پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں سابق فرنچائز آفیشل کی تقرری پر سوال اٹھنے لگے۔

تفصیلات کے مطابق دنوں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سی او او سلمان نصیر سے ذمہ داری واپس لے کر انھیں پی ایس ایل کا سی ای او بنادیا تھا۔

ان دنوں وہ دسویں ایڈیشن کے بااحسن انداز میں انعقاد کیلئے کوششیں کررہے ہیں، حال ہی میں ایک سینئر منیجر کا تقرر کیا گیا، انھیں اگست 2023 میں ملتان سلطانز کی پہلی خاتون جنرل منیجر بننے کا بھی اعزاز حاصل تھا،کچھ عرصے قبل بعض وجوہات کی وجہ سے فرنچائز سے راہیں الگ ہوگئیں، پھر وہ سرکاری ٹی وی  سے وابستہ ہوئیں مگر اب معاہدہ ختم ہو چکا۔

مزید پڑھیں: پی ایس ایل؛ نئی ٹیمیں کتنے میں فروخت ہوسکتی ہیں؟ قیمت سامنے آگئی

گزشتہ دنوں ان کو پی ایس ایل میں ذمہ داری مل گئی ہے، حیران کن طور پر اس کا کوئی اشتہار بھی جاری نہیں کیا گیا، اس حوالے سے بعض فرنچائزز نے تشویش ظاہر کردی، انھیں لگتا ہے کہ یہ مفادات کے ٹکراؤ کے زمرے میں آتا ہے،کسی فرنچائز ملازم کو پی ایس ایل میں ملازمت دی گئی اور کچھ عرصے بعد وہ واپس چلاگیا تو رازداری کیسے برقرار رہے گی۔

مزید پڑھیں: پی ایس ایل؛ 2 نئی ٹیموں کو شامل کرنے کا فیصلہ، نام کیا ہوں گے؟

اس حوالے سے رابطے پر پی سی بی کے ترجمان نے کہا کہ مذکورہ خاتون کا تقرر مختصر مدت کیلئے کنسلٹنسی کیلئے ہوا، وہ 3 ماہ تک خدمات انجام دیں گی لہذا کسی اشتہار کی ضرورت نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ وہ ملتان سلطانز کی مستقل ملازم نہیں تھیں، پی ایس ایل میں بھی کسی سینئر پوزیشن پر نہیں آ رہیں لہذا  کولنگ آف پیریڈ (ملازمتوں کے درمیان وقفے) کی کوئی ضرورت نہیں بنتی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ملتان سلطانز میں ان کی تقرری کا اعلان معروف غیرملکی ویب سائٹ پر فرنچائز اونر کے انٹرویو کی صورت میں ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: بنگلادیشی کرکٹرز کی پی ایس ایل میں شرکت مشکوک

اس میں واضح طور پر انھیں پاکستان کی کسی فرنچائز کی اولین جی ایم قرار دیا گیا تھا۔

حال ہی میں سوشل میڈیا پوسٹ سے انھوں نے اپنی پی ایس ایل میں سینئر منیجر کے طور پر تقرری کا اعلان بھی کیا۔ 

مزید پڑھیں: کیا فخر زمان پی ایس ایل کھیلیں گے؟

ادھر پی سی بی کے 2 ڈائریکٹرز جلد ملتان سلطانز کو جوائن کرنے والے ہیں، دونوں ان دنوں نوٹس پیریڈ مکمل کررہے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ایس ایل میں ملتان سلطانز مزید پڑھیں

پڑھیں:

ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر)سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہا ہے کہ حال ہی میں کچھ لوگ ہماری سیاسی کوششوں کو ’مائنس فارمولے‘ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جیسے یہ عمران خان کو کمزور کرنے یا پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر قبضہ کرنے کی سازش ہو، واضح رہے کہ پی ٹی آئی عمران خان کے بغیر ممکن ہی نہیں، وہ اس کے بانی، چہرہ اور قوت ہیں۔سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ محمود مولوی، فواد چوہدری اور میں نے جو کاوش کی ہے یہ کسی سازش کا حصہ نہیں بلکہ ایک شعوری کوشش ہے کہ جس کے تحت پاکستانی سیاست کو ٹکراؤ سے نکال کر مفاہمت کی طرف واپس لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ مزاحمت اور مسلسل احتجاج کی سیاست نے پی ٹی آئی کے لیے صرف گرتی ہوئی سیاسی گنجائش، گرفتاریوں اور تھکن کے سوا کچھ نہیں چھوڑا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم رک کر سوچیں، جائزہ لیں اور دوبارہ تعمیر کریں۔ہم نے ذاتی طور پر پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں سے مشاورت کی، تقریبا سب نے تسلیم کیا کہ محاذ آرائی ناکام ہو چکی ہے اور مفاہمت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔مزید لکھا کہ جب ہم نے کوٹ لکھپت جیل میں چوہدری اعجاز سے اور پی کے ایل آئی ہسپتال میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی، تو دونوں نے عمران خان کے ساتھ اپنی پختہ وابستگی برقرار رکھتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ یہ جمود ختم ہونا چاہیے، ان کا مطالبہ سیاسی سانس لینے کی معمول کی گنجائش تھا، سرنڈر نہیں۔

