بااثر ٹھیکے دار کو کون روکے گا؟؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251127-03-4
برسات کے موسم میں دریا کی فکر محکمہ ٔ آب پاشی کو اس وجہ سے بھی بہت ہوتی ہے کہ یہ ان کی بے حساب کمائی کا سیزن ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ دریا بادشاہ ہے اس سے کون حساب کرے؟ سو خوب لوٹا جاتا ہے۔ عوامی دور حکمرانی میں سکرنڈ کے قریب اہم دریائی بند پر بدعنوانی کی خبر لینے پہنچے تو موقع پر انجینئر نے میڈیا والوں کو دیکھ کر کہا بھائی یہ فلان بااثر شخص کا ٹھیکہ ہے میں کیا کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور اب حکمت عملی یہ ہے کہ ہڈی توڑ کر کھائو اور کھلائو تاکہ یہ کھانے والے کے حلق میں بھی نہ پھنسے اور جس کو بچائو خاطر کھلائو وہ بھی خوش ہوجائے، یوں دونوں راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ اب یہ بات مجھے آئین پاکستان میں بچائو کی خاطر پے درپے ترامیم میں یاد آئیں کہ انجینئرڈ انتخابات میں اس طریقہ کار ہی سے من پسند افراد کا انتخاب کیا گیا اور آئین کی ترامیم کی سخت ہڈی جو مطلوبہ مقاصد کے لیے درکار ہے اس کے ٹکڑے کیے کچھ مقاصد 26 ویں ترمیم میں آزاد کشمیر کی حکمرانی کا لالچ دے کر اور دبائو کا حربہ آزما کر منوائی گئی اور معترضین کے حلق سے آسانی سے اُتاری گئی اور جب وہ متاثرین کو ہضم ہوگئی تو 27 ویں ترمیم میں دوسری ہڈی ایوانوں میں ذائقہ دار چورن کی صورت مولانا فضل الرحمن کو ختم نبوت کی یاد دلا کر بنگلا دیش بجھوا کر حاشیہ برداروں کے ہاتھوں قوم کے حلق میں انڈیل دی گئی اور مخالفت کورام کشمیری جام پلا کر استثنیٰ لے کر دے کر بٹوارہ سے راضی کرنے کا سامان کیا، یوں آئین کو دو طلاق دے دی گئیں اب تیسری طلاق کی تیاری ہے۔
18 ویں ترمیم کے جہیز میں جو سامان این ایف سی ایوارڈ میں نقد دیا گیا اس میں سے کچھ واپس لینے اور کچھ ملکیت میں دیے گئے شعبے تعلیم اور بہبود آبادی وغیرہ لینے کی باتوں کے ساتھ صوبوں کