Express News:
2025-04-25@09:21:50 GMT

شہر کراچی کا المیہ

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

کراچی شہر کی حالت زار کی ایک بہت افسوس ناک کہانی ہے، کبھی یہ شہر اس ملک کا دارالحکومت ہوا کرتا تھااوربانی پاکستان کی جائے پیدائش کی وجہ سے اس کی بہت اہمیت تھی۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو اس شہر سے بہت محبت تھی اور وہ اس شہر کو دنیا کے چند بہترین دارالحکومتوں میںشمار کروانا چاہتے تھے لیکن قدرت نے انھیں مہلت نہیں دی اور وہ پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد ہی اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔1960 میں اس شہر سے دارالحکومت منتقل ہوا۔ وفاقی حکومت کی ساری توجہ اب نئے شہر اسلام آباد کو بنانے اورآباد کرنے پر مرکوز ہوگئی۔سارے حکومتی دفاتر اورادارے یہاں سے وہاں منتقل ہونے لگے ۔ رفتہ رفتہ یہ شہر مشکلات کی گہرائیوں میں گرتا چلاگیا۔

سقوط ڈھاکا کے بعد 1972 میں پہلے منتخب جمہوری وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے حکومتی اداروں میں ملازمتوں کے لیے سارے سند ھ میں کوٹہ سسٹم نافذ کردیا۔جس نے اس شہر سے قابلیت اورعلمیت کا جنازہ بھی نکال دیا ۔

اب اردو زبان بولنے والوں کے لیے سرکاری نوکریاں ختم کردی گئیں اورکوٹہ سسٹم کے تحت معیار اورقابلیت کے بجائے جائے پیدائش کی ترجیح دی جانے لگی ۔ سندھ کے لوگوں کے احساس محرومیت کو کم کرنے اوربظاہر انھیں خوشحال کرنے کے لیے بڑی بڑی پوسٹوں پر ڈومیسائل کی بنیادوں پر تقرر ہونے لگاجس نے سارانظام ہی برباد کرکے رکھ دیا۔یہ کوٹہ سسٹم اس وقت محض دس سالوں کے لیے نافذ کیاگیاتھا لیکن جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور میں سندھ کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس میں مزید دس برسوں کا اضافہ کردیا۔

یہ کوٹہ سسٹم کبھی بھی ختم نہیں ہوسکا۔ پاکستان بھر میں کسی صوبہ میں بھی یہ سسٹم نافذ نہیں ہے حالانکہ پنجاب اوربلوچستان کے اندرونی مقامات پر ضروری سہولتوں کا ویسا ہی فقدان ہے جیسے ہمارے اندرون سندھ میں موجود ہے۔ کوٹہ سسٹم نافذ کرنے والوں نے سندھ میں دیگر سہولتوں کے نہ ہونے کا بہانہ بناکریہ کوٹہ سسٹم نافذ تو کردیا لیکن وہاں کے اصل مسائل پر کوئی توجہ نہیںدی۔ وہاں آج بھی اسکولوں ، کالجوں اوردیگر عوامی ضرورتوں کا وہی حال ہے جو 1972 میں تھا۔

گاؤں دیہاتوں کے لوگ آج بھی وہی پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں جیسے پہلے گزارا کرتے تھے۔ اسکولوں اور درسگاہوں کا وہی حال ہے جیسے پہلے ہوا کرتاتھا۔ اندرون سندھ کے کئی تعلیمی ادارے جانوروں کے اصطبل بنے ہوئے ہیں۔ بچوں کو پڑھانے والے استادوں اورٹیچروں کی اپنی قابلیت میٹرک کے طالب علموں سے بھی کم ہے۔ ذہانت اور قابلیت کا معیار اس قدر کم اورپست ہے کہ افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے بچوں کو کیا پڑھائیں گے اورکیسے یہ صوبہ باقی صوبوں کی طرح ترقی کرپائے گا۔ تعلیم پرخرچ ہونے والا سارا بجٹ اِن جیسے استادوں کی بھاری بھاری تنخواہوں پر خرچ ہوجاتا ہے اور حاصل کچھ نہیں ہوتا۔

