ماضی زندگی کا حصہ ہے اور کسی بھی شخص کی زندگی سے اس کے ماضی کو جدا نہیں کیا جا سکتا ، جو وقت گزر چکا وہ واپس نہیں آسکتا ۔
گزرے وقت میں کسی کے ساتھ جو واقعات و حادثات پیش آئیں یہ اس کی شخصیت اور آنے والی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے مگر وہ لاشعوری طور پر اپنے ماضی کو اپنی عادت، معاملات اور نفسیات میں موجود پاتا ہے۔ ماضی انسان کی ذات کا حصہ ہے اور اس کی شخصیت کو جب بھی کل میں دیکھا جائے گا ماضی کی چھاپ دکھائی دے گی ۔
ٹروما یا صدمہ کسے کہتے ہیں؟
ٹروما یا صدمہ کسی واقعے کے نتیجے میں پہنچنے والا زبردست اور زورآورجذباتی ردعمل ہے۔ ان واقعات سے وابستہ جذباتی اور جسمانی تکلیف کا ٹھیک ہونا تب ہی ممکن ہے کہ ماضی کے صدمے سے نکلنے کا طریقہ معلوم ہو۔ ٹروما یا صدمہ زندگی میں پیش آنے والے مختلف پریشان کن واقعات کا نتیجہ ہو سکتا ہے جیسے بچپن یا نوجوانی میں تشدد، بدسلوکی، ناخوشگوار واقعات، نقصان وغیرہ۔ کسی تکلیف دہ واقعے کا احساس اور اس کے نتائج سے گزرنا مشکل ہے، تاہم آگاہی اور نگہداشت سے اس کا موثر علاج مل سکتا ہے۔
ایسے میں اکثر لوگوں کو یادیں اور پریشان کن خیالات آتے ہیں، فلیش بیکس، ڈراونے خواب، نیند میںکمی، یادداشت کے مسائل، مسلسل پریشان کن خیالات، بشمول خوف، شرم، غصہ، بے چینی، ڈپریشن،چڑچڑاپن، تنہائی، دستبرداری، لاتعلقی شامل ہیں۔ بہت سے واقعات ٹروما کا سبب ہو سکتے ہیں جیسے کسی قریبی شخص کی اچانک موت، طلاق یا کسی تعلق کا ختم ہو جانا، جسمانی، جذباتی یا جنسی استحصال، حادثات، بدسلوکی یا تشدد، جنگ اور اس کے عناصرکی نمائش، کسی ناگہانی آفت سے بچنا، شدید ذہنی دباؤ وغیرہ۔
پاسٹ ٹروما زندگی سے کبھی نہیں جاتا:
نادیہ ایک سوشل ایکٹیوسٹ اور ورکنگ لیڈی ہیں وہ اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہتی ہیںکہ میں بظاہر ایک بے حد خوش حال زندگی بسر کر رہی ہوں، میرے بچے ہیں، ایک محبت کرنے والا شوہر ہے لیکن میرے اندر یہ ڈر جیسے بیٹھ گیا ہے کہ وہ مجھے چھوڑ دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے شوہر سے لو میرج کی لیکن ان کی زندگی میں ماضی کے کچھ واقعات ایسے ہیں جو ان کو اندر ہی اندر پریشان رکھتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا کہ وہ کیا وجوہات ہیں جو انھیں پریشان رکھتی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ’’ میرے والدین کا تعلق کچھ خوش گوار نہیں گزرا، شعور کی سیڑھی پہ قدم رکھتے ہی میں نے اپنے والدین کو آپس میں لڑتے دیکھا اور اپنے والد کو والدہ سے بدگمان دیکھا ‘‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ،’’میری والدہ ایک خوبصورت خاتون تھیں جبکہ میر ے والدہ واجبی شکل و صورت کے حامل مرد، ایسے میں خاندان کے لوگوں کا میری والدہ کو لے کر منفی پروپیگنڈاہ اور جوائنٹ فیملی کے سازشی ماحول نے میرے ماں باپ کے درمیان رشتے کو کبھی مضبوط ہی نہیں ہونے دیا، اور پھر بات کردار کشی سے طلاق تک جا پہنچی‘‘۔ طلاق کے بعد میرے والد نے دوسری شادی تو نہ کی لیکن میرے اندر جو خلاء اور خوف پیدا ہوا وہ آج بھی موجود ہے۔ وہ کہتی ہیں پاسٹ ٹروما زندگی سے کبھی نہیں جاتا اور ہمیں باقی زندگی اسی کے ساتھ گزارنی ہوتی ہے۔
