چوہدری صاحب رلا گئے سب کو
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
یہ ہمارے پڑوس میں ایک چوہدری صاحب ہیں جاوید چوہدری جو پورے کے پورے اور پکے پکے میرتقی میر ہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کہیں سے کوئی ایسی بات لے آتے ہیں جس سے ہمیں رلا دیتے ہیں
میر صاحب رلا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں پر لائے تھے
دو بچوں کی وہ کہانی۔اب بھی یاد کرکے جھرجھری آجاتی ہے کیا واقعی اب بھی دنیا میں ایسے انسان پائے جاتے ہیں جو لالچ میں چنگیز و ہلاکو کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اور وہ بھی اس ملک میں۔جسے بنانے والوں نے دی تھی قربانی لاکھوں جانوں کی۔ کہ کافروں کے ظلم وستم سے دور اپنے بچوں کے لیے ایک امن و آشتی کا گہوارہ بنائیں گے جہاں محبت اخوت اور بھائی چارے کے پھول اگیں گے انصاف و عدل کا بول بالا ہوگا اور جنت کا ماحول ہوگا۔
بہشت آن جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را باسکے کارے نہ باشد
لیکن ہوا کیا؟ہمیشہ کی طرح’’اشراف‘‘ تاک میں تھے مورچوں میں بیٹھے تھے اور اصلی بنانے والے مخلص تو سادہ دل لوگ تھے جب تک ان کو پتہ چلتا اشراف ہراول میں پہنچ کر قبضہ جماچکے تھے اور اصلی لوگوں کو ادھر ادھر کرکے قافلے کو یوٹرن دے چکے تھے۔
دنیا میں ہمیشہ جب بھی کوئی تحریک اٹھتی ہے انقلاب برپا ہوتا ہے تو جن اشراف کے خلاف اٹھتا ہے وہ پہلے تو اسے کمی کمین لوگوں کی شور پشتی قرار دیتے ہیں یا پھر بزور دبانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی انقلاب کامیاب ہوتا نظر آتا ہے تو بڑے کمال کے ساتھ اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور ہراول دستہ میں پہنچ جاتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے اسے اپنی ڈب پر لے آتے ہیں۔جو کچھ ہوچکا وہ تو ہوچکا۔ہمارے چوہدری کے مطابق ان دو بچوں پر ظلم کی انتہا کرنے والے، والے پکڑے گئے ہیں۔لیکن کیا واقعی ’’پکڑے‘‘ گئے ہیں ؟اس ملک میں جو قوانین چلتے ہیں جن کو انگریزوں نے ’’تعزیرات ہند‘‘ کا نام دیا تھا اور اب مشرف بہ پاکستان ہو کر تعزیرات پاکستان کہلاتے ہیں وہ ایک ایسی موم کی ناک ہیں جن کو کوئی بھی گرم ہاتھ جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے ۔
ہمارا ایک بہت ہی معزز محترم اور بزرگ عزیز ایک دن ہمارے پاس کچھ معزز مہمانوں کے ساتھ آگئے، مہمانوں کے لباس اور انداز و اطوار سے لگتا تھا کہ’’خواص‘‘ ہیں عوام نہیں۔مسئلہ یہ تھا کہ ان کا کوئی آدمی قتل کے جرم میں ماخوذ ہوا تھا۔اور اس قتل میں خود مقتول نے اپنے ’’بیان نزع‘‘ میں اس شخص کا نام لیا تھا،اب قانون کی کتابوں میں’’بیان نزع‘‘ کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن کمال کرنے والے اگر کمال نہ کریں تو باکمال کیسے کہلائیں، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ’’بیان نزع‘‘ کے وقت جو ڈاکٹر موجود تھا اگر وہ ہمارے وکیل کے سوال پر مطلوبہ بیان دے دے تو باقی کام وکیل کا ہے۔ ڈاکٹر سے وکیل یہ سوال کرے گا کہ سکرات مرگ کے وقت مرنے والے کا دماغ سو فیصد درست ہوتا ہے یا اس میں کوئی بگاڑ بھی ہوسکتا ہے، ڈاکٹر نے صرف اتنا کہنا ہے کہ دماغ متاثر بھی ہوسکتا ہے۔
