وفاقی حکومت نے چیف آف ڈیفنس فورسز کے نوٹیفکیشن میں اختلافات کی وجہ سے تاخیر کی افواہوں کو مسترد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وفاقی حکومت نے سویلین اور ملٹری قیادت کے درمیان تعلقات میں دراڑ آنے کی قیاس آرائیوں کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے دعوے ’’بے بنیاد‘‘ اور ’’گمراہ کن‘‘ ہیں۔سابق پرنسپل سیکریٹری ٹوُ پرائم منسٹر اور کابینہ میں قریبی مشیر ڈاکٹر توقیر شاہ نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا اور کچھ سیاسی حلقوں میں زیر گردش اِن افواہوں میں کوئی صداقت نہیں کہ حکومت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے واضح طور پر ایسی باتوں کو مسترد کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف / چیف آف ڈیفنس فورس (سی ڈی ایف) کے نوٹیفکیشن میں اختلافات کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سویلین اور ملٹری لیڈرشپ کے درمیان تعلقات میں کوئی دراڑ نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں جانب ورکنگ ریلیشن شپ پرسکون اور مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ ڈاکٹر توقیر شاہ نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ نون لیگ کے رہنما اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف فیلڈ مارشل عاصم منیر کا بڑا احترام کرتے ہیں اور متعدد مواقع پر پیشہ ورانہ رویے، عزم اور قوم کی خدمت کیلئے وہ اُن کی تعریف بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف نے ستائیسویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، جس سے ان کی ادارہ جاتی ڈھانچے اور فوجی قیادت کیلئے مسلسل حمایت اور عزم کا اعادہ ہوتا ہے۔ کشیدہ تعلقات کے حوالے سے جاری تمام افواہوں اور نوٹیفکیشن میں ہونے والی تاخیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ محض شرارت ہیں اور افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قیاس آرائیوں پر مبنی بیانیے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ صرف کنفیوژن پھیلے وہ بھی اُس وقت جب استحکام اور اتحاد کی ضرورت ہو۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ منتخب حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان غیر معمولی طور پر ہم آہنگ تعلق موجود ہے، قومی ترجیحات اور مقاصد کے حصول کیلئے دونوں میں مکمل طور پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے، اور اس کے برعکس کوئی بھی بات بے بنیاد ہے۔
انصارعباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے درمیان انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
چیف آف ڈیفنس فورسز کا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں ہوسکا
حکومت کی جانب سے 29/نومبر کی اہم ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود ملک کے پہلے چیف آف ڈیفنس فورسز (سی ڈی ایف) کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہ ہوسکا۔جس کے باعث کافی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
آرمی چیف کے منصب کے ساتھ یکجا کیا گیا یہ نیا عہدہ 27 ویں آئینی ترمیم کے تحت تخلیق کیا گیا تھا اور اب ختم شدہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) کی جگہ لے رہا ہے، سی جے سی ایس سی کا عہدہ 27 نومبر کو باضابطہ طور پر ختم ہوگیا تھا۔
ایک انگریزی اخبار میں شائع خبر کے مطابق سرکاری ذرائع اور مبصرین کو توقع تھی کہ سی ڈی ایف کا تقرر نامہ اسی موقع پر جاری کر دیا جائے گا۔ مگر تاحال ایسا نہیں ہو سکا۔
مبصرین کو توقع تھی کہ 29 نومبر کو تو یقیناً یہ تقرر نامہ جاری کر دیا جاتا کیونکہ یہ آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ابتدائی تین سالہ مدت ملازمت کے خاتمے کی تاریخ تھی۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگر نیا نوٹیفکیشن جاری نہ ہوا تو مدت ملازمت تکنیکی طور پر ختم سمجھی جا سکتی تھی، لیکن 2024 میں پاکستان آرمی ایکٹ میں کی گئی ترمیم کے بعد سروسز چیفس کی مدت ملازمت 5 سال کر دی گئی ہے، ترمیم میں شامل ’ڈیمنگ کلاز‘ کے مطابق یہ قانون ہمیشہ سے ایکٹ کا حصہ تصور ہوگا، اس لیے قانونی ماہرین کے مطابق آرمی چیف کی مدت بڑھانے کے لیے کسی نئے نوٹیفکیشن کی ضرورت ہی نہیں رہی، یوں ان کے نزدیک 29 نومبر کوئی قانونی حد نہیں تھی۔
چنانچہ متعدد سکیورٹی ذرائع نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ حکومت کو فیلڈ مارشل عاصم منیر کو سی ڈی ایف کا منصب دینے کے لیے ایک نیا اور باضابطہ عوامی نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوگا، برخلاف اُن خاموش توسیع کے جو حال ہی میں پی اے ایف کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیرالدین بابر اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کو دی گئیں۔
نوٹیفکیشن کے اجرا میں تاخیر کو حکومتی سطح پر جاری اختلافات کی نشانی قرار دیا جا رہا ہے، باخبر ذرائع کے مطابق اس وقت ایک اہم سوال یہ زیر غور ہے کہ آرمی چیف کی 5 سالہ مدت ملازمت کا آغاز کس تاریخ سے شمار کیا جائے، نومبر 2022 سے جب فیلڈ مارشل منیر نے عہدہ سنبھالا، یا پھر نومبر 2025 سے، جیسا کہ نئی قانون سازی کے بعد عمومی طور پر تاثر پایا جاتا رہا ہے۔
ایک اور حساس مسئلہ یہ ہے کہ نیا سی ڈی ایف فضائیہ اور بحریہ پر عملی اور کمانڈ اختیار کس حد تک رکھے گا۔
اگرچہ حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں 27ویں ترمیم کو برق رفتاری کے ساتھ پارلیمان سے منظور کرایا، لیکن نوٹیفکیشن میں تاخیر نے فوجی قیادت کو مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا ہے اور اعلیٰ دفاعی ڈھانچے کی نئی تشکیل کا عمل متاثر ہوا ہے۔
اسی کے ساتھ نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کے سربراہ کی تقرری بھی التوا کا شکار ہے، یہ نیا چار ستارہ عہدہ اُس جوہری کمانڈ کی ذمہ داریاں سنبھالے گا جو پہلے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے پاس تھیں، حکام کا کہنا ہے کہ یہ تقرری بھی سی ڈی ایف کے باضابطہ اعلامیے کے بعد ہی کی جائے گی۔
ادھر نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) ایکٹ میں مزید ترامیم کی ضرورت باقی ہے تاکہ سی جے سی ایس سی کے خاتمے اور سی ڈی ایف اور این ایس سی کمانڈر کے نئے ڈھانچے کو آرٹیکل 243 کے تحت شامل کیا جا سکے۔
یہ عمل خاصا پیچیدہ ہوگا، خصوصاً اس حوالے سے کہ فضائیہ اور بحریہ کے سربراہان کی این سی اے میں مستقبل کی نمائندگی کیا ہوگی، اور جب ان کی اسٹریٹجک کمانڈز کو ایک متحدہ این ایس سی کمانڈر کے ماتحت کردیا جائے گا تو اُن کا ادارہ جاتی کردار کس شکل میں برقرار رہے گا۔