میں سب سے زیادہ انعامی رقم ہے۔

یہ بھی بتایا گیا کہ اس مرتبہ رنر اپ ٹیم کے لیے انعامی رقم میں 273 فیصد اضافہ کیا گیا، جو خواتین کرکٹ کے فروغ کی جانب ایک تاریخی قدم سمجھا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ جیت نہ صرف کھیل کے میدان میں اہم سنگِ میل ہے بلکہ خواتین کرکٹ کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی اہمیت کی بھی عکاس ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی ویمنز ٹیم نے پہلی بار ورلڈ کپ جیت لیا، جیتنے اور ہارنے والی ٹیموں کو کتنی انعامی رقم ملی؟
  • قدرت سے ربط رکھنے والے سرفہرست ممالک کون کون سے ہیں؟ فہرست جاری
  • بھارتی خفیہ ایجنسی کیلئے جاسوسی کے الزام میں گرفتار مچھیرے کے اہم انکشافات
  • بھارت میں گرفتار ہونے والے سارے جاسوس پاکستانی چاکلیٹ کیوں کھاتے ہیں؟
  • ’را‘ ایجنٹ کی گرفتاری: بھارت کی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا مہم ناکام
  • بھارتی خفیہ ایجنسی نے پاکستانی مچھیرے کو اپنے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا، عطا تارڑ
  • پاکستان ریلویز میں بوگس دستاویزات پر کواٹرز کی الاٹمنٹ میں 3 ریٹائرڈ افسران بھی ملوث نکلے
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • پاکستان مخالف بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا بے نقاب
  • پاکستان سے متعلق بھارتی میڈیا کا ایک اور جھوٹا پروپیگنڈا سامنے آگیا