چاند پر قدیم ترین ٹکراؤ 4.25 ارب سال قبل ہوا تھا، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
بیجنگ :چینی سائنس دانوں نے چاند کے سایہ دار علاقے سے لینے والی چاند کی مٹی کے نمونوں کے مطالعہ کے ذریعے ایک اور بڑی پیش رفت کی ہے۔ یعنی یہ طے کیا گیا ہے کہ چاند کا سب سے قدیم اور سب سے بڑے ٹکراؤ کی باقیات ایٹکن بیسن (ایس پی اے بیسن) 4.25 ارب سال پہلے ہوئی تھیں ، جو نظام شمسی کے ابتدائی مرحلے میں بڑے ٹکراؤ کی تاریخ کے لئے ایک ابتدائی معیار فراہم کرتا ہے ، اور چاند اور یہاں تک کہ نظام شمسی کے ابتدائی ارتقا کو سمجھنے کے لئے بہت سائنسی اہمیت کا حامل ہے۔ چینی سائنسدانوں کےیہ نتائج تعلیمی جریدے نیشنل سائنس ریویو میں شائع ہو گئے ہیں۔معلوم ہوا ہے کہ ایس پی اے بیسن، جس کا قطر تقریباً 2،500 کلومیٹر ہے، ٹکراؤ کے باعث ایک بہت بڑا گڑھا ہے اور یہ چاند پر قدیم ترین ٹکراؤ کا نشان ہے۔ ایس پی اے بیسن کی تشکیل کے وقت کو نظام شمسی میں ٹکراؤ کی تاریخ کو درست کرنے کے لئے سنہری حوالہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لہذا ، ایس پی اے بیسن کی تشکیل کے وقت کی درست وضاحت ، طویل عرصے سے بین الاقوامی خلائی تحقیق کے میدان میں اولین سائنسی اہداف میں سے ایک رہا ہے۔ اس مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ نظام شمسی کی تشکیل کے تقریباً 320 ملین سال بعد، ایک بڑے ٹکراؤ کے واقعے نے ایس پی اے بیسن تشکیل دیا،جو چاند میں ٹکراؤ کے گڑھوں کی شماریاتی تاریخ کے لئے چاند کے سایہ دار حصے سے ابتدائی معیار فراہم کیا۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ایس پی اے بیسن کے لئے
پڑھیں:
حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
اسلام آباد:پاکستان میں توانائی کا شعبہ ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں پالیسی سمت اور اس کے عملی نفاذکے درمیان بڑھتا ہوا تضاد ملک کی صاف توانائی کی منتقلی کو شدید خطرے میں ڈال رہا ہے۔
حکومت، جو ایک وقت میں گھریلو اور تجارتی سطح پر شمسی توانائی کو بجلی کے بڑھتے نرخوں اور توانائی کی عدم تحفظ کا دیرپا حل قرار دیتی تھی، اب نیٹ میٹرنگ پالیسی میں یوٹرن لے رہی ہے، اس فیصلے نے عوام اور کاروباری طبقے کو حکومت کی قابلِ تجدید توانائی کے عزم پر سوالات اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
ملک میں گرمیوں کے دوران بجلی کی طلب 29 ہزارمیگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے جبکہ نصب شدہ پیداواری صلاحیت 46 ہزار میگاواٹ سے تجاوزکر چکی ہے، اس کے باوجود ناقص گرڈ ڈھانچے، درآمدی ایندھن پر بڑھتے انحصار اور پیداواری صلاحیت کے ناکافی استعمال کی وجہ سے بجلی کی ترسیل غیر مؤثر ہو چکی ہے۔
2022 سے 2024 کے درمیان شمسی توانائی، خاص طور پر چھتوں پر لگے سولر سسٹمز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ نیٹ میٹرنگ اسکیم کے تحت رجسٹرڈ صارفین کی تعداد 2.8 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور مجموعی صلاحیت 2813 میگاواٹ تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم حالیہ حکومتی فیصلے کے تحت نیٹ میٹرنگ کے نرخ کو 27 روپے فی یونٹ سے گھٹاکر 10 روپے کرنے سے شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں شدید مایوسی پھیل گئی ہے۔
پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشنز فرنٹ کے سرپرست اعلیٰ میاں سہیل نثار نے کہاکہ شمسی توانائی کی منتقلی، جسے ایک وقت میں پاکستان کے توانائی کے مستقبل کی بنیاد سمجھا جاتا تھا، اب حکومت کی نظر میں بوجھ بن چکی ہے، یہ پالیسیاں عوامی اعتماد اور سرمایہ کاروں کے حوصلے کو تباہ کر رہی ہیں۔
توانائی ماہرین کاکہنا ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی اصل وجہ مالیاتی دباؤ ہے، شمسی صارفین کے گرڈ پر کم انحصار اور زائد بجلی کی فروخت کے باعث بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں اپنے بنیادی اخراجات پورے کرنے سے قاصر ہو گئی ہیں، صرف 2024 میں ہی گرڈ پر انحصار کرنیوالے صارفین پر 159 ارب روپے کا اضافی بوجھ منتقل ہوا، اگر یہی صورتحال جاری رہی تو آئندہ دہائی میں یہ عدم توازن 4000 ارب روپے تک جا سکتا ہے۔
سابق پاور سیکٹر افسر کے مطابق مسئلہ شمسی توانائی نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی ہے، حکومت نے گرڈ کو اپ گریڈ کرنے میں کوتاہی کی، اب وہ اپنی ناکامی کا ملبہ سولر صارفین پر ڈال رہی ہے۔
ماہرین کاکہنا ہے کہ نئے 'گراس میٹرنگ' ماڈل کو مرحلہ وار متعارف کرانا چاہیے تھا ، اس تبدیلی نے ان صارفین کو بھی مایوس کیا ہے جنہوں نے حکومت کی ترغیب پر بھاری سرمایہ کاری کی تھی اور اب وہ اپنے مالی نقصان، غیر یقینی بلنگ اور ممکنہ طور پر اسمارٹ میٹرزکی خفیہ تبدیلی جیسے خدشات کا سامنا کر رہے ہیں۔
توانائی تجزیہ کار فرید حسین کا کہنا تھا کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی جامع اور مربوط توانائی روڈ میپ کی عدم موجودگی ہے، وقتی پالیسیوں سے دیرپا تبدیلی ممکن نہیں، توانائی شعبے کا گردشی قرضہ 2.6 ٹریلین روپے سے تجاوزکر چکااور حکومت نے ناقص نظام کو درست کرنے کے بجائے بوجھ صارفین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
ماہرین اور صنعت کاروں کا متفقہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کو واضح اور مستقل توانائی حکمت عملی کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ملک ان ہی متبادل توانائی حلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جو اس کے مستقبل کو روشن بنا سکتے ہیں۔