شعبہ خدمات کے تجارتی خسارے میں جاری مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں سالانہ بنیاد پر 30 فیصد اضافہ ہوا. سٹیٹ بینک
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔20 مارچ ۔2025 )خدمات کے شعبے کے تجارتی خسارے میں جاری مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران سالانہ بنیاد پر 30 فیصد اضافہ ریکارڈکیا گیا سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار کے مطابق مالی سا ل کے پہلے 8 ماہ میں شعبہ خدمات کے تجارتی خسارے کا حجم 2.250 ارب ڈالر ریکارڈکیاگیا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 1.
(جاری ہے)
15 ارب ڈالر کے مقابلے میں 6 فیصد زیادہ ہے. مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں خدمات کی درآمدات پر 7.70 ارب ڈالر زرمبادلہ خرچ ہوا جو گزشتہ مالی سا ل کی اسی مدت کے 6.88 ارب ڈالر کے مقابلے میں 12 فیصد زیادہ ہے دوسری جانب ایک رپورٹ میں مرکزی بنک نے بتایا ہے کہ ٹیکنالوجی خدمات کی برآمدات میں جاری مالی سال کے پہلے ماہ میں سالانہ بنیادوں پر 25فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے سٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق جولائی سے فروری 2025تک کی مدت میں ٹیکنالوجی خدمات کی برآمدات سے ملک کو2.482ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا جو گزشتہ مالی سا ل کی اسی مدت کے مقابلے میں 25فیصد زیادہ ہے.
گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ٹیکنالوجی خدمات کی برآمدات سے ملک کو1.978ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا تھا فروری میں ٹیکنالوجی خدمات کی برآمدات کا حجم 305ملین ڈالر ریکارڈ کی گیا جو گزشتہ سال فروری کے 257 ملین ڈالر کے مقابلے میں 19فیصد زیادہ ہے جنوری کے مقابلے میں فروری میں ٹیکنالوجی خدمات کی برآمدات میں ماہانہ بنیادوں پر 3فیصد کی کمی ہوئی ہے. جنوری میں ٹیکنالوجی خدمات کی برآمدات کا حجم 313ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا جو فروری میں کم ہوکر305ملین ڈالر ہوگیا واضح رہے کہ مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں خدمات شعبے کی مجموعی برآمدات سے ملک کو5.459ارب ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے 5.150ارب ڈالرکے مقابلے میں 6فیصد زیادہ ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں ٹیکنالوجی خدمات کی برآمدات ڈالر کے مقابلے میں ل کے پہلے 8 ماہ میں زرمبادلہ حاصل ہوا مالی سال کے پہلے کے تجارتی خسارے ل کی اسی مدت کے فیصد زیادہ ہے برآمدات سے میں خدمات مالی سا ل ارب ڈالر خدمات کے کا حجم گیا جو
پڑھیں:
غذائی درآمدات میں کمی یا اضافہ؟
مالی سال 2024 اور 2025 کے 9 ماہ گزر گئے، جولائی تا مارچ 2025ء کے غذائی یعنی فوڈ گروپ کے اعداد و شمار انتہائی خوش کن نظر آ رہے تھے۔ جب یہ بتایا جا رہا تھا کہ 2023-24 کے 9 ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے 9 ماہ میں فوڈ گروپ کی درآمدات میں2.74 فی صد کمی ہوئی ہے۔ درآمدات میں کمی کا ہونا وہ بھی فوڈ گروپ کی درآمدات جس میں دالیں، گندم، جب کہ غذائی اشیا میں چائے، سویابین آئل اور دیگر اشیائے خوراک شامل ہوتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 9 ماہ کے دوران 6 ارب 11 کروڑ 80لاکھ 13 ہزار ڈالرز کی فوڈ گروپ کی درآمد ہوئی اور اس کے مقابل جولائی 2023 تا تاریخ 2024 کی فوڈ گروپ کی کل درآمد 6 ارب 29 کروڑ 4 لاکھ67 ہزار ڈالر کے ساتھ2.74 فی صد کی کمی کا ڈنکا بجا دیا گیا جب کہ یہ حقیقت بھی ہے لیکن ذرا رکیے! سال گزشتہ کی درآمدی گندم نکال کر حساب کتاب چیک کرتے ہیں تو کہانی بالکل الٹ ہو کر رہ جاتی ہے۔
پچھلے مالی سال کے 9 ماہ میں پاکستان کے ساڑھے چونتیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر ایک ارب 51 لاکھ ڈالرز خرچ ہوئے تھے، اگر گندم نکال دی جائے تو 6 ارب کی غذائی درآمدات کو5 ارب سمجھنا چاہیے اور چونکہ اس مرتبہ گندم کی مد میں 35 ہزار ڈالر درج ہے، اس لحاظ سے یہ تقریباً 15 فی صد سے زیادہ غذائی درآمدات کا اضافہ بنتا ہے۔
