Daily Mumtaz:
2025-04-25@02:47:25 GMT

وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ سے بھارت میں فسادات پھوٹ پڑے

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ سے بھارت میں فسادات پھوٹ پڑے

مغل بادشاہ اورنگزیب کی مخالفت پر مبنی بھارتی اداکار وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ بھارت میں مسلم مخالف جذبات کو بھڑکانے کا سبب بن گئی ہے۔

اس فلم کے اثرات کے بعد ناگپور میں اورنگزیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کے مطالبات میں شدت آ گئی ہے، جس کے نتیجے میں علاقے میں کشیدگی اور فسادات پھوٹ پڑے۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ناگپور کے محل علاقے میں دو گروپوں کے درمیان اس وقت تصادم ہوا جب دائیں بازو کے گروہ ’وشوا ہندو پریشاد‘ نے اورنگزیب کے مقبرے کو تباہ کرنے کے مطالبے پر احتجاج کیا۔

اس احتجاج کے دوران نعرے بازی اور پتھراؤ کے واقعات رونما ہوئے، جس سے علاقے میں مزید تشویش پھیل گئی۔ اس دوران فائر بریگیڈ کی کچھ گاڑیاں اور دیگر کئی گاڑیاں نذر آتش کر دی گئیں۔

فائر ڈیپارٹمنٹ نے یہ دعویٰ کیا کہ کئی فائر فائٹرز زخمی ہوئے ہیں۔ اس پر ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے امن و امان قائم رکھنے کی اپیل کی، حالانکہ وہ خود اس مطالبے کے حامی ہیں۔

پولیس کی مداخلت کے بعد فسادات پر فی الحال قابو پالیا گیا ہے۔

حال ہی میں بھارتی اداکار وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ کی ریلیز نے مغل بادشاہ اورنگ زیب کے حوالے سے متنازعہ بحث کو مزید ہوا دی۔

فلم میں اورنگ زیب کو ایک ظالم شخصیت کے طور پر دکھایا گیا، جس کے نتیجے میں مسلم مخالف جذبات میں اضافہ ہوا۔ اس دوران کئی علاقوں اور سڑکوں کے ناموں پر سیاہی ملنے کے واقعات سامنے آئے، اور سوشل میڈیا پر مغل بادشاہ کے خلاف نفرت انگیز بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

سماج وادی پارٹی کے رہنما ابو عاصم اعظمی نے اورنگ زیب کو ایک اچھا منتظم قرار دیا، جس پر انتہاپسندوں نے ان کی قبر مسمار کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔

وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ادین راجے بھوسلے اور نونیت رانا نے بھی اورنگزیب کی قبر کے انہدام کا مطالبہ کیا ہے، جس پر تنازعہ بڑھ گیا ہے۔

دوسری جانب، بھارت میں گزشتہ کچھ برسوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز اور پُرتشدد واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جن میں ہجومی تشدد (mob lynching)، مساجد پر حملے، مسلم دکانداروں اور تاجروں کا بائیکاٹ، اور مسلمانوں کو جبراً ہندو مذہب اختیار کرنے پر مجبور کرنے جیسے واقعات شامل ہیں۔

حالیہ دنوں میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تنگ نظری کے اظہار کے طور پر کئی ریاستوں میں مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کرنے، مسلمانوں کے ناموں پر موجود سڑکوں اور علاقوں کے نام تبدیل کرنے، اور تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے والی طالبات کے داخلے پر پابندیاں لگانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

اس صورتحال کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے غیرقانونی اور متعصبانہ قرار دیا ہے، اور ان تنظیموں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو روکنے کی کوشش کرے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: مسلمانوں کے بھارت میں کے خلاف

پڑھیں:

امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا

امریکی میڈیا کے مطابق عام حالات میں ٹیکساس کے شہر جوزفین کے باہر 400 ایکڑ زمین پر رہائشی منصوبہ کوئی غیر معمولی بات نہ ہوتی لیکن حالیہ مہینوں میں گورنر گریگ ایبٹ نے اس مجوزہ منصوبے کو روکنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ گورنر کی جانب سے گھروں کی تعمیر کو روکنے کی وجہ ایک ہزار گھروں پر مشتمل اس منصوبے کو ایک مسجد کے گرد بنایا جانا ہے۔

ٹیکساس کے شہر پلانو میں ایسٹ پلانو اسلامک سینٹر (EPIC) نے 400 ایکڑ پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں مسجد، مکانات، اسکول اور دیگر سہولیات شامل تھیں۔ ریاستی گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن نے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر EPIC نے اسے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے دفاع کے لیے اسلامی سینٹر کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ کوئی جرم نہیں، گورنر کا ردِ عمل دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہ نائن الیون ہو۔

مزید پڑھیں: نائیجر: شدت پسندوں کا مسجد پر حملہ، بازار و گھر نذر آتش، درجنوں افراد ہلاک

حالیہ برسوں میں امریکا میں مسلمانوں کو مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں بعض اوقات مقامی حکام کی جانب سے امتیازی سلوک بھی شامل رہا ہے۔ یہ رکاوٹیں اکثر زوننگ قوانین، تکنیکی مسائل یا مقامی آبادی کی مخالفت کی آڑ میں سامنے آئیں، لیکن متعدد معاملات میں عدالتوں نے ان اقدامات کو مذہبی آزادی کے خلاف قرار دیا ہے۔

 

مساجد کی تعمیر میں رکاوٹیں، چند نمایاں واقعات

1: نیوجرسی: برنارڈز ٹاؤن شپ

برنارڈز ٹاؤن شپ نے 2015 میں اسلامی سوسائٹی آف باسکنگ رج کو مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جس کے بعد تنظیم اور امریکی محکمہ انصاف نے ٹاؤن شپ پر مذہبی امتیاز کا مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ ٹاؤن شپ نے دیگر مذاہب کے عبادت گاہوں کے مقابلے میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا۔ نتیجتاً، ٹاؤن شپ نے 3.25 ملین ڈالر ہرجانے کی ادائیگی پر اتفاق کیا اور مسجد کی تعمیر کی اجازت دی گئی۔

2: ورجینیا: کلپیپر کاؤنٹی

کلپیپر کاؤنٹی نے 2016 میں اسلامی سینٹر آف کلپیپر کو مسجد کی تعمیر کے لیے ضروری سیوریج پرمٹ دینے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس سے قبل 20 برس میں 25 میں سے 24 ایسے پرمٹس منظور کیے جا چکے تھے۔ امریکی محکمہ انصاف نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔ عدالت نے کاؤنٹی کے فیصلے کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں مستحقین کے لیے جامع مسجد کا فری راشن اسٹور

3:مشی گن: اسٹرلنگ ہائٹس

اسٹرلنگ ہائٹس میں 2015 میں ایک مسجد کی تعمیر کی درخواست کو مقامی پلاننگ کمیشن نے مسترد کر دیا۔ سرکاری طور پر ٹریفک اور پارکنگ کے مسائل کو وجہ بتایا گیا، لیکن عوامی اجلاسوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب آمیز بیانات سامنے آئے۔ امریکی محکمہ انصاف نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔

4: مسسیپی: ہورن لیک

2021 میں ہورن لیک شہر نے ابراہیم ہاؤس آف گاڈ مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کیا، حالانکہ زمین عبادت گاہوں کے لیے مختص تھی اور درخواست تمام تقاضے پورے کرتی تھی۔ ایک مقامی عہدیدار نے کہا، اگر آپ انہیں تعمیر کی اجازت دیں گے، تو اور لوگ آئیں گے۔ امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اس فیصلے کو مذہبی امتیاز قرار دیتے ہوئے مقدمہ دائر کیا۔

5: ٹیکساس: پلانو میں EPIC سٹی منصوبہ

ٹیکساس کے شہر پلانو میں ایسٹ پلانو اسلامک سینٹر (EPIC) نے 400 ایکڑ پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں مسجد، مکانات، اسکول اور دیگر سہولیات شامل تھیں۔ ریاستی گورنر گریگ ایبٹ اور اٹارنی جنرل کین پیکسن نے اس منصوبے کو روکنے کی کوشش کی، جس پر EPIC نے اسے مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔

مزید پڑھیں: چترال کے ریاستی دور کی شاہی مسجد جس کے 100 سال مکمل ہوگئے ہیں

قانونی چارہ جوئی اور مذہبی آزادی کا تحفظ

ان واقعات کے بعد، عدالتوں نے اکثر انکار کے فیصلوں کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی قرار دیا۔ امریکی محکمہ انصاف نے بھی کئی معاملات میں مداخلت کی اور مقامی حکام کے خلاف مقدمات دائر کیے۔ ان فیصلوں نے یہ واضح کیا کہ مذہبی آزادی امریکی آئین کا بنیادی حق ہے، اور کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو عبادت گاہیں تعمیر کرنے سے روکنا غیر قانونی ہے۔

اگرچہ امریکا میں مذہبی آزادی کا آئینی تحفظ موجود ہے لیکن مسلمانوں کو مساجد اور اسلامی مراکز کی تعمیر میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم، عدالتوں اور وفاقی اداروں کی مداخلت سے ان رکاوٹوں کو دور کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو ان کے مذہبی حقوق کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا امریکی میڈیا ٹیکساس ٹیکساس ٹیک یونیورسٹی مسجد مسلمان نیوجرسی

متعلقہ مضامین

  • بھارت کے اعلانات غیر مناسب ، ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا: وزیر خارجہ
  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی عالمی بینک کے جنوبی ایشیا کے نائب صدر سے ملاقات
  • بھارت میں حقوق کیلیے احتجاج کرنا جرم قرار؛ پولیس کا مسلمانوں کیخلاف کریک ڈاؤن
  • امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا
  • امریکا، مسلمانوں کو گھروں اور مسجد کی تعمیر سے روک دیا گیا
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • بھارت میں امریکی صدور کے دوروں سے جڑے دہشتگردی کے واقعات
  • امریکا کے ساتھ غیر ٹیرف رکاوٹوں کو ختم کرنے پر بات چیت جاری ہے:وفاقی وزیرخزانہ
  • کترینہ نے بازو پر شوہر کے نام کا ٹیٹو بنوا لیا، تصویر وائرل
  • وکی کوشل کی فلم ’چھاوا‘ کا 600 کروڑ کمانے والی دوسری بالی ووڈ فلم بن گئی