Express News:
2025-09-18@11:31:34 GMT

شہر کراچی کا المیہ

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

کراچی شہر کی حالت زار کی ایک بہت افسوس ناک کہانی ہے، کبھی یہ شہر اس ملک کا دارالحکومت ہوا کرتا تھااوربانی پاکستان کی جائے پیدائش کی وجہ سے اس کی بہت اہمیت تھی۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو اس شہر سے بہت محبت تھی اور وہ اس شہر کو دنیا کے چند بہترین دارالحکومتوں میںشمار کروانا چاہتے تھے لیکن قدرت نے انھیں مہلت نہیں دی اور وہ پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد ہی اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔1960 میں اس شہر سے دارالحکومت منتقل ہوا۔ وفاقی حکومت کی ساری توجہ اب نئے شہر اسلام آباد کو بنانے اورآباد کرنے پر مرکوز ہوگئی۔سارے حکومتی دفاتر اورادارے یہاں سے وہاں منتقل ہونے لگے ۔ رفتہ رفتہ یہ شہر مشکلات کی گہرائیوں میں گرتا چلاگیا۔

سقوط ڈھاکا کے بعد 1972 میں پہلے منتخب جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے حکومتی اداروں میں ملازمتوں کے لیے سارے سند ھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کردیا۔جس نے اس شہر سے قابلیت اورعلمیت کا جنازہ بھی نکال دیا ۔

اب اردو زبان بولنے والوں کے لیے سرکاری نوکریاں ختم کردی گئیں اورکوٹہ سسٹم کے تحت معیار اورقابلیت کے بجائے جائے پیدائش کی ترجیح دی جانے لگی ۔ سندھ کے لوگوں کے احساس محرومیت کو کم کرنے اوربظاہر انھیں خوشحال کرنے کے لیے بڑی بڑی پوسٹوں پر ڈومیسائل کی بنیادوں پر تقرر ہونے لگاجس نے سارانظام ہی برباد کرکے رکھ دیا۔یہ کوٹہ سسٹم اس وقت محض دس سالوں کے لیے نافذ کیاگیاتھا لیکن جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں سندھ کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس میں مزید دس برسوں کا اضافہ کردیا۔

یہ کوٹہ سسٹم کبھی بھی ختم نہیں ہوسکا۔ پاکستان بھر میں کسی صوبہ میں بھی یہ سسٹم نافذ نہیں ہے حالانکہ پنجاب اوربلوچستان کے اندرونی مقامات پر ضروری سہولتوں کا ویسا ہی فقدان ہے جیسے ہمارے اندرون سندھ میں موجود ہے۔ کوٹہ سسٹم نافذ کرنے والوں نے سندھ میں دیگر سہولتوں کے نہ ہونے کا بہانہ بناکریہ کوٹہ سسٹم نافذ تو کردیا لیکن وہاں کے اصل مسائل پر کوئی توجہ نہیںدی۔ وہاں آج بھی اسکولوں ، کالجوں اوردیگر عوامی ضرورتوں کا وہی حال ہے جو 1972 میں تھا۔

گاؤں دیہاتوں کے لوگ آج بھی وہی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں جیسے پہلے گزارا کرتے تھے۔ اسکولوں اور درسگاہوں کا وہی حال ہے جیسے پہلے ہوا کرتاتھا۔ اندرون سندھ کے کئی تعلیمی ادارے جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے ہیں۔ بچوں کو پڑھانے والے استادوں اورٹیچروں کی اپنی قابلیت میٹرک کے طالب علموں سے بھی کم ہے۔ ذہانت اور قابلیت کا معیار اس قدر کم اورپست ہے کہ افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے بچوں کو کیا پڑھائیں گے اورکیسے یہ صوبہ باقی صوبوں کی طرح ترقی کرپائے گا۔ تعلیم پرخرچ ہونے والا سارا بجٹ اِن جیسے استادوں کی بھاری بھاری تنخواہوں پر خرچ ہوجاتا ہے اور حاصل کچھ نہیں ہوتا۔

 اب آئیے شہرکراچی کی حالت زار کی طرف ، یہاں اسی فیصد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکرموئن جو ڈرو کا منظر پیش کررہی ہیں لیکن حکمرانوں کی جانب سے کوئی توجہ نہیں ہے۔وہ اگر نئے سرے سے تعمیر بھی ہوتی ہیں تو معیار اس قدر ناقص ہوتا ہے کہ صرف چھ ماہ میں وہ پھرسے ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔شہر کا پانی ہائی ڈرنٹ مافیا کو فروخت کردیا جاتا ہے اورعوام کئی کئی دنوں تک پانی کو ترستے رہتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ سسٹم پر بیس پچیس سالوں تک کوئی توجہ نہیںدی گئی اورشہر کے لوگ مزدا کوچ کے بد اخلاق ڈرائیور اورکنڈکٹر کی بدتمیزیوں کے شکار ہوتے رہے۔