عالم اپنے پاسٹ ٹروما کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جب چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے تو انھوں نے ایک فلم دیکھی جس میں ہیرو ہکلاتا تھا، وہ اس سے اس قدر متاثر ہوئے کے انھوں نے جان بوجھ کر ہکلانا شروع کر دیا اور اس دوران ان کے اردگرد کے لوگوں خصوصاً والدین نے بھی اس پر کوئی توجہ نہ دی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی یہ عادت پختہ ہو گئی۔
اور پھر انھیں احساس ہوا کے ہکلانا ایک بری چیز ہے لیکن اس وقت تک وہ ان کی شخصیت کا حصہ بن چکی تھی اور اس نے ان کے کانفیڈینس اور سوشل لائف کو بری طرح متاثر کیا، وہ کالج اور یونیورسٹی میں ہمیشہ کلاس سے غائب رہنے کی کوشش کرتے کہ کہیں ٹیچر ان سے کوئی سوال نہ کر لے اور سب پہ یہ راز نہ کھل جائے کے و ہ ہکلاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اٹینڈینس کے دوران پریزنٹ بولنے کے لئے بھی وہ اپنے دوست کی مدد لیا کرتے تھے۔
اس چیز نے ان کے اندر مزید نفسیاتی پیچیدگیوں کو بھی جنم دیا، وہ او سی ڈی کا بھی شکار ہوگئے۔ اور تقریباً ایک دہائی اس اذیت میں گزارنے کے بعد انھوں نے ماہرین سے رجوع کرنے کی کوشش کی، اس میں ان کے بڑے بھائی نے بھی انھیں سپورٹ کیا اور ایک طویل عرصے بعد وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہوئے لیکن تاحال وہ کبھی کبھی اس ٹروما کے زیر اثر آکر ہکلانے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںکہ ایڈونچر میں اپنائی جانے والی یہ عادت میری زندگی کو اس قدر بری طرح سے متاثر کرے گی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ اگر بڑے اور والدین اسی وقت میری اس عادت کو پکڑ کر سرزنش کرتے تو شاید مجھے اس قدر خطرناک نتائج سے نہ گزرنا پڑتا ۔
ماہ جبین اپنے ٹروما کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ اپنے والد اور جوان بھائی کی موت کے پہ در پہ صدمے سے بالکل ٹوٹ کر رہ گئیں تھیں ۔ والد کی موت پہ تو خود کو سمجھا لیا تھا کہ ایک نہ ایک دن سب کو اللّٰہ کے پاس جانا ہے لیکن جب اچانک جوان بھائی کی موت ہوئی تو وہ ٹروما میں چلی گئیں۔ اور اس دوران سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ لوگوں نے ان کے دکھ کو سمجھنے کے بجائے ان کے بارے میں منفی رائے قائم کی اور ان پر طرح طرح کی باتیں کیں۔ جس سے وہ ٹروما سے نکلنے کے بجائے مزید صدمے کا شکار ہوگئیں۔
وہ اس دوران اپنی صورت حال کو بتاتے ہوئے کہتی ہیںکہ،’’ مجھے فٹس پڑنا شروع ہوگئے، مجھے جسم کے مختلف حصوں میں درد رہنے لگا اور مجھے کہیں بھی درد ہوتا تو یوں لگتا کہ اب میں مرنے والی ہوں‘‘۔ کام کرنا میری مجبوری تھی لیکن لوگ اس وقت میری کیفیت کو سمجھ ہی نہیں رہے تھے کہ میں کس صورت حال سے گزر رہی ہوں اور ہر کوئی یہ کہتا تھا کہ یہ زیادہ ہی دکھی ہونے کی کوشش کر رہی ہے، کوئی کہتا کہ یہ لوگوںکی ہمددریاں بٹورنے کے لئے ایسا کرتی ہے۔ مگر دراصل مجھے سمجھ ہی نہیں آتا تھا کہ میرے اردگرد کیا چل رہا ہے، میرے اندر جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کمزور ہو گئی تھی،کسی سے بات کرنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ ماہ جبین کہتی ہیں کہ ’’اس وقت لوگوںکی باتوںاور رویوں کی تلخی مجھے کبھی نہیں بھولے گی اور ایک وقت آیا کہ میں اللّٰہ سے کہتی تھی کہ مجھ سے محسوس کرنے کی صلاحیت ہی چھین لے!‘‘۔اس سب میں بہت کم لوگ تھے جنہوں نے مجھے ٹروما یعنی صدمہ سے نکلنے میں مدد دی ۔
میں نے طبی مدد بھی لی اور ڈاکٹر نے دوائیاں بھی دیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ آپ مسلسل منفی ماحول اور سوچوں کی وجہ سے جسمانی و نفسیاتی دباؤ کے زیر اثر ہیں،آپ کو اس صورت حال سے نکلنے کے لئے اگرکوئی کچھ کر سکتا ہے تو وہ آپ خود ہیں۔ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ آپ جب اپنے ذہن کو سگنل دینے لگیں گی کہ آپ صحت یاب ہو رہی ہیں تو معاملات خود بہتر ہونے لگیں گے۔ اس دور میں میرے قریبی دوستوں اور خصوصاً اللّٰہ سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش نے میرا بہت ساتھ دیا ۔ پھر جو بھی خیالات میرے ذہن میں آتے تھے وہ میں لکھ لیتی تھی تو اس سے کیتھارسس یعنی تزکیہ نفس کا موقع ملتا تھا۔
وہ کہتی ہیں ٹروما سے تو شاید انسان قدرت کا لکھا سمجھ کر نکل ہی آتا ہے لیکن لوگوں کے منفی رویوں سے وہ ایک نئے ٹروما میں چلا جاتا ہے ۔ وہ کہتی ہیں،’’ میں اپنی فیملی کے لئے مضبوط بنی ہوں لیکن ابھی بھی کسی کی موت کی خبر مجھے ہلا کر رکھ دیتی ہے اور مجھے یوں لگتا ہے جیسے پھر سے سب میرے ذہن میں گونجتا ہے۔ لیکن اللّٰہ پہ توکل مجھے جینے کا حوصلہ دیتا ہے‘‘۔ ماہ جبین کی کہانی میں ٹروما سے منسلک ایک اور پہلو سامنے آتا ہے کہ صدمے سے گزرنے والوں پر اردگرد کے رویے کس قدر گراں گزرتے ہیں ۔ اور مشکل وقت میں کسی کا ساتھ انسان کو دکھ سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔
اکرام کا ایکسیڈنٹ ہوئے ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے لیکن تاحال انھیں سڑکیں پار کرنے سے خوف محسوس ہوتا ہے ۔ سڑک پار کرتے ہوئے جب ان کا ایکسیڈنٹ ہوا تو اس سے پہلے وہ بے خوف ہو کر مصروف سے مصروف شاہراہ کو بھی پار کرنے سے نہ گھبراتے تھے لیکن ان کے ایکسیڈنٹ کے بعد تو ایک لمبے عرصے تک اس ٹروما میں رہے کہ وہ سڑک پار کریں گے تو ان کا ایکسیڈنٹ ہو جائے گا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس ڈر پر قابو تو پا لیا ہے لیکن تاحال انھیں سڑک پار کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے جیسی بے خوفی اور اعتماد اب وہ چاہ کر بھی واپس نہیں لا سکتے ۔
