امریکی امدادی کٹوتیوں سے مہاجرت پر مجبور بچوں کی دیکھ بھال متاثر
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 مارچ 2025ء) دنیا بھر میں بچے، پناہ گزین اور نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگ امدادی مالی وسائل کے بحران سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں جو امریکہ کی جانب سے بیرون ملک دی جانے والی امداد روکے جانے سے شدت اختیار کر گیا ہے۔
پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) اور ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ امدادی مقاصد کے لیے مالی وسائل کی شدید قلت کے نتیجے میں لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے کا کام خطرے میں ہے۔
Tweet URLاس بحران کے باعث چھوٹے بچوں کی اموات روکنے کی جانب پیش رفت بھی ضائع ہو سکتی ہے جس میں 1990 کے بعد 60 فیصد تک نمایاں کمی آئی ہے۔
(جاری ہے)
نائجیریا سے ویڈیو لنک پر جنیوا میں بات کرتے ہوئے یونیسف کی ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کٹی وان ڈر ہیڈن نے بتایا ہے کہ ادارے کی کوششوں سے 24 سال کے دوران شدید غذائی قلت کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد میں ایک تہائی کمی آئی ہے اور 55 ملین بچوں کی زندگیاں بچائی گئی ہیں۔ تاہم یہ کام حکومتوں، فلاحی اداروں اور نجی شعبے کے تعاون سے ہی جاری رہ سکتا ہے۔
بچوں اور ماؤں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے عطیہ دہندگان کا تعاون بہت ضروری ہے جس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں۔بچوں ماؤں کی صحت کو خطرہکٹی ہیڈن نے بتایا کہ امدادی وسائل میں آنے والی حالیہ کمی کے باعث بہت سی جگہوں پر ماں اور بچے کی زندگی متاثر ہو گی۔ چونکہ متعدد عطیہ دہندگان نے وسائل کی فراہمی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اس لیے یہ مسئلہ اور بھی گمبھیر صورت اختیار کر گیا ہے۔
رواں سال 146 ممالک میں تقریباً 213 ملین بچوں کو ضروری انسانی امداد درکار ہو گی اور وسائل کی قلت کے سبب رواں سال نائجیریا اور ایتھوپیا میں تقریباً 13 لاکھ بچے ضروری مدد اور غذائیت تک رسائی کھو سکتے ہیں۔ایتھوپیا کے دور دراز علاقے عفار میں یونیسف کے زیراہتمام 30 متحرک شفا خانے چلائے جاتے ہیں اور مالی وسائل کی فراہمی بند ہو جانے کے باعث اب ان میں سات ہی فعال رہ گئے ہیں۔
نئے وسائل میسر نہ آئے تو یونیسف کے لیے اس مدد کی فراہمی برقرار رکھنا ممکن نہیں ہو گا اور اس طرح 70 ہزار بچوں کی زندگی متاثر ہو گی جو ان طبی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں۔ اسی طرح، نائجیریا میں ادارے کو مئی تک ضروری طبی سازوسامان کی شدید قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کی غیرضروری اموات کو روکنے کے لیے بیماریوں کی بروقت تشخیص، روک تھام اور غذائیت کی فراہمی ضروری ہے۔
محض علاج معالجہ ہی اہم نہیں ہوتا بلکہ مرض کو لاحق ہونے سے پہلے یا ابتدائی مراحل میں روکنا بھی لازم ہے۔ یونیسف اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹے گا تاہم، اس معاملے میں عالمی برادری کو بھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔پناہ گزین مدد سے محرومامدادی وسائل کی قلت کے باعث 'یو این ایچ سی آر' نے بھی اپنی امدادی کارروائیوں اور پروگراموں میں کمی لانے کا اعلان کیا ہے۔
ادارے کے ترجمان میتھیو سالٹ مارش نے بتایا ہے کہ امریکہ کی جانب سے بیرون ملک امداد روکے جانے کے بعد 'یو این ایچ سی آر' نے اپنے ہیڈکوارٹر اور دنیا بھر میں واقع دفاتر کے اخراجات کو کم کیا ہے۔ وسائل کی بچت کے لیے ادارہ اپنے عملے کی تعداد میں بھی کمی لا رہا ہے اور اس حوالے سے جائزے کی کارروائی جاری ہے۔ اس صورتحال میں دنیا بھر کے پناہ گزینوں کی زندگی متاثر ہو گی۔
ادارے نے جنوبی سوڈان، بنگلہ دیش اور یورپ میں پہلے ہی اپنے متعدد امدادی اقدامات روک دیے ہیں اور ترکیہ جیسے ممالک میں اسے اپنے دفاتر کو بند کرنا پڑا ہے۔ اسی طرح ایتھوپیا میں موت کے خطرات کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے قائم کی جانے والی پناہ گاہ میں کام بھی بند ہو گیا ہے۔
جنوبی سوڈان میں تشدد کے خطرات سے دوچار خواتین اور لڑکیوں کے لیے قائم کردہ 25 فیصد پناہ گاہیں ہی فعال رہ گئی ہیں جبکہ ملک میں 80 ہزار لوگوں کو نفسیاتی، قانونی اور طبی امداد کی فراہمی بند ہو گئی ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی فراہمی متاثر ہو وسائل کی کی زندگی کے باعث بچوں کی کے لیے
پڑھیں:
پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے. پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے. کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے.اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے. اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے. نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے. گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی. پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔ انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں. تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے. کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے. بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے. لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے. مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔انہوں نے کہا وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی. جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے. بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے. ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا. ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا. میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں. ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