کیا بی ایل اے کے خلاف جنگ میں چین پاکستان کو فوجی و مالی امداد فراہم کرے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بلوچستان میں چین کی بڑی سرمایہ کاری اور پاکستان کے ساتھ قریبی شراکت داری کی وجہ سے چین کو دشمن کے طور پر دیکھتی ہے۔ چونکہ چین نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اس لیے اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا چین پاکستان کی فوج کو بی ایل اے سے لڑنے کے لیے براہ راست مدد فراہم کرسکتا ہے۔ تحریر: محمد عامر رانا
 
 بلوچستان میں ٹرین ہائی جیکنگ کے واقعے کے بعد توقع ہے کہ ریاست کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے گا جس میں ممکنہ طور پر مختلف محاذوں پر فوجی کارروائیاں بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ تاہم صوبے کے سیاسی مسائل اور بالخصوص بات چیت کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کے طریقوں پر توجہ مرکوز رہے گی خواہ پھر وہ بات چیت کتنی خاموشی سے کیوں نہ ہو۔ اس بحث میں ایک اہم نکتہ بھی شامل ہوگا اور وہ باغیوں کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کے لیے بیرونی حمایت کا کردار ہوگا جو دوسرے ممالک کی جانب سے وسائل کی امداد اور سفارتی پشت پناہی کی صورت میں ہوسکتا ہے۔ اس معاملے میں تین عناصر اہم ہیں۔ سب سے پہلے بلوچ انتہا پسندوں نے حال ہی میں ایک میٹنگ کے دوران چین کو اپنے منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ اس سے یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ چین پاکستان کو باغیوں کے خلاف کوششوں میں مدد کرنے کے لیے رقم اور وسائل کی پیشکش کے معاملے میں کس طرح کا ردعمل ظاہر کر سکتا ہے۔
 
 دوسری بات یہ کہ پاکستان کو شاید امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں سے زیادہ مادی مدد نہیں مل پائے گی جس کی وجہ صرف سیاسی کشیدگی، یوکرین میں جاری تنازع نہیں بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ مغرب اکثر علیحدگی پسند گروپس کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کرتا ہے جبکہ مذہبی دہشت گردی اور انتہاپسندی کو مختلف انداز میں پیش کرتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان، بھارت کی بیرونی لابنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے سفارتی حمایت حاصل کرنے پر زیادہ توجہ دے گا۔ بھارت بلوچ علیحدگی پسندی کے پیغام کو پھیلانے اور بیرون ملک بلوچ کمیونٹی باغیوں کو دی جانے والی مالی اور سیاسی مدد کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ تیسرا عنصر یہ کہ تاریخ بتاتی ہے کہ بیرونی فوجی مدد ہمیشہ سے بہت اہم رہی ہے۔ مثال کے طور پر 1970ء کی دہائی میں باغیوں کے خلاف لڑائی کے دوران پاکستان کو شاہ ایران کی اہم فوجی مدد حاصل رہی تھی۔ اب ماہرین کا خیال ہے کہ کیا چین پاکستان کو باغیوں کے خلاف اس کی حالیہ جنگ میں اسی نوعیت کی مدد فراہم کرے گا جو کہ اس وقت ایران نے فراہم کی تھی۔
 
 بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر چھوٹے باغی گروپ باقاعدگی سے چینی شہریوں اور پاکستان میں چین کے تجارتی اور سفارتی مفادات پر حملے کر رہے ہیں۔ ان گروہوں نے دہشت گردانہ سرگرمیوں کو بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے جیسے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور بلوچستان میں چینی مفادات کو نشانہ بنانا وغیرہ۔ چین کے پاکستان میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے خدشات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ چین پاکستان میں سرمایہ کاری جاری رکھنا چاہتا ہے لیکن صرف اس صورت میں جب ماحول اس کے شہریوں کے لیے محفوظ ہو۔ دہشت گردانہ حملے جس کی مثال گزشتہ سال اکتوبر میں کراچی میں چینی شہریوں کو ایئرپورٹ سے نکلتے ہی نشانہ بنانا ہے، اس واقعے سے دونوں ممالک کے درمیان عارضی کشیدگی پیدا ہوئی۔ تاہم بعد میں اعتماد سازی کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کو کم کیا گیا۔
 
 بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) بلوچستان میں چین کی بڑی سرمایہ کاری اور پاکستان کے ساتھ قریبی شراکت داری کی وجہ سے چین کو دشمن کے طور پر دیکھتی ہے۔ چونکہ چین نے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، اس لیے اب یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا چین پاکستان کی فوج کو بی ایل اے سے لڑنے کے لیے براہ راست مدد فراہم کرسکتا ہے؟ ماضی میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے چین نے پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے لیکن عملی تعاون محدود رہا ہے۔ مثال کے طور پر 2007ء میں اسلام آباد میں لال مسجد کے خلاف آپریشن چینی صدر ہوجن تاؤ کی جانب سے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کو کال کرنے کے بعد شروع کیا گیا تھا۔ یہ کال جامعہ حفصہ مدرسہ کی طالبات کے ہاتھوں چینی ہیلتھ ورکرز کے اغوا کے بعد کی گئی تھی۔
 
 یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ 2014ء میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کے پاکستان کے فیصلے میں بھی چین ملوث رہا ہوگا۔ کراچی میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد چین نے ایک بار پھر پاکستان پر زور دیا کہ وہ بلوچ باغیوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ تاہم چین واضح مالی یا لاجسٹک مدد فراہم کرکے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں براہ راست ملوث ہونے کے بارے میں احتیاط برت رہا ہے۔ پاکستان نے سی پیک اور چینی مفادات کے تحفظ کے لیے ایک جامع سیکیورٹی میکانزم ترتیب دیا ہے جس میں ایک خصوصی سیکیورٹی ڈویژن کی تشکیل بھی شامل ہے۔ تاہم چین خطرات سے نمٹنے کے معاملے میں بالکل بھی برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتا اور وہ اپنے اتحادیوں جیسے پاکستان سے توقع کرتا ہے کہ کسی بھی خطرات کے خلاف اسی کی طرح سخت مؤقف اپنائے۔
 
 پاکستان انتشار پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے معاشی چیلنجز کا سامنا ہے۔ بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن پر بہت لاگت آئے گی خاص طور پر چونکہ ملک پہلے ہی دیگر مہمات میں مصروف ہے جس میں بلوچستان میں علیحدگی پسند باغیوں اور خیبر پختونخواہ میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف عزمِ استحکام آپریشن نمایاں ہے۔ ایسے فوجی آپریشن کے اخراجات اور سیاسی نتائج بہت اہم ہوتے ہیں۔ ریاستی ادارے ایسا سیاسی عمل شروع کرنے کو تیار نہیں ہیں جس سے اقتدار پر ان کا کنٹرول کمزور ہو۔ انہیں خوف ہے کہ اس سے بڑے مسائل پیدا ہوں گے۔ سیاسی قیادت خطرہ مول لینے کے لیے زیادہ تیار ہے لیکن بہت سے رہنما خاص طور پر اقتدار میں براجمان لوگ بلوچستان کے حالات کو پوری طرح سے نہیں سمجھتے۔ وہ کارروائی کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری میں نہیں بلکہ معاملہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت ہے۔
 
 سیاسی حل کے بغیر فوجی کارروائیاں صرف سیکیورٹی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے اہم ہوں گی۔ چینی ماہرین اکثر اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ چین موجودہ فریم ورک سے آگے بڑھ کر کس طرح پاکستان کو مدد فراہم کر سکتا ہے جیسے کہ آلات فراہم کرنا، انٹیلی جنس کا تبادلہ اور مشترکہ سیکیورٹی مشقیں وغیرہ جبکہ چین پہلے بھی گہرے تعاون کی تجویز دے چکا ہے جیسا کہ پاکستان میں نجی سیکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی مگر پاکستان کی ہچکچاہٹ کی وجہ سے پیش رفت سست رہی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا چین نگرانی کے سازوسامان، فوجی آلات کی فراہمی یا بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے لیے فنڈز فراہم کرکے سیکیورٹی تعاون کو گہرا کرنے پر دوبارہ غور کرے گا یا نہیں۔ اگرچہ چین بی ایل اے، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) و دیگر اتحادی گروپس کی جانب سے اس کے مفادات کو نشانہ بنانے اور علاقائی عدم استحکام کے خطرات سے پریشان ہے مگر یہ غیر یقینی ہے کہ چین انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں کس حد تک حصہ لے گا۔
 
 چین کو تشویش ہے کہ خطے میں غیرمحفوظ ماحول، عالمی سطح پر دہشت گردی کے خطرات کو بڑھاتا ہے اور اس کے اسٹریٹجک اور سیاسی اہداف سے توجہ ہٹاتا ہے جس سے اس کے وسیع تر جغرافیائی اقتصادی مقاصد پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے چین ہمسایہ ممالک میں فوجی مہمات کی بھرپور حمایت کرنے کے بارے میں محتاط رہا ہے مگر استثنیٰ بھی تھیں جیسے میانمار میں وہ فوجی جنتا کی حمایت کرتا ہے اور کچھ عسکریت پسند گروپس کے ساتھ امن مذاکرات میں ثالثی بھی کرتا ہے۔ اگرچہ چین پاکستانی فوجی آپریشن کے اخراجات کا اشتراک کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوسکتا ہے لیکن دونوں ممالک کے درمیان گہرے سیکیورٹی تعاون کے امکانات اب بھی موجود ہیں۔
 
 چین اور پاکستان ایک ایسا تعاون کا فریم ورک بنا سکتے ہیں جس میں چینی نجی سیکیورٹی اہلکاروں کی براہِ راست شرکت شامل نہ ہو۔ یہ فریم ورک انٹیلی جنس کے اشتراک، ٹریننگ اور پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص بلوچستان اور سندھ میں پولیس اور انسداد دہشت گردی یونٹس کو سامان فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کرسکتا ہے۔ اس میں مشترکہ سیکھنے کے تجربات اور سرحدوں کے انتظام کے لیے زمین، سمندر اور ہوا مشترکہ پروٹوکول بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تعاون کو غیرروایتی سیکیورٹی خطرات اور سنگین منظم جرائم سے نمٹنے کے لیے وسعت دی جا سکتی ہے۔ بالآخر پاکستان کا سب سے بڑا چیلنج بلوچستان میں استحکام لانا ہے۔ اس طرح کے مشکل وقت میں ممالک قدرتی طور پر اکثر مدد اور حمایت کے لیے اپنے اتحادیوں کی جانب ہی دیکھتے ہیں۔
 
 اصل تحریر:
 https://www.                
      