اکثر بچے سکول جانے سے ڈر تے ہیں اور ضد کرتے ہیں کے وہ سکول نہیں جانا چاہتے، جس کی وجہ وہ اکثر بیان بھی نہیں کر پاتے کیونکہ وہ بعض اوقات لاشعوری طور پر کسی خوف کے زیر اثر ہوتے ہیں ۔ نور بتاتی ہیں کہ جب وہ سکول میں داخل ہوئیں تو انھوں نے اپنے ساتھ کے بچوںپر ٹیچرز کو تشدد کرتے دیکھا اور ان کے لاشعور میں یہ خوف بیٹھ گیا کہ اگر مجھے ایک لفظ بھی بھولا تو میرے ٹیچر مجھے ماریں گے اور اس ڈر کی وجہ سے وہ سکول نہ جانے کی ہر ممکن کوشش کرتی تھیں۔
لائق سٹوڈنٹ ہونے کے باوجود وہ سکول جانے سے گریز کرتیں اور دعا کرتی کہ سکول میں چھٹیاں ہو جائیں، یہاں تک کہ وہ اپنے بیمار ہونے کی دعائیں مانگا کرتیں تاکہ گھر والے انھیں سکول جانے پر مجبور نہ کریں ۔ وہ بتاتی ہیںکہ،’’ بدلاؤ اس وقت آیا جب میں جماعت نہم میں تھی اور ایک ایسی ٹیچر ملیں جو بہت فرینڈلی اور پیار سے پیش آنے والی تھیں، وہ بچوں کی غلطی پر بھی انھیں صرف ڈانتی تھیں، مارنے سے اجتناب کرتی تھیں‘‘۔ یوں اس ٹیچر کے آنے سے ان میں سکول جانے کی خواہش پیدا ہوتی اور وہ ڈر جو کہیں دل میں تھا ختم ہو گیا۔ اس کے بعد وہ پوری طرح سے پڑھائی میں دل لگا کر محنت کرنے لگیں لیکن تاحال اگر وہ سوشل میڈیا پر یا اردگرد ایسے کسی واقعے کے بارے میں سنتی ہیں تو دل بہت سہم جاتا ہے ۔
اسی طرح کے اور بھی لاتعداد واقعات لوگوں کے ساتھ رونما ہوتے ہیں جو ساری عمر ان کے اندر ایک خوف بن کر ٹھہر جاتے ہیں اور یہی خوف انھیں زندگی کو بھر پور انداز میں جینے سے روکتا ہے۔ جب کوئی ٹروما انھیں نارمل لائف سے دور کر دیتا ہے تو وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں نفسیاتی مسائل کو لے کر حساسیت نہیں جس کی وجہ سے یہ طول پکڑ کر ذہنی بیماریوں کی شکل اختیارکر لیتے ہیں ۔
صدمہ یا ٹروما سے کیسے ڈیل کیا جائے؟
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اکثر جب کوئی ٹروما یا صدمہ سے گزر رہا ہوتا ہے تو وہ خود اس کیفیت کا ادراک نہیں کر پا رہا ہوتا، ایسے میں اگر اردگرد کے لوگ اس کی مدد نہ کریں تو اس کے لئے اس صورت حال سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔
کسی بھی مسئلے سے نکلنے کے لئے پہلے اس کا ادراک ہونا ضروری ہے۔ لوگوں میں اس کی وجوہات اور شدت مختلف ہو سکتی ہے۔ لیکن اس سے نکلنے کے لئے کچھ بنیاد ی اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
جیسے اپنے سپورٹ سسٹم سے جڑے رہنا ، صحت مند سرگرمیاں تلاش کرنا ، ورزش ، جم ، کھیل، متوازن غذاء، پرسکون نیند ایسے گروپس میں شرکت جو مثبت سرگرمیوں میں مشغول ہو ، دماغی صحت کے پیشہ ور سے مدد لینا، تھراپی وغیرہ۔ پاسٹ ٹروما سے نکلنا مشکل ضرور ہوتا ہے لیکن ناممکن نہیں ۔ اور اس ضمن میں پیشہ وارانہ مدد لینے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ اچھے لوگوں کا ساتھ ، تھراپی اور مثبت سوچ ہی انسان کو ٹروما سے نکلنے میں معاونت فراہم کر سکتے ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ سے نکلنے میں کے بارے میں سے نکلنے کے لیکن تاحال پاسٹ ٹروما سکول جانے ا ہے لیکن صورت حال کہتی ہیں بھی نہیں کہتے ہیں انھوں نے تھا کہ ا ہوتا ہے کے ساتھ نے والی کی کوشش کی موت اور اس کی وجہ ہیں کہ کے بعد کے لئے
پڑھیں:
سروس کی اگلی پرواز… پی آئی اے
(بیتے دنوں کی یادیں)
1997کے انتخابات کے نتیجے میں میاں نوازشریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ اُس وقت جرائم کی روک تھام ان کی ترجیحِ اوّل تھی۔ اس کے لیے انھوں نے پولیس افسروں کی لسٹیں بنانی شروع کردیں۔ وزیرِ اعلیٰ نے آتے ہی جب ایس پی لاہور طارق سلیم ڈوگر کو ہٹادیا تو مجھ سے رابطہ کرکے مجھے ایس ایس پی لاہور کا چارج سنبھالنے کا کہا۔ میں نے معذرت کی مگر جب انھوں نے اور آئی جی صاحب دونوں نے زور دیا تو میں نے یہ ذمّے داری قبول کرلی۔
لاہور پولیس کے سربراہ کے طور پر بڑی معرکہ آرائیاں ہوئیں۔جرائم کی روک تھام کے علاوہ بھی کئی محاذوں پر لڑنا پڑا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دس گیارہ مہینے کے بعد مجھے ہٹادیا گیا۔ اس پر کبھی تفصیل سے لکھوں گا۔ مجھے لاہور پولیس کی سربراہی سے ہٹوانے کے لیے کئی فورسز اکٹھی ہوگئی تھیں۔ دو ٹولے سب سے زیادہ سرگرم تھے، پہلا اُن سیاسی لوگوں کا تھا جن کی پولیس کے انتظامی معاملات میں مداخلت بند ہوئی تھی اور جن کے کہنے پر ایس ایچ او اور ڈی ایس پی لگنے بند ہوگئے تھے۔
دوسرا ٹولہ کچھ بیوروکریٹوں کا تھا جو اپنی میٹنگوں میں اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے تھے کہ موجودہ ایس ایس پی (راقم) کچھ دیر مزید رہا تو یہ لاہور میں پولیس کے پرانے اور فرسودہ نظام (جس کی وجہ سے ان کی چودھراہٹ قائم تھی) کی جگہ دہلی اور ڈھاکہ والا جدید میٹرو پولیٹن پولیسنگ سسٹم لے آئے گا، جس کی وجہ سے ہمارا ڈی سی آفس irrelevant یا کمزور ہوجائے گا۔ بدقسمتی سے اُن کا نظرّیۂ حیات یہی ہے کہ صدیوں پرانے فرسودہ سسٹم کو تحفّظ دیا جائے تاکہ ہماری چوہدراہٹ قائم رہے۔ کچھ بدنام قسم کے صحافی (جو اپنی مرضی کے ایس ایچ او لگوانے اور پھر ان سے ماہانہ معاوضہ وصول کرنے کے عادی تھے) بھی اُن کے ساتھ شامل تھے۔