اتفاق سے وہ ڈاکٹر ہمارا گہرا دوست بھی تھا اور ہماری طرح پاگل بھی، چنانچہ ان لوگوں نے اس پر اپنا سارا زور تمام کیا تھا لیکن وہ ان کی مرضی کا بیان دینے کو تیار نہیں تھا، پاگل جو تھا اور اب یہ لوگ اس پاگل کو مجھ پاگل کے ذریعے رام کرنا چاہتے تھے۔ظاہر ہے کہ ہم بھی پاگل تھے چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا وہ بزرگ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناراض ہوگیا کہ پاگل ان کی مرضی کی مرضی نہیں کرسکا تھا۔خلاصہ اس بکواس کا یہ ہے کہ شک زندہ اور شک پیدا کرنے والے پایندہ۔آپ دیکھ لیں گے کہ کیا ہوتا ہے اس طرح کے کیسوں میں۔ہم ابھی سے ان کو چشم تصور سے ان کو ہاروں سے لدے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تھا اور
پڑھیں:
مہمان خصوصی کاحشرنشر
یہ الگ بات ہے کہ ہم دانا دانشوروں ، برگزیدہ قسم کے تجزیہ کاروں اورکالم نگاروں، مقالہ نگاروں کے نزدیک کسی شمارقطار میں نہیں ہیں بلکہ صحافیوں میں بھی ایویںایویں ہیں اور شاعروں، ادیبوں یاایوارڈزدینے والوں کے خیال میں بھی پرائے ہیں لیکن ابھی کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سب سے نیچے ہی سہی ہمارا نام بھی لے لیتے ہیں ۔
اہل ورع کے جملہ میں ہرچند ہوں ذلیل
پرغاصبوں کے گروہ میں ہیں برگزیدہ قبول
چنانچہ ایک گاؤں کی ایک ادبی تنظیم کا ایک وفد ہمارے پاس آیا کہ ہماری تنظیم نے معروف شاعروں، ادیبوں کے ساتھ شامیں منانے کاسلسلہ شروع کیا ہے، اب تک ہم تیس چالیس سے اوپر شخصیات کو یہ اعزاز بخش چکے ہیں اوراب قرعہ فال آپ کے نام نکلا ہے۔ ہم خوش ہوئے، ہم مسکرادیے، ہم ہنس دیے اورفخر سے پھول کر حامی بھرلی۔
مقررہ دن اوروقت کو ہم نے پانچ سوروپے حق حلال کے، مال حرام کی طرح خرچ کرکے ٹیکسی لی اورمقام واردات پر پہنچ گئے ،کمرہ واردات میں تیس چالیس لوگ فرش پر بیھٹے تھے، ہمارے گلے میں ہار ڈالا گیا جو رنگین ریشوں پر مشتمل تھا جو عام طور پر سائیکل کے پہیوں میں یاختنے کے بچوں کے گلے میں ڈالا جاتا ہے اورڈیڑھ دوروپے کی گراں قیمت میں مل جاتا ہے ۔ ہمیں کونے مں ایک صوفے پر بٹھا دیا گیا اوربیٹھے ہوئے لوگ قطار میں آکر ہمیں مصافحے کاشرف عطا کرنے لگے۔
یہ سلسلہ ختم ہوا تو تنظیم کے سیکریٹری نے کھڑے ہوکر اپنی تنظیم کی ’’عظیم الشان‘‘ سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ آج ہم اس سلسلے کی اٹھائیسویں شام ان جناب کے ساتھ منارہے ہیں ، نام تو آپ نے ان کا سنا ہوگا ، اب میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں تفصیل سے بتائیں ۔