UrduPoint:
2025-11-02@18:35:37 GMT

جرمنی نے 13 سال بعد شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا

اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT

جرمنی نے 13 سال بعد شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 مارچ 2025ء) شام کے سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے تین ماہ سے زائد عرصے بعد جرمنی نے جمعرات کو دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا۔

شام کی خانہ جنگی کے دوران 2012 میں بند ہونے والے اس سفارت خانے کو جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے باضابطہ طور پر دوبارہ کھول دیا، جو اسد حکومت کے خاتمے کے بعد دوسری بار شام کا دورہ کر رہی تھیں۔

شام: اسد حکومت کے خاتمے کے بعد جرمن وزیر خارجہ کا دوسرا دورہ

بیئربوک کے مطابق، جرمن سفارت کاروں کی ایک چھوٹی سی تعداد دمشق میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرے گی، لیکن قونصلر کے کام، جیسے کہ ویزا جاری کرنا، پڑوسی ملک لبنان میں بیروت میں جاری رہے گا۔

(جاری ہے)

یہ اقدام برلن اور دمشق میں قیادت کے درمیان تعلقات کی بحالی میں ایک اہم قدم ہے، جو اسد کے خاتمے کے بعد ملک کی تعمیر نو کی کوششوں کے دوران انسانی اور سلامتی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔

یورپی یونین شام پر عائد پابندیاں بتدریج نرم کر سکتی ہے

دس لاکھ سے زیادہ شامی، جن میں سے بہت سے نے خونریز خانہ جنگی کے دوران اپنا وطن چھوڑ دیا تھا، اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں۔

بیئربوک کی شام میں کیا مصروفیات رہیں؟

بیئربوک نے شام کے عبوری رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ انہوں نے شامی رہنماؤں سے کہا کہ انہیں اس ماہ ہونے والے نسلی قتل عام میں ملوث انتہا پسند گروہوں کو قابو میں کرنا اور جرائم کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے۔

انہوں نے دمشق میں عبوری صدر احمد الشرع کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا،"یہ ضروری ہے کہ انتہا پسند گروہوں کو قابو میں لایا جائے اور جرائم کے ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے۔" انہوں نے مزید کہا، "جرائم کی کسی بھی مزید کوشش کو روکنا ضروری ہے۔"

بیئربوک نے سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔

ان کا دمشق کا دورہ شمال مغربی شام میں اسد کے وفاداروں اور نئی حکومتی فورسز کے درمیان ہونے والی پرتشدد جھڑپوں کے صرف دو ہفتے بعد ہوا۔

ان جھڑپوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

لندن میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق، تشدد میں 1500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری اور علوی مذہبی اقلیت کے ماننے والے ہیں، جس سے بشارالاسد کا تعلق ہے۔

شام روانہ ہونے سے قبل بیروت ہوائی اڈے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے، بیئربوک نے "شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ" کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک "خوفناک جرم" قرار دیا جس نے اعتماد کو کافی نقصان پہنچایا۔

انہوں نے عبوری حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ "اپنی صفوں میں موجود گروہوں کی کارروائیوں کو کنٹرول کرے اور ذمہ داروں کو جوابدہ بنائے۔"

شام کے لیے جرمنی کی حمایت کا اعادہ

بیئربوک نے شام کو انسانی امداد کی فراہمی جاری رکھنے کے لیے جرمنی کے عزم کا اعادہ کیا اور بعض شرائط کے تحت پابندیوں میں ممکنہ نرمی کا اشارہ دیا۔

بیئربوک نے کہا کہ "یورپ اور شام کے درمیان، جرمنی اور شام کے درمیان ایک نئی سیاسی شروعات ممکن ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے صنف، نسل یا مذہب سے قطع نظر تمام شامیوں کے لیے آزادی، سلامتی اور مساوی مواقع کو یقینی بنانے کے لیے واضح وعدوں کی ضرورت ہو گی۔

جرمنی نے پیر کے روز شام کے لیے ایک ڈونر کانفرنس کے حصے کے طور پر 325 ملین ڈالر کی تعمیر نو کی امداد کا اعلان کیا۔

اس کانفرنس میں مجموعی طور پر 5.

8 بلین یورو کی امداد کے وعدے کیے گئے۔

یورپی یونین کے دیگر ارکان میں سے، اٹلی نے گزشتہ سال شام میں اپنا سفارت خانہ بشار الاسد حکومت کے زوال سے پہلے ہی دوبارہ کھول دیا تھا۔ جب کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسپین نے اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا۔

تدوین: صلاح الدین زین

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے حکومت کے خاتمے کے دوبارہ کھول دیا اپنا سفارت خانہ کے خاتمے کے بعد اسد حکومت کے بیئربوک نے کے درمیان انہوں نے کے لیے شام کے

پڑھیں:

اسرائیل کے فلسطین پر حملے نسل کشی کی واضح مثال ہیں، طیب اردوان

انقرہ میں جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں ترک صدر نے اسرائیل کیجانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، قحط اور غزہ میں حملوں سے لاعلمی پر جرمنی کو تنقید کا نشانہ بنایا، اردوان نے کہا کہ کیا جرمنی غزہ میں اسرائیلی نسل کشی نہیں دیکھ رہا۔؟ اسلام ٹائمز۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے جاری حملے نسل کشی کی واضح مثال ہیں۔ طیب اردوان نے انقرہ میں جرمن چانسلر فریڈرک مرز کے ساتھ ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی، قحط اور غزہ میں حملوں سے لاعلمی پر جرمنی کو تنقید کا نشانہ بنایا، اردوان نے کہا کہ کیا جرمنی غزہ میں اسرائیلی نسل کشی نہیں دیکھ رہا۔؟ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیار ہیں، مگر حماس کے پاس کچھ بھی نہیں، جنگ بندی کی خلاف ورزیاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہیں۔ ترکیہ، جرمنی اور دیگر ممالک کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے، غزہ میں قتل اور قحط روکنے کیلئے فوری سیاسی اور انسانی اقدامات ضروری ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان حکومت کا نوعمر قیدیوں کیلئے علیحدہ جیل بنانے کا فیصلہ
  • نارووال،خانہ بدوش بچہ کچرے کے ڈھیر سے کام کی اشیا تلاش کررہاہے
  • چین نے اپنا سب سے کم عمر خلا باز چینی خلائی اسٹیشن پر بھیج دیا
  • سوڈان، امریکی ایجنڈا و عرب امارات کا کردار؟ تجزیہ کار سید راشد احد کا خصوصی انٹرویو
  • کینوا نے جدید اے آئی فیچرز سے لیس اپنا ڈیزائن ماڈل متعارف کرادیا
  • وزیراعلیٰ بلوچستان کا شہید ایس ایچ او کے اہلِ خانہ سے تعزیت، اعزازات اور مالی امداد کا اعلان
  • سانحہ بھاگ میں شہید ایس ایچ او کے اہل خانہ سے وزیراعلیٰ بلوچستان کی تعزیت، اعزازات کا بھی اعلان
  • نواز شریف کا سابق ایم این اے بیرسٹر عثمان ابراہیم سے اہلیہ کے انتقال پر اظہارِ تعزیت
  • امریکا نے مالی میں غیرضروری عملے اور اہلِ خانہ کو فوری ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا
  • اسرائیل کے فلسطین پر حملے نسل کشی کی واضح مثال ہیں، طیب اردوان