بہرحال لاہور کی ذمّے داری سے سبکدوش ہونے کے بعد میں گاؤں آگیا اور کتابوں اور کاشتکاری میں دل لگانے لگا۔ اس دوران گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا کی وجہ سے میری صحت بہت اچھی ہوگئی بلکہ وزن کچھ بڑھ گیا۔ دو ڈھائی مہینے کے بعد ایک روز مجھے پیغام ملا کہ ’’آپ کو وزیرِاعلیٰ شہباز شریف صاحب نے کل رائیونڈ میں ملاقات کے لیے بلایا ہے‘‘۔ دوسرے روز میں ملاقات کے لیے گیا تو مجھے دیکھتے ہی شہبازشریف صاحب نے کہا ’’آپ کافی ویٹ گین کرگئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا ’’جی لاہور کی ذمّے داری سے فارغ تھا، کوئی ٹینشن بھی نہیں تھی اور پھر گاؤں کی خالص خوراک اور صاف آب وہوا میّسر آئی تو اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا‘‘۔ ملاقات کے دوران میں نے اُن کے فیصلے پر تنقید کی کہ ’’دنیا بھر میں یہ فارمولا کہیں نہیں ہے کہ کوئی واقعہ ہونے پر قصور نہ بھی ہو تب بھی پولیس افسروں کو ہٹادیا جائے۔ ہر جگہ سنگین ترین واقعے کے بعد بھی دیکھا جاتا ہے کہ کوتاہی یا قصور کس کا ہے؟ کوتاہی نہ ہونے کے باوجود پولیس چیف کے خلاف کارروائی کرنے سے فورس کے مورال پر بہت منفی اثر پڑتا ہے‘‘۔
ان کی باتوں سے اندازہ ہوگیا کہ انھیں اپنے غلط فیصلے کا احساس ہوچکا ہے کیونکہ ان کا رویّہ مدافعانہ رہا۔ کچھ دیر بعد چیف منسٹر صاحب مجھ سے پوچھنے لگے ’’اب آپ کہاں لگنا چاہیں گے؟ آپ کو فیصل آباد لگادیں‘‘؟ میں نے لاہور کے بعد پنجاب میں کوئی اور پوسٹنگ لینے سے معذرت کرلی۔ میں ان سے ملاقات کے بعد کمرے سے نکلا تو پرائم منسٹر نوازشریف صاحب نظر آگئے جو اُسی جانب آرہے تھے۔ اُن سے سلام دعا ہوئی تو کہنے لگے ’’میں نے آپ سے کہا تھا کہ پنجاب نہ جائیں وہ آپ کو خراب کریں گے۔ اب آپ اسلام آباد آکر پھر اپنی ذمّے داریاں سنبھال لیں‘‘ اتفاق سے ان کے اسٹاف آفیسر رؤف چوہدری بھی ان کے ساتھ تھے، انھیں ہدایات دے دی گئیں اور ایک دو روز بعد میری ایک بار پھر پرائم منسٹر آفس میں تعیّناتی ہوگئی۔
چند روز بعد پی ایم آفس کی نئی بلڈنگ میں پہنچا تو پورچ میں ہی پرانے اسٹاف نے ریسیو کیا، میرا پرانا پی اے/ اسٹینو مجھے اپنے آفس کی طرف لے جاتے ہوئے بتارہا تھا کہ ’’سر! یہ سیف الرحمٰن صاحب کے نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی سیل (جنرل مشرّف کے دور میں اسے سیل کی بجائے بیورو بنادیا گیا) کے دفاتر ہیں، اچانک میری نظر ایک تختی پر رک گئی۔
لکھا تھا ’’ فلاں ڈائریکٹر جنرل‘‘ میں نے اپنے پی اے سے پوچھا کہ اس نام کا ایک افسر تو صوبہ سرحد کا وہ بیوروکریٹ تھا جسے پرائم منسٹر نے چند ماہ پہلے کرپشن کی بناء پر معطّل کیا تھا۔ پی اے کہنے لگا ’’جی سر یہ وہی صاحب ہیں‘‘ اتنے میں سامنے سے سیف الرّحمٰن آتے ہوئے نظر آئے، میں نے ان سے ملتے ہی حیرانی اور تشویش بھرے لہجے میں پوچھا ’’سیف صاحب! کل کے چور آج آپ کے ساتھی بن گئے ہیں؟ کرپشن میں معطّل ہونے والے شخص کو آپ نے ڈائریکٹر جنرل لگا لیا ہے لہٰذا اب تو خوب اکاؤنٹیبلیٹی ہوگی!!‘‘ اس پر وہ کوئی واضح جواب نہ دے سکا، مگر اُس نیم پلیٹ سے بڑا واضح پیغام مل گیا کہ اب احتساب کا سلسلہ بند ہی سمجھا جائے اور اب جو ہوگا وہ کچھ اور ہی ہوگا، احتساب نہیں ہوگا۔
