ملک میں دماغ کھانے والا وائرس کیسے پھیل رہا ہے ؟ بڑا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
شہر قائد میں دماغ کو کھانے والا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب کے حوالے سے بڑا انکشاف ہوا، جس میں بتایا وائرس کی بڑی وجہ غیر قانونی واٹر ٹینکر کے ذریعے زیر زمین پانی کی سپلائی ہے۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں دماغ کو کھانے والا جراثیم ’نگلیریا‘ ایک بار پھر متحرک ہیں ، ماہرین کا کہنا ہے شہر میں نگلیریا کی سب سے بڑی وجہ غیر قانونی زیرِ زمین پانی کی فروخت ہے ، جو واٹر ٹینکر کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ماہرین نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل کراچی کی 50 یونین کونسلوں سے پانی کے لیے گئے نمونوں میں سے 95 فیصد میں نیگلیریا مثبت آیا تھا۔
شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی ٹینکر کا پانی خریدتی ہے، جس میں زیادہ تر پانی نہ صرف غیر قانونی طریقوں سے حاصل کیا جا تاہے بلکہ غیر معیاری اور کلورین کے بغیر ہوتا ہے جو نیگلیریا کا سب سے بڑا سبب ہے۔کراچی میں سرکاری سطح پر صرف چھ ہائیڈرنٹس سے پانی فروخت کیا جاتا ہے، جس میں کلورین کا استعمال کیا جا تا ہے جبکہ کراچی میں یومیہ درجنوں غیر قانونی ہائیڈرنٹس کے ذریعے زیر زمین کئی ملین روپے کا پانی بیچہ جاتا ہے۔
واٹر بورڈ کے پاس رجسٹرڈ ٹینکرز کی تعداد صرف ۴۰۰ ہے جبکہ شہر میں ۷ ہزار سے زائد ٹینکرز یومیہ پانی کی سپلائِی کرتے ہیں، پانی کے منافع بخش کاروبار میں غیر قانونی سرگرمیوں سے انسانی جان اور ماحولیات کے لیے تباہ کن اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
کراچی میں اسپتال کے اخراجات کی ادائیگی کیلیے نومولود بچہ فروخت کرنے کا انکشاف
شہر قائد کے علاقے میمن گوٹھ میں اسپتال کے اخراجات ادا کرنے کیلیے نومولود کو فروخت کرنے کا انکشاف ہوا جسے خاتون نے خرید کر پنجاب میں کسی کو پیسوں کے عوض دے دیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق میمن گوٹھ میں قائم نجی اسپتال میں شمع نامی حاملہ خاتون ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کیلیے گئی تو وہاں پر ڈاکٹر نے زچگی آپریشن کیلیے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔
خاتون نے جب ڈاکٹر سے رقم نہ ہونے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون بچے کی خواہش مند ہے اور وہ بچے کو نہ صرف پالے گی بلکہ آپریشن کے اخراجات بھی ادا کردے گی۔
خاتون کے آپریشن کے بعد لڑکے کی پیدائش ہوئی جسے ڈاکٹر نے مذکورہ خاتون کے حوالے کیا جس پر والد سارنگ نے مقدمہ درج کروایا۔
والد سارنگ نے مقدمے میں بتایا کہ وہ جامشورو کے علاقے نوری آباد کے جوکھیو گوٹھ کا رہائشی ہے۔ مدعی مقدمہ کے مطابق اہلیہ چند ماہ قبل حاملہ ہونے کے باوجود ناراض ہوکر والدین کے گھر چلی گئی تھی۔
’پانچ اکتوبر کو اہلیہ اپنی والدہ کے ساتھ معائنے کیلیے کلینک گئی تو ڈاکٹر زہرا نے آپریشن تجویز کرتے ہوئے رقم ادائیگی کا مطالبہ کیا، رقم نہ ہونے پر ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ ایک عورت کو جانتی ہیں جو غریبوں کی مدد کرتی اور غریب بچوں کو پالتی ہے‘۔
سارنگ کے مطابق ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ عورت نہ صرف بچے کو پالے گی بلکہ آپریشن کے تمام اخراجات بھی ادا کردے گی، جس پر میری اہلیہ نے رضامندی ظاہر کی تو خاتون شمع بلوچ نے آکر اخراجات ادا کیے اور بچہ لے کر چلی گئی۔
والد کے مطابق مجھے جب لڑکے کی پیدائش کا علم ہوا تو اسپتال پہنچا جہاں پر یہ ساری صورت حال سامنے آئی اور پھر اہلیہ نے شمع بلوچ نامی خاتون کا نمبر دیا تاہم متعدد بار فون کرنے کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہوا کیونکہ موبائل نمبر بند ہے۔
شوہر نے مؤقف اختیار کیا کہ مجھے شبہ ہے کہ شمع نامی خاتون نے میرا بچہ کسی اور کو فروخت کر دیا ہے لہذا قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس نے مقدمے کی تفتیش اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے حوالے کیا۔
اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے کارروائی کرتے ہوئے پنجاب سے بچے کو بازیاب کروا کے والدین کے حوالے کردیا جبکہ اسپتال کو سیل کردیا ہے۔ پولیس کے مطابق شمع بلوچ اسپتال کی ملازمہ ہے اور اُس نے ڈاکٹر زہرا کے ساتھ ملکر یہ کام انجام دیا۔
ایس ایس پی ملیر عبدالخالق پیرزادہ کے مطابق بچے کو شمع بلوچ اور ڈاکٹر زہرا نے ملکر پنجاب میں فروخت کردیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر زہرا اور شمع بلوچ کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے گئے ہیں تاہم کامیابی نہ مل سکی، دونوں کو جلد گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