 اب آئیے شہرکراچی کی حالت زار کی طرف ، یہاں اسی فیصد سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکرموئن جو ڈرو کا منظر پیش کررہی ہیں لیکن حکمرانوں کی جانب سے کوئی توجہ نہیں ہے۔وہ اگر نئے سرے سے تعمیر بھی ہوتی ہیں تو معیار اس قدر ناقص ہوتا ہے کہ صرف چھ ماہ میں وہ پھرسے ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔شہر کا پانی ہائی ڈرنٹ مافیا کو فروخت کردیا جاتا ہے اورعوام کئی کئی دنوں تک پانی کو ترستے رہتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ سسٹم پر بیس پچیس سالوں تک کوئی توجہ نہیںدی گئی اورشہر کے لوگ مزدا کوچ کے بد اخلاق ڈرائیور اورکنڈکٹر کی بدتمیزیوں کے شکار ہوتے رہے۔

اب جاکے کچھ نئی بسوں کا انتظام کیا گیا ہے لیکن وہ اس عظیم شہر کے تمام لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ گرین بس کے نام پرجس میٹرو سروس کا اہتمام وفاقی حکومت نے کیا تھا وہ بھی سارے شہر کے لیے ناکافی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان بسوں کا کرایہ پنجاب کی نسبت بہت زیادہ ہے ، لاہورمیں آج بھی میٹرو بس سروس کاکرایہ 27 کلومیٹر کے لیے بیس تیس روپے ہے جب کہ کراچی کے لوگ تقریباً اسی فاصلے کے لیے 120 روپے ادا کرتے ہیں، وہاں اورینج ٹرین کے نام سے لاہور کے باسیوں کو جدید سہولت بھی حاصل ہے اور اس کاکرایہ بھی بہت ہی کم ہے۔

یہ اس شہر ہی کی بدقسمتی نہیں ہے کہ وہ جس حکومت کے زیر تسلط کئی دہائیوں سے گزر بسر کررہا ہے اسے مال بنانے کے علاوہ کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ اندرون سندھ تو اور بھی برا حال ہے۔دیگر صوبوں کی ترقی دیکھتے ہوئے اب شاید یہاں کی حکومت کو بھی کچھ خیال آگیا ہے اوروہ چند ایک کام کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔کراچی کے مسائل اتنے گہرے اور گھمبیر ہیں کہ صرف پیوند کاری سے کام نہیں چلے گا۔سابقہ وفاقی حکومتوں نے اگر اس شہر کی خوشحالی کے لیے کوئی توجہ دی ہوتی تو کیا وجہ ہوتی کہ آج یہ شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہوتا۔

2018 میں اس شہر نے تحریک انصاف کو بھرپور مینڈیٹ دیا تھا لیکن اس پارٹی نے بھی یہاں ایک بڑا منصوبہ بھی شروع نہیں کیا۔ دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کی چودہ نشستیں کچھ کم نہ تھیں ، اِنہی چودہ نشستوں کی وجہ سے خان صاحب کو پارلیمنٹ میںاکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن انھوں نے ا س شہر کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ اس کے علاوہ MQM بھی ایک پارٹی ہے جس نے 1980 سے اس شہر کے بلدیاتی اداروں کی ترجمانی کی ہے مگر اس پارٹی نے بھی اپنے ووٹرں کے لیے کچھ کام بھی نہیں کیا بلکہ بھتہ خوری ، جبری چندہ وصولی اورقربانی کی کھالوں کی چھینا جھپٹی نے اپنے لوگوں کا جینا ہی حرام کرکے رکھ دیا۔آئے دن کی ہڑتالوں ، احتجاجوں اورٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے شہر کے لوگوں کے کاروبار کو بھی برباد کردیا۔