				
                    
    
				dawn.com/news/1898213 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انسداد دہشت گردی کی باغیوں کے خلاف بلوچستان میں مدد فراہم کر فوجی آپریشن چین پاکستان اور پاکستان پاکستان میں سے نمٹنے کے پاکستان کے پاکستان کو کوششوں میں پاکستان کی کی جانب سے بی ایل اے کے طور پر میں چینی کرنے کے ہے لیکن میں چین کے ساتھ کرتا ہے کے بعد کے لیے کہ چین ہیں کہ رہا ہے چین کو سے چین کی وجہ چین نے
پڑھیں:
پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
اسلام آباد:ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ خان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر سرکاری سرمایہ کاری کی کمی کے باعث لاکھوں بچے، خصوصاً لڑکیاں، اپنے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، جبکہ موسمی رکاوٹیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔
چیئرپرسن، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن گلمینہ بلال کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا شعبہ آگاہی کی کمی اور روایتی معاشرتی رویوں سے متاثر ہے، جو صنفی امتیاز اور تکنیکی شعبوں میں صنفی فرق کم کرنے میں حائل ہیں۔
ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی کے لیے سیاسی عزم اور مساوی مالی معاونت ضروری ہے، اگر صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کو ترجیح نہ دی گئی تو پاکستان ایک اور نسل کو محرومی اور عدم مساوات کے اندھیروں میں کھو دے گا۔
گزشتہ روز سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن (ایس اے کیو ای) کے پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) کے سالانہ کنونشن سے خطاب کے دوران سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہرہ ارشد نے کہا کہ تعلیم میں حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے اور صنفی مساوات و سماجی شمولیت کو پالیسی اور عمل کے ہر درجے میں شامل کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ استعمال کو یقینی بنائے بغیر جامع تعلیم کے وعدے محض کاغذی رہ جائیں گے۔ تعلیمی فنڈنگ میں حکومتوں کا احتساب صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ احتساب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے کہ بجٹ کا ہر روپیہ ہر لڑکی کی تعلیم کے حق کی تکمیل میں خرچ ہو۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شاہد سرویا نے کہا کہ پاکستان کو اپنی تعلیم کی ایمرجنسی سے نکلنے کے لیے کم از کم جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ وسائل ہر سال اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں 1.7 فیصد اضافے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
پنجاب کے وزیر تعلیم کے مشیر ڈاکٹر شکیل احمد نے وضاحت کی کہ اسکولوں کی آؤٹ سورسنگ سے نہ صرف اسکول سے باہر بچوں بلکہ کم فیس والے نجی اسکولوں کے طلبہ کا اندراج بھی بڑھا ہے، تاہم مالی مشکلات اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث اس پالیسی کی پائیداری ایک چیلنج بن سکتی ہے۔
بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے اسپیشل سیکریٹری عبدالسلام اچکزئی نے اعلان کیا کہ صوبے میں 12 ہزار اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتیاں مکمل کی گئی ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی بڑھائی جا سکے، جبکہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ پروگرامز بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ اسکول واپسی اور حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔
خیبر پختونخوا محکمہ تعلیم کے مشیر محمد اعجاز خلیل نے بتایا کہ ترقیاتی تعلیمی بجٹ کا 70 فیصد حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کیا جا رہا ہے، جس میں 10 ہزار کلاس رومز اور 350 واش رومز کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کارکردگی میں کمزور اسکولوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے اور 1,000 مقامی گاڑیاں لڑکیوں کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کریں گی۔
اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاطف شیخ نے کہا کہ 90 فیصد معذور بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اُنہوں نے نشاندہی کی کہ معذور بچوں کے لیے مخصوص بجٹ لائنز اور اساتذہ کی شمولیتی تربیت کی عدم موجودگی لاکھوں بچوں کو نظام سے باہر رکھتی ہے۔
جینڈر اور گورننس ماہر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ صنفی مساوات اور شمولیت کو فروغ دینے کا آغاز ابتدائی عمر سے ہونا چاہیے، جہاں آئینی حقوق مقامی زبانوں میں پڑھائے جائیں اور والدین، اساتذہ، اور کمیونٹی اس عمل کو مضبوط کریں۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، جبکہ ملک میں جنوبی ایشیا کی بلند ترین ماں اور بچے کی اموات اور 40 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل موجود ہیں۔
خواجہ سرا سوسائٹی کی ڈائریکٹر مہنور چوہدری نے کہا کہ ٹرانس جینڈر طلبہ کی شمولیت کے لیے جامع نصاب، اساتذہ کی حساسیت، ٹراما سے آگاہی، کونسلنگ اور زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم ضروری ہے۔