اس کے بعد ہر روز میرے ان خدشات کو تقویّت ملتی گئی اور میں محسوس کرنے لگا کہ دو سالوں میں نیچے سے اوپر تک سب کی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ اس دوران صرف ایک بار مجھے مانسہرہ میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں تین افراد کی موت کے سانحے کی تحقیقات کے لیے بھیجا گیا، مگر میرے ساتھ ایک مشکوک شخص کو بھی نتھی کردیا گیا۔ میں اپنی عادت اور تربیّت کے مطابق بازار میں چل پھر کر لوگوں سے حقائق دریافت کرتا رہا مگر وہ صاحب دفتر سے ہی باہر نہ نکلا۔ واپس آکراس صاحب نے حقائق کے برعکس خوشامدانہ سی باتیں کیں، جب کہ میں نے پرائم منسٹر کو صاف صاف بتادیا کہ ’’وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ ہزارہ کے معاملات، منجھے ہوئے، زیرک اور تجربہ کار وزیراعلیٰ سردار مہتاب عباسی کو سلجھانے دیے جائیں ، اور پارٹی کے دیگر اہم افراد کی مداخلت بند کرادی جائے‘‘۔
حالات دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ میری رپورٹ کا کوئی اثر نہیں ہوگا، جلد ہی مجھے دفتر کا ماحول اجنبی سا لگنے لگا اور میں محسوس کرنے لگا کہ میری اب وہاں کوئی ضرورت یا افادیّت نہیں رہی۔ ایک بار پرائم منسٹر صاحب سے آمنا سامنا ہوا توکہنے لگے ’’آپ ہر روز صبح آٹھ بجے مجھے ملا کریں اور میرے ساتھ ہی پرائم منسٹر آفس جایا کریں (ان دنوں وہ پرائم منسٹر آفس کی نئی اور پرشکوہ بلڈنگ میں بیٹھنے لگے تھے) تاکہ راستے میں کرائم اور لاء اینڈ آرڈر کے ایشوز discuss ہوجائیں‘‘ ایک دو بار میں ساتھ گیا مگر حکومت کی ترجیحات بدل چکی تھیں لہٰذا مجھے اب وہاں اپنی افادیّت نظر نہیں آتی تھی۔
ایک روز کوریڈور میں شاہد خاقان عباسی صاحب (جو ان دنوں پی آئی اے کے چیئرمین تھے) سے ملاقات ہوگئی، وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے ’’آپ کے لیے پی آئی اے میں آنے کی پیشکش برقرار ہے‘‘ دراصل چند ماہ پہلے وہ کسی کام کے سلسلے میں میرے پاس لاہور آئے تھے اور وہاں انھوں نے کہا تھا کہ ’’پی آئی اے میں بھی ’’صفائی‘‘کے لیے آپ کی ضرورت ہے، آپ کچھ دیر کے لیے آجائیں تو بڑا اچھا ہوگا‘‘۔ میں نے اُس وقت تو یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ ’’اِس وقت لاہور پولیس کو کمانڈ کررہا ہوں، امن وامان اور دہشت گردی کے بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔
ان حالات میں تو حکومت مجھے بالکل spare نہیں کرے گی‘‘ مگر اب میں پی آئی اے میں جانے کے لیے ذہنی طور پر تیّار تھا، میں نے فوراً حامی بھرلی۔ شام کو اُن سے ملاقات ہوئی، اور اگلے روز ان کی طرف سے پرائم منسٹر کو کو خط لکھ دیا گیا کہ آپ کے اسٹاف افسر کی خدمات پی آئی اے کے لیے درکار ہیں، کچھ عرصہ پہلے نوازشریف صاحب مجھے وزیرِاعلیٰ پنجاب کے کہنے کے باوجود ریلیو کرنے کے لیے تیار نہ تھے مگر اب انھوں نے مجھے روکے بغیر فوراً ریلیو کردیا۔ (جاری ہے)