جس کوٹہ سسٹم کے خلاف یہ معرض وجود میں آئی تھی وہ کوٹہ سسٹم بھی وہ ختم کروانہ سکی۔الٹا اردوبولنے والوں کی شناخت بھی مسخ کرکے رکھدی۔کراچی والے آج کئی سالوں سے K-ELECTRIC کی زیادتیوں کا شکار ہورہے ہیں لیکن کوئی بھی اُن کی فریاد سننے کو تیار نہیںہے۔ دنیا کا کوئی اوربڑا شہراتنے مسائل سے دوچار نہیں ہے جتنا کراچی شہر۔ کبھی یہ شہر سارے ملک کے بزنس کا حب ہواکرتاتھا اورملک کے ذرایع مبادلہ بڑھانے میں اس کا بڑا اہم کردار تھا۔ جب سے اس شہر کی یہ شناخت اس سے چھین لی گئی ہے پاکستان بھی معاشی طور پر کمزور ہوتاچلاگیا ہے،یہ ملک اب شاید اسی وقت ترقی کرپائے گا جب اس شہرکراچی کو اس کا حق اوراس کی شناخت واپس کی جائے گی ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کوئی توجہ کوٹہ سسٹم سسٹم نافذ نہیں ہے کے لیے بھی یہ کے لوگ ہے اور شہر کے یہ شہر

پڑھیں:

’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ کا سیکوئل؛ فلم میکر کا سلمان خان اور مادھوری کے حوالے سے اہم انکشاف

نوے کی دہائی کی مشہور بھارتی فلم ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ کا سیکوئل بننے کی خبریں گردش میں ہیں۔ لیکن کیا اس بلاک بسٹر فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے سلمان خان اور مادھوری ڈکشٹ کو کاسٹ کیا جائے گا؟

فلم میکر سورج برجاتیہ نے انکشاف کیا ہے کہ اگر وہ اپنی کلاسک فلم ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ کا سیکوئل بناتے ہیں تو اس میں اپنے قریبی دوست سلمان خان اور مادھوری ڈکشٹ کو کاسٹ نہیں کریں گے بلکہ نئے اداکاروں کو لیا جائے گا۔ 

برجاتیہ نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس فلم میں نئی کاسٹ ہوگی‘‘۔ فلم ساز نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ہمیشہ سے یہ مانتا ہوں کہ اچھا اسکرپٹ کسی بھی ستارے سے بڑا ہوتا ہے‘‘۔

اگرچہ برجاتیہ اور سلمان خان کے درمیان گہری دوستی ہے اور دونوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ساتھ کیا تھا لیکن فلم میکر کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی صورت میں ان ستاروں کے ساتھ کام کریں گے جب کردار ان کےلیے موزوں ہوں۔ برجاتیہ نے کہا کہ ’’لوگ ایک خاص عمر کے بعد ستاروں سے زیادہ اچھی فلم پر بھروسہ کرتے ہیں‘‘۔

برجاتیہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ سلمان خان کے ساتھ ایک نئی فلم پر کام کر رہے ہیں، لیکن اس میں وقت لگے گا کیونکہ انہیں ایسا اسکرپٹ چاہیے جو اداکار کی موجودہ عمر کےلیے موزوں ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سلمان ہمیشہ فلم کو ستاروں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اگر میں کسی اور کے ساتھ فلم بنانا چاہوں تو وہ سپورٹ کریں گے‘‘۔

سورج برجاتیہ اپنی فلموں ’میں نے پیار کیا‘، ’ہم آپ کے ہیں کون‘ اور ’پریم رتن دھن پائیو‘ کےلیے مشہور ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی
  • آئی ایم ایف کے پاکستانی سول سروس سسٹم پر خدشات، تقرریوں میں سیاسی مداخلت کی نشاندہی
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • ’’ہم آپ کے ہیں کون‘‘ کا سیکوئل؛ فلم میکر کا سلمان خان اور مادھوری کے حوالے سے اہم انکشاف
  • ایم آئی ایس نہ ای حج سسٹم کھلا جاسکا، 67ہزار عازمین حج کا کوئی فیصلہ نہ ہو سکا
  • عمران خان کو  رہائی کی پیشکش کی گئی لیکن بات نہ بن سکی، لطیف کھوسہ
  • حاکم قابض اور سسٹم فاشسٹ ہے، راجا ناصر عباس
  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