صدر مملکت نے روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار سرور منیر راؤ کو اعلیٰ سول ایوارڈ سے نواز دیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام آباد:
میڈیا مینجمنٹ اورنشریاتی اداروں میں کئی دہائیوں پر محیط تجربے اور پیشہ وارنہ خدمات کے اعتراف میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار ممتاز میڈیا ایگزیکٹو سرور منیر راؤ کو تمغہ امتیاز سے نواز ا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایوان صدر میں قومی اعزازات کی تقسیم کی پروقار تقریب ہوئی جس میں صدر مملکت نے سنیئر صحافی کالم نگار سرور منیر راو کوتمغہ امتیاز سے نوازا۔
صدر مملکت نے سرور منیر راؤ کیساتھ مصافحہ کیا اور انہیں پیشہ ورانہ خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز پیش کرتے ہوئے انہیں مبارکباد دی۔
سرور منیر راوٴایک ممتاز میڈیا ایگزیکٹو ہیں، جنہیں نشریاتی اداروں میں کئی دہائیوں پر محیط تجربہ حاصل ہے۔ آپ خبروں، حالاتِ حاضرہ اور میڈیا مینجمنٹ کے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔
پاکستان ٹیلی ویڑن (پی ٹی وی) کے سابق ڈائریکٹر نیوز اور کرنٹ افیئرز کی ذمہ داریاں نبھانے کے علاوہ راوٴ صاحب نے پی ٹی وی گلوبل، پی ٹی وی ٹریننگ اکیڈمی اور ڈائریکٹر انٹرنیشنل ریلیشنز کے طور پر بھی خدمات انجام دیں وہ جنرل مینیجر کہ عہدے پر بھی فائض رہے۔
سرور منیر راو کو پارلیمانی اور سفارتی رپورٹنگ، کے ساتھ انہیں کنفلیکٹ رپورٹنگ کا بھی منفرد تجربہ حاصل۔
اپنے 50 سالہ صحافتی کیریئر میں انہوں نے سی این این اور بی بی سی نیوز نیٹ ورکس کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔وہ پہلے پاکستانی صحافی تھے، جنہوں نے 2003 میں براہ راست امریکہ-عراق جنگ کے محاذ سے رپورٹنگ کی۔
ان کی کتاب ”میں نے بغداد جلتے دیکھا“ اپنے وقت کی بہترین فروخت ہونے والی کتاب ثابت ہوئی۔ انہوں نے موغادیشو سے صومالیہ کی خانہ جنگی اور 1991 میں کویت-عراق خلیجی جنگ کی بھی براہ راست کوریج کی۔
سرور منیر راوٴ اپنی مصروف ترین صحافتی زندگی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کے پہلو کو کبھی نظر انداز نہ کیا۔
وہ مختلف جامعات کے بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن ہیں۔انہیں یونیورسٹی کی سطح پر میڈیا کے مضمون میں "پروفیسر آف پریکٹس" کے اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
سرور منیر راوٴ صاحب قومی اخبارات میں کالم بھی تحریر کرتے ہیں اور وہ گزشتہ پانچ برس سے روزنامہ ایکسپریس میں باقاعدگی سے کالم لکھ رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صدر مملکت
پڑھیں:
وطن لوٹنے والے افغان مہاجرین کو تشدد اور گرفتاریوں کا سامنا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا ہے کہ پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس آنے والے متعدد افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں حکام کی جانب سے تشدد، بدسلوکی اور ناجائز حراستوں سمیت انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا سامنا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن اور 'او ایچ سی ایچ آر' کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپس آںے والے افغانوں میں خواتین، لڑکیوں، سابق حکومت اور اس کی فوج سے تعلق رکھنے والے لوگوں، ذرائع ابلاغ کے کارکنوں اور سول سوسائٹی کے ارکان کو کہیں زیادہ خطرات لاحق ہیں۔
Tweet URLاقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے کہا ہے کہ کسی مہاجر یا پناہ گزین کو ایسے ملک میں واپس جانے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جہاں اسے اپنی شناخت یا ماضی کی بنا پر مظالم کا خدشہ ہو۔
(جاری ہے)
افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے یہ معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے جہاں محض صنفی بنیاد پر ہی ان کے حقوق سلب کر لیے گئے ہیں۔خفیہ زندگی، تشدد اور مظالمرپورٹ میں گزشتہ سال واپس آنے والے 49 لوگوں سے کی گئی بات چیت کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ان میں شامل سابق حکومت اور فوج کے اہلکار افغانستان میں انتقامی کارروائی کے خوف سے خفیہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالانکہ طالبان حکام نے اعلان کیا تھا کہ ماضی میں ان کے خلاف لڑنے والوں کو عام معافی دی جائے گی۔
اگست 2021 میں طالبان کے برسراقتدار آںے کے بعد ملک چھوڑ دینے والی ٹیلی ویژن کی ایک سابق رپورٹر نے بتایا کہ ملک میں واپسی کے بعد انہیں اور دیگر خواتین کو نہ تو روزگار کے مواقع دستیاب ہیں اور نہ ہی انہیں تعلیم اور نقل و حرکت کی آزادی ہے۔ ان حالات میں وہ خود کو گھر میں نظربند محسوس کرتی ہیں۔
ایک سابق سرکاری عہدیدار نے بتایا کہ 2023 میں افغانستان واپس آںے کے بعد انہیں دو راتوں تک ایک گھر میں بند کر کے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس دوران طالبان حکام نے انہیں ڈنڈوں اور تاروں سے مارا پیٹا، پانی میں غوطے دیے اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر بناوٹی طور پر پھانسی دی۔ اس تشدد کے نتیجے میں ان کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی۔ملک بدری سے گریز کا مطالبہپناہ گزینوں کو ایسے ملک میں واپس بھیجنا بین الاقوامی قانون کی سنگین پامالی ہے جہاں انہیں مظالم، تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزا، جبری گمشدگی یا دیگر ناقابل تلافی نقصان کا خطرہ ہو۔
رپورٹ میں رکن ممالک پر زور دیاگیا ہے کہ وہ اپنے ہاں مقیم کسی افغان فرد کو اس کے ملک میں واپس بھیجنے سے قبل یہ جائزہ ضرور لیں کہ کہیں اسے واپسی پر اپنے حقوق کی پامالی کا خدشہ تو نہیں۔ جن لوگوں کو ایسا خطرہ لاحق ہو انہیں ملک بدر نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں، رکن ممالک خطرات سے دوچار افغانوں کو ملک چھوڑنے اور اپنے ہاں گرفتاری یا ملک بدری کے خوف سے بے نیاز ہو کر رہنے کے لیے محفوظ راستے مہیا کریں۔
2023 سے اب تک لاکھوں افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران سے غیررضاکارانہ طور پر واپس جا چکے ہیں جس کے باعث افغانستان میں محدود وسائل پر بوجھ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ رپورٹ میں رکن ممالک سے افغانوں کے لیے امدادی مالی وسائل میں اضافے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔
امدادی وسائل کی ضرورتافغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن کی سربراہ روزا اوتنبائیوا نے کہا ہے کہ اگرچہ افغان حکام نے حالیہ برسوں کے دوران ملک میں واپس آنے والوں کو ضروری مدد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن سبھی لوگوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم کرنے اور ان کے حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے مزید اقدامات اور وسائل کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں تمام افغانوں کی شرکت بہت ضروری ہے۔ انہوں نے افغان حکام پر زور دیا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اور افغان لوگوں سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