بدقسمتی سے رابطوں کی کمی، خوف اور سوشل میڈیا کی مسلسل گرمی نے پی ٹی آئی کے اندر کسی مکالمے کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔سابق گورنر کا کہنا تھا کہ دوسری طرف بیرونِ ملک بیٹھے کچھ خودساختہ اینکرز نے دشمنی اور انتشار کو ہوا دے کر اسے ذاتی مفاد کا کاروبار بنا لیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر فیلڈ مارشل عاصم منیر کی بڑھتی ہوئی سفارتی ساکھ نے پاکستان کے بارے میں دنیا کے تاثر کو بدل دیا، یہ توقع کہ غیر ملکی طاقتیں خود بخود عمران خان کے ساتھ کھڑی ہوں گی، پوری نہیں ہوئی۔یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر کوئی پی ٹی آئی رہنما سمجھتا ہے کہ تصادم اور احتجاج ہی درست راستہ ہے، تو وہ آگے بڑھے اور ہم میں سے ان لوگوں کو قائل کرے جو اس سے اختلاف رکھتے ہیں، بحث و مباحثہ خوش آئند ہے مگر اندھی محاذ آرائی مستقل سیاسی حکمتِ عملی نہیں بن سکتی۔

ہماری کوشش آزاد، مخلص اور صرف ضمیر کی آواز پر مبنی ہے، ہم چاہتے ہیں معمول کی سیاست بحال ہو، ادارے اپنا کردار ادا کریں اور سیاسی درجہ حرارت نیچے آئے۔اگر مفاہمت کو غداری سمجھا جاتا ہے، تو ٹھیک ہے، ہم دل سے پی ٹی آئی کی بقا اور پاکستان کے استحکام کے لیے سوچ رہے ہیں۔واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما فواد چوہدری نے بھی یکم نومبر کو کہا تھا کہ پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں سب سے اہم یہ ہے کہ سیاسی درجہ حرارت نیچے لایا جائے اور وہ اس وقت تک کم نہیں ہو سکتا جب تک دونوں سائیڈ یہ فیصلہ نہ کریں کہ انہوں نے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور ایک نے قدم بڑھانا ہے۔

سماجی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں میں سابق پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کو ایک قدم بڑھانا اور پی ٹی آئی نے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے، تاکہ ان دونوں کو جگہ مل سکے، پاکستان نے جو موجودہ بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں، سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔لہذا جب تک یہ درجہ حرارت کم نہیں ہوتا، اُس وقت تک پاکستان میں معاشی ترقی اور سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔اس سے قبل 31 اکتوبر کو فواد چوہدری، عمران اسمٰعیل اور محمود مولوی نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی سے لاہور میں اہم ملاقات کی تھی۔

 

متعلقہ مضامین

  • گنڈاپور کو کیوں نکالا، کرپٹ تھے، نااہل یا میر جعفر؟ گورنر خیبر پختونخوا کا سوال
  • بہت ہوگیا، اب افغان طالبان کی تجاویز نہیں حل چاہیے، جو ہم خود نکال لیں گے: ڈی جی آئی ایس پی آر
  • وزیرِاعظم کا شاندار انتخاب، خواجہ آصف کا مشرف زیدی کی تقرری کا خیرمقدم
  • پورٹ قاسم: عالمی درجہ بندی میں نمایاں بہتری، حکومت نے نیا ترقیاتی وژن پیش کردیا
  • اسلام آباد میں گولڈ اور دیگر قیمتی پتھروں کی نمائش
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • نریندر مودی کی ریلی سے پہلے 6 صحافیوں کو نظربند کرنا اُنکی گھبراہٹ کا مظہر ہے، کانگریس
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • انور مقصود ، مسکراہٹ، معنویت اور میراث کا ایک لازوال سفر