اس سے زیادہ مسئلہ اس بات کا ہے کہ رواں مالی سال میں گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کا دالوں کی درآمد سے موازنہ کرتے ہیں تو 19 کروڑ ڈالرز کی زائد دالیں درآمد ہو کر رہیں۔ آہستہ آہستہ ایسا معلوم دے رہا ہے کہ پاکستان دالیں امپورٹ کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اپنا نام بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس طرح دالیں مہنگی ہوتی چلی جائیں گی اور کچھ عرصے میں غریب کی دسترس سے باہر ہوکر رہیں گی۔
جلد ہی گوشت بھی اشرافیہ میں سے کچھ لوگوں کی دسترس سے باہر ہونے کو ہے لہٰذا مہنگی دالوں کے گُن گائے جائیں گے اور اشرافیہ کے کچھ افراد گائے کے گوشت کو بھی خیرباد کہہ دیں گے اور وہ دال مہنگی ہو کر رہ جائے گی جو کبھی غریبوں کی پہچان تھی، اب وہ اشرافیہ کی شان بن جائے گی۔ پھر یہ نہیں کہا جائے گا کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘ بلکہ دال اب بہت سے کالے دھن والوں کا کھاجا ہوکر رہ جائے گی۔اس مرتبہ غذا کی درآمدات میں دراصل اضافہ ہوا یا کمی ہوئی ہے۔
ان سب کو سمجھنے کے لیے دال، گندم اور غذائی درآمدات کو گڈمڈ کرنا پڑے گا۔ یعنی بات سیدھی سمجھنی ہو تو کچھ اس طرح ہے کہ گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ کی ایک ارب ڈالر کی درآمدی گندم اور اس مرتبہ دالوں کی درآمد پر تقریباً 19 کروڑ ڈالر کی زائد درآمد کو ملا لیں یا سال گزشتہ کے اسی مدت سے گھٹا لیں تو دراصل تقریباً سوا ارب ڈالر کی اس مرتبہ غذائی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ کئی غذائی درآمدات میں جن کو پچھلے سیزن میں کم درآمد کیا گیا اس لیے ایک محتاط اندازہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اب یہ سوا ارب ڈالر5 ارب ڈالر کا 25 فی صد تو بنتا ہے اس طرح گندم نکالیں دال جمع کریں تو یہ سب کچھ جب گڈمڈ ہوکر رہ جائے گا تو ایسے میں معیشت کی کمزوری ظاہر ہوکر رہے گی۔ اتنی درآمدات کے باعث درآمدی ملک بن گئے ہیں کہ کیا اب بھی ایسا معلوم دیتا ہے کہ خودکفالت کی منزل پا لیں گے یہ نعرہ بھی درآمدی نعرہ بن گیا ہے۔
حکومت سستی دال فراہم کرنے کے لیے کاشتکاروں، زمین اور مقامی دالوں کا رشتہ مضبوط کرے تاکہ سستی دال اور مقامی دال پیدا ہو، اسی سے ہم سالانہ ایک سے سوا ارب ڈالر بچا سکتے ہیں۔ چینی بھی برآمد کر رہے ہیں اور اب گندم بھی برآمد کی جائے تاکہ ملک گندم کے برآمدی ممالک میں اپنی شناخت بنا سکے۔حکومت کے پالیسی ساز غذائی درآمدات کے بل کو بار بار چیک کریں، کیونکہ جب کھانے پینے کی چیزیں ایسے ملک میں باہر سے آ رہی ہیں جو ان تمام غذائی درآمدات کو سوائے چند ایک کو چھوڑ کر مثلاً چائے یا پام آئل وغیرہ کے دیگر کئی غذائی درآمدات اس لیے کی جاتی ہیں کہ ملکی پیداوار کی نسبت کھپت زیادہ ہے۔
اب زائد کھپت کہہ دینا اور اس کے لیے زائد پیداوار کے حصول کی کسی قسم کی کوشش نہ کرنا، اب اس پالیسی کے برعکس کام کرنے کے لیے ماہرین، پالیسی ساز اب طے کر لیں کہ ملک کو خودکفالت کی طرف لے جانے کے لیے پہلے غذائی درآمدات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی،کیونکہ ابتدائی طور پر آسانی کے ساتھ ایک تا ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کفایت کی جا سکتی ہے۔
صرف پچھلے 10 سال کا سوچ کر آیندہ 5 سال کی زرعی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں تو یہ 10 تا 12 ارب ڈالر کی بچت، غذائی درآمدی بل میں کر سکتے ہیں اور آیندہ 5 برس اگر خودکفالت حاصل کرتے ہوئے کچھ اشیا خوراک برآمد کرلیتے ہیں تو یہی 10 سے 12 ارب ڈالرکی بچت ملک کو خودکفالت کی منزل کی جانب رواں دواں کر سکتی ہے اور یوں غذائی برآمدات کو دو سے تین گنا زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