اب جاکے کچھ نئی بسوں کا انتظام کیا گیا ہے لیکن وہ اس عظیم شہر کے تمام لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ گرین بس کے نام پرجس میٹرو سروس کا اہتمام وفاقی حکومت نے کیا تھا وہ بھی سارے شہر کے لیے ناکافی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان بسوں کا کرایہ پنجاب کی نسبت بہت زیادہ ہے ، لاہورمیں آج بھی میٹرو بس سروس کاکرایہ 27 کلومیٹر کے لیے بیس تیس روپے ہے جب کہ کراچی کے لوگ تقریباً اسی فاصلے کے لیے 120 روپے ادا کرتے ہیں، وہاں اورینج ٹرین کے نام سے لاہور کے باسیوں کو جدید سہولت بھی حاصل ہے اور اس کاکرایہ بھی بہت ہی کم ہے۔

یہ اس شہر ہی کی بدقسمتی نہیں ہے کہ وہ جس حکومت کے زیر تسلط کئی دہائیوں سے گزر بسر کررہا ہے اسے مال بنانے کے علاوہ کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اندرون سندھ تو اور بھی برا حال ہے۔دیگر صوبوں کی ترقی دیکھتے ہوئے اب شاید یہاں کی حکومت کو بھی کچھ خیال آگیا ہے اوروہ چند ایک کام کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔کراچی کے مسائل اتنے گہرے اور گھمبیر ہیں کہ صرف پیوند کاری سے کام نہیں چلے گا۔سابقہ وفاقی حکومتوں نے اگر اس شہر کی خوشحالی کے لیے کوئی توجہ دی ہوتی تو کیا وجہ ہوتی کہ آج یہ شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہوتا۔

2018 میں اس شہر نے تحریک انصاف کو بھرپور مینڈیٹ دیا تھا لیکن اس پارٹی نے بھی یہاں ایک بڑا منصوبہ بھی شروع نہیں کیا۔ دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں کچھ کم نہ تھیں ، اِنہی چودہ نشستوں کی وجہ سے خان صاحب کو پارلیمنٹ میںاکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن انھوں نے ا س شہر کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ اس کے علاوہ MQM بھی ایک پارٹی ہے جس نے 1980 سے اس شہر کے بلدیاتی اداروں کی ترجمانی کی ہے مگر اس پارٹی نے بھی اپنے ووٹرں کے لیے کچھ کام بھی نہیں کیا بلکہ بھتہ خوری ، جبری چندہ وصولی اورقربانی کی کھالوں کی چھینا جھپٹی نے اپنے لوگوں کا جینا ہی حرام کرکے رکھ دیا۔آئے دن کی ہڑتالوں ، احتجاجوں اورٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے شہر کے لوگوں کے کاروبار کو بھی برباد کردیا۔

جس کوٹہ سسٹم کے خلاف یہ معرض وجود میں آئی تھی وہ کوٹہ سسٹم بھی وہ ختم کروانہ سکی۔الٹا اردوبولنے والوں کی شناخت بھی مسخ کرکے رکھدی۔کراچی والے آج کئی سالوں سے K-ELECTRIC کی زیادتیوں کا شکار ہورہے ہیں لیکن کوئی بھی اُن کی فریاد سننے کو تیار نہیںہے۔ دنیا کا کوئی اوربڑا شہراتنے مسائل سے دوچار نہیں ہے جتنا کراچی شہر۔ کبھی یہ شہر سارے ملک کے بزنس کا حب ہواکرتاتھا اورملک کے ذرایع مبادلہ بڑھانے میں اس کا بڑا اہم کردار تھا۔ جب سے اس شہر کی یہ شناخت اس سے چھین لی گئی ہے پاکستان بھی معاشی طور پر کمزور ہوتاچلاگیا ہے،یہ ملک اب شاید اسی وقت ترقی کرپائے گا جب اس شہرکراچی کو اس کا حق اوراس کی شناخت واپس کی جائے گی ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کوئی توجہ کوٹہ سسٹم سسٹم نافذ نہیں ہے کے لیے بھی یہ کے لوگ ہے اور شہر کے یہ شہر

پڑھیں:

غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ

کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔

طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔

ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔

25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔

میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔

طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔

سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔

23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔

طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔

نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔

یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔

چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔

انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔

لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔

نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔

نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔

روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • رینالہ خورد میں ہونے والا ٹرین حادثہ، تحقیقات میں اہم انکشافات
  • چارلی کرک کا قتل ایک المیہ لیکن سیاسی مباحثے کو دبانا نہیں چاہیے،اوباما
  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • بارش اور کرپٹ سسٹم
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • انیق ناجی نے ولاگنگ سے دوری کی وجہ خود ہی بتا دی ، پنجاب حکومت پر تنقید
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس
  • ٹک ٹاک سے انقلاب نہیں آتے، اگر آتے تو عمران خان آج جیل میں نہ ہوتے،علی امین گنڈاپور