جھٹکا تو زورکا لگا کہ عام طورپر تو ایسی تقاریب میں یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ’’مہمان ‘‘ کے بارے میں مقالے وغیرہ پڑھتے ہیں، نظم ونثرمیں اس کی صفات اورکارناموں کی تفصیل بتاتے ہیں، اس کے بعد آخر میں مہمان کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہاں گیند ابتداء ہی سے براہ راست میرے کورٹ میں ڈال دی گئی بلکہ دے ماری گئی ، اس لیے میں نے بھی اٹھ کر ان کے نہلے پر دہلا مارتے ہوئے کہا کہ نام تو میرا جناب سیکریٹری موصوف نے آپ کو بتادیا ہے ، والد کانام فلاں اوردادا کا نام فلاں ہے ، میرے جد امجد فلاں ہیں۔میرے دو چچا، تین ماموں اورچاربھائی ہیں ، اولادوں کی تعداد آٹھ ہے ، چار لڑکیاں اورچارلڑکے ۔لڑکیاں ساری کی ساری بیاہی جاچکی ہیں ، بیٹوں میں تین کی شادیاں ہوچکی ہیں ، ایک باقی ہے ،انشاء اللہ اگلے ستمبر میں اس کی بھی ہوجائے گی۔
بڑا بیٹا تین بچوں کا باپ ہے اوردبئی میں ہے ، دوسرا یہاں کے ایک محکمے میں جونئر کلرک ہے، تیسرا بے روزگار ہے لیکن دیہاڑی کرنے جاتا ہے اورچوتھا ابھی پڑھ رہا ہے ، بیوی بقیدحیات ہے اورمیں اس کی بقید ہوں ، بیچاری کو گھٹنوں کی بیماری لاحق ہے لیکن زبان ہرلحاظ سے صحت مند ہے ۔ میرا قد پانچ فٹ پانچ انچ ، وزن اسی کلوگرام ہے اورشناختی نشانیاں کٹی ہوئی ناک ہے، تعلیم صبح آٹھ بجے سے دوپہر گیارہ بچے تک ہے ، صبح آٹھ بجے والد نے اسکول میں داخل کرایا اورگیارہ بجے میں بھاگ کر گھر آگیا، باقی تعلیم محلے کے سینئر نکموں نکھٹؤں سے حاصل کی ہے ، شاعری کے انیس مجموعے چھپ چکے ہیں اوربیسواں طباعت کے مرحلے میں ہے ، پھر ایک لمبا وقفہ دینے کے بعد اچانک شکریہ کہہ کر بیٹھ گیا۔ میراخیال تھا کہ اپنے بارے میں اتنی قیمتی معلومات دینے پر کوئی اعتراض کرے گا ، تبصرہ کرے گا یا سوالات اٹھائے گا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اورسیکریٹری نے اٹھ کر مشاعرے کااعلان کردیا اوراپنی بیالیس بندوں والی نظم سنائی ۔
اب تک میرا خیال تھا کہ بیٹھے ہوئے لوگ غیر مسلح ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ سب کے سب نظموں کی تلواروں ، غزلوں کے خنجروں ، چاربیتوں کے نیزوں سے مسلح ہیں ، اس کے بعد دو گھنٹے وہ گھمسان کارن پڑا کہ مجھے اندر باہر، آگے پیچھے اورنیچے سے لہولہان کر دیاگیا ۔
کرے فریاد امیر اے دست رس کس کی
کہ ہردم کھینچ کر خنجر سفاک آتے ہیں
آخر کار سیکریٹری نے مشاعرہ ختم ہونے اورچائے کااعلان کیا ، کونے میں پڑی ہوئی تھرماسیں متحرک ہوئیں ، چائے کے ذائقے رنگ اوربدبو سے پتہ چلا کہ سب کی بیویاں بڑی ’’سلیقہ شعار‘‘ تھیں، یہ سوچ کر کہ بعد میں وقت ملے نہ ملے ، چولہا جلے نہ جلے ، اس لیے صبح ہی چائے تیار کرکے تھرماسوں میں ذخیرہ کی گئی تھی اورمٹھائی بھی احتیاطاً دو ماہ پہلے ہی خریدی گئی تھی ۔
وہ رنگین پلاسٹک کے ریشوں کاہار ہم نے سامنے دیوار پر ٹانک دیا ہے تاکہ ہمیں بتاتا رہے کہ خبردار اگر پھر ایسی غلطی کی تو میں گلے پڑ جاؤں گا۔
ویسے احتیاطاً میں نے ایک ماہرسے ایک ایسا گتا بھی خرید کر رکھ لیا ہے جو شاعر شناسی میں بڑا تیز ہے اورانھیں بھگانے میں ’’غپ طولیٰ‘‘ رکھتا ہے ۔