وفاقی وزیر برائے غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت 164 روپے فی کلو جبکہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر 153 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔

رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو چینی کی قیمتوں کی نگرانی کر رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت نے چینی کی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے ایکشن لیا ہے اور کسی کو قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وفاقی وزیر نے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے پر کام کر رہی ہے تاکہ عوام کو سستی اور وافر مقدار میں چینی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ انہوں نے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ چینی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق افواہوں پر یقین نہ کریں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: چینی کی قیمتوں قیمتوں میں

پڑھیں:

ایران سے تجارت اور چینی کا بحران

بلوچستان کے پہاڑوں پر اس دن سورج بڑی بے قراری سے نکلا ہوگا کیوں کہ اس نے جلد از جلد اسلام آباد کے اس منظرکو دیکھنا تھا۔ جب برادر اسلامی اور پڑوسی ملک ایران، جہاں سے کبھی تہذیب بھی آتی رہی، ثقافت بھی آ کر چھائی رہی، علما مشائخ، اولیائے کرام کے قافلے بھی آتے رہے اور لاہور کا تجارتی قافلہ کبھی اصفہان،کبھی شیراز میں فروکش ہوتا رہا۔ ملتان کی سوغاتیں اور دستکاریاں، زاہدان و سرد تہران میں ہاتھوں ہاتھ خریدے جاتے رہے۔

پشاورکے قصہ خوانی بازار میں ایران کے قصے مزے لے لے کر بیان کیے جاتے تھے۔ پریوں کی کہانیاں، طلسماتی کہانیاں اکثر بچوں کی نانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ایسے میں کوئی کہے کہ کسی ’’ نانی کا ٹیکہ‘‘ بھی ایران میں ہے تو کچھ غلط نہ تھا۔ دل سے دل جڑے ہوئے تھے اور تجارتی قافلے رواں دواں تھے۔

باہمی تجارت زوروں پر تھی، پنجاب سے اس کی خوشبو دوبالا ہو جاتی اور ایرانی آغا ( تاجر ) تمام لیکن نظر تو ایسی لگی، ایسی لگی کہ انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی یہ تجارت سکڑتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ تین ارب ڈالر تک کی سالانہ باہمی تجارت ہے جس میں ایران کا پلہ بھاری ہے کیوں کہ ایران سے تقریباً سوا ارب ڈالر کی درآمدات اور پاکستان سے برآمدات ایک ارب کے لگ بھگ یا اس سے کچھ زیادہ پاکستانی روپے کی شکل میں 2023-24 کے دوران ایران کے لیے پاکستانی برآمدات کی مالیت 2 کھرب 94 ارب 59 کروڑ روپے کی تھی۔

بہرحال باہمی تجارت 3 ارب ڈالر سے کم کی ہے۔ اب اسے کیسے 10 ارب ڈالر تک پہنچانا ہے، یہ اہم سوال ہے۔ تین ارب ڈالر سے تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جانا ممکن ہے۔

قیہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو باقاعدہ بنانے اور فروغ دینے کے لیے ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اس کے تحت محصولات (ٹیرف) اور دیگر تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے اور نئی بارڈر مارکیٹ قائم کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس سے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو کاروبار کے لیے مواقعے ملیں گے۔

ایک ایسا نظام وضع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو ادائیگیوں کو آسان اور محفوظ بنائے تاکہ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث تجارت متاثر نہ ہو۔ زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی، اطلاعات و مواصلات ، ثقافت، سیاحت اور موسمیات جیسے شعبوں میں تعاون کے لیے مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ ان معاہدوں کا اصل مقصد باہمی تجارت کو 10 ارب ڈالر تک لے جائیں تو اس کے لیے اصل تعاون اور اصل کاروباری حجم میں اضافہ اور درحقیقت برآمدات برائے ایران میں اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب حکومتی سیکریٹری سے نکل کر کاٹن انڈسٹری کے اونر، مل کے مالکان، برآمد کنندگان اور امپورٹرز کے ہاتھ میں آ جائے تو پھرکمال ہو جائے گا۔

ان تاجروں کو کارخانہ داروں کو گھریلو انڈسٹری کے مالکان کو ایران بھیجا جائے، اب یہاں پر حکومتی شراکت کام کرے، سفارت خانے کا عملہ ان لوگوں کو اچھی طرح بریفنگ دے۔ بڑے بڑے ایرانی درآمد کنندگان کی فہرست تھما دے اور سب سے آخر میں بازار کا راستہ بتا دے۔ آپ یقین کریں شام تک ان لوگوں کے ہاتھوں میں کروڑوں ڈالرز کے آرڈرز ہوں گے۔صبح ایک پراٹھا اور ایک کپ چائے اور جب چائے میں چینی نہ ہو تو یہی ناشتہ احتجاج بن جاتا ہے۔

گاؤں کے ایک مٹی کے گھر سے لے کر شہر کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں آج کل ایک ہی سوال سنائی دے رہا ہے کہ چینی گئی کہاں؟ گاؤں کا بوڑھا کسان جانتا ہے کہ وہ 70 کی دہائی میں راشن کارڈ سے اپنے حصے کی چینی دو روپے ساٹھ پیسے فی سیر خرید کر لاتے تھے اور ہر ایک کے کپ میں چینی ڈلتی تھی۔ حکومت نے پہلے اندازہ لگایا چینی بہت ہے اور سستے داموں بیرون ملک فروخت کردی۔

 نئی صدی کے آغاز سے پہلے ہی چینی 18 روپے فی کلو تھی اور کافی عرصے یہی قیمت رہی۔ 2009 میں معاملہ بگڑا اور بالآخر 90 روپے فی کلو تک بھی جا پہنچی۔ پھر قیمت میں کمی ہوئی، غالباً 2018 کے آغاز تک چینی فی کلو 52 روپے تھی، اس سال چینی 140 روپے پھر 160 روپے فی کلو ہوگئی اور چینی امپورٹ ہوگئی، لیکن اب چینی کی قیمت یا پچھلی قیمت پر دستیابی ناممکن ہے۔ کیوں کہ حکومت کبھی سستی چینی یوٹیلیٹی اسٹورز کے ذریعے فراہم کرتی تھی۔ کیا کسان نے چینی مہنگی کر دی کہ اپنا گنا دگنا قیمت پر فروخت کیا؟ ایسا بالکل نہیں، کیونکہ اس نے حکومتی نرخ پر فروخت کیے لیکن پیسے ابھی تک پورے نہیں ملے۔

عالمی منڈی میں چینی کی قیمت بڑھ گئی پاکستان میں روپے کی قدر کچھ کم ہو گئی۔ اب درآمدی چینی پہلے سے مہنگی ہی ملے گی۔ مہنگی ہو یا سستی لیکن یہ سوال ہر ایک پوچھتا ہے۔ اس سوال کا جواب پوچھنے کے لیے حکام بھی بے چین ہیں کہ آخر چینی گئی کہاں؟چینی کا بحران کبھی دو سال بعد آ جاتا ہے اور کبھی اس سے زیادہ یا کم عرصے میں۔ ہر آنے والی حکومت کو اس بحران سے گزرنا پڑتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیشہ چینی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس مسئلے کا مستقل حل قانون سازی کے ذریعے نکل سکتا ہے۔

شاید کسی حکومت کے بس میں نہیں لہٰذا عوام چینی کے متبادل گڑ، شکر وغیرہ کا بھی استعمال کرنے پر غور کریں۔ کیوں کہ چینی کے بحران سے غریب عوام نے اپنے طور پر ہی نکلنا ہے کیوں کہ چینی کی قیمت میں کب کمی آئے گی، حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن فی الحال شافی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سونے کی قیمتوں کو پر لگ گئے.
  • ملک میں چینی کی اوسط قیمت سرکاری ریٹ پر نہ آسکی
  • وفاقی حکومت کا ایک لاکھ ٹن چینی امپورٹ کرنے کا ٹینڈر منسوخ کرنے کا فیصلہ
  • ملک میں چینی کی بلاتعطل فراہمی نہ ہونے کی وجہ سامنے آ گئی
  • وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ کی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مستعفی ہونے کی خبروں کی تردید کردی
  • ایران سے تجارت اور چینی کا بحران
  • بحریہ ٹاون چھاپے کے دوران ایک ارب 12 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے ثبوت ملے ہیں، عطا تارڑ
  • سونے کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ، فی تولہ کتنے کا ہوگیا؟  
  • سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ
  • عالمی و مقامی مارکیٹ میں سونے کی قیمت پھر بڑھ گئی