حماس کے سینئر رہنما صلاح البردویل اہلیہ سمیت اسرائیلی حملے میں شہید
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سینئر رہنما صلاح البردویل اپنی اہلیہ سمیت اسرائیلی حملے میں شہید ہوگئے، دونوں پناہ گزین خیمے میں موجود تھے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کی غزہ میں بربریت جاری ہے اور حملوں میں کئی فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل نے غزہ کے مختلف حصوں میں شدید بمباری کی ہے جن میں کم از کم 35 افراد شہید ہو چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حملے میں حماس کے سیاسی بیورو کے رہنما صلاح البردویل اہلیہ سمیت شہید ہوگئے، وہ حماس کے سرکردہ رہنما اور فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن بھی تھے۔
مقامی ذرائع کے مطابق یہ حملہ خان یونس کے علاقے مواسی میں اس وقت ہوا جب البردویل اور ان کی اہلیہ رمضان کی 23ویں شب کے موقع پر نماز ادا کر رہے تھے۔ وہ جنگ کے دوران اسی پناہ گاہ میں مقیم تھے۔
دوسری جانب غزہ جنگ کے دوبارہ آغاز اور سکیورٹی ایجنسی چیف کو عہدے سے ہٹانے کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق ہفتے کی شب ہزاروں افراد نے تل ابیب میں اسرائیلی وزارت دفاع کے دفتر کے باہر احتجاج ریکارڈ کرایا۔
رپورٹ کے مطابق مظاہرین نے اسرائیلی سکیورٹی ایجنسی شِن بیت کے سربراہ کو عہدےسے ہٹانےاور مغویوں کی واپسی کے بجائے غزہ جنگ دوبارہ شروع کرنے کے نیتن یاہو حکومت کے فیصلوں کے خلاف احتجاج کیا۔
واضح رہےکہ نیتن یاہو نے چند دن قبل شِن بیت کے سربراہ رونن بار کو عہدے سے برطرف کردیا تھا مگر بعد ازاں اسرائیل کی سپریم کورٹ نے نیتن یاہو حکومت کا فیصلہ معطل کردیا تھا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا نادر موقع ضائع کر دیا؛ رپورٹ
گزشتہ برس اسرائیل ایران کے جوہری تنصیبات کے حفاظتی دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
اسرائیلی اخبار "یروشلم پوسٹ" کے مطابق اسرائیل کو یہ نادر موقع اُس وقت ہاتھ آیا جب اپریل 2024 کو ایران نے اسرائیل پر سیکڑوں میزائل اور ڈرونز سے حملہ کیا تھا۔
ایران کے اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے اصفہان میں واقع ایک S-300 طرز کا ایرانی فضائی دفاعی نظام کو نشانہ بنایا۔
اسرائیل کے پاس موقع تھا تھا کہ دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے بعد جوہری تنصیبات پر بآسانی حملہ کرکے اسے تباہ کردیتا۔
تاہم اسرائیل نے صرف دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے پر اکتفا کیا اور جوہری تنصیبات کو چھوڑ دیا۔
اس دوران اسرائیل کی سیاسی و عسکری قیادت نے بند دروازوں کے پیچھے تین اہم اجلاس کیے۔
ان میں اس بات پر غور کیا گیا کہ اب ہم ایرانی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں اور یہ نادر موقع ہے۔
عین ممکن تھا کہ اسرائیلی قیادت ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی اجازت دیدی لیکن امریکا نے مداخلت کی اور حملہ رکوادیا تھا۔
اُس وقت کی امریکی قیادت کا خیال تھا اگر اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تو خطے میں ایک خطرناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔
قبل ازیں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے ایران کی جوہری صلاحیت کو ایک سال پیچھے دھکیلنے کے لیے مئی میں حملہ کا منصوبہ بنایا تھا۔
تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے فوجی کارروائی کے بجائے سفارتی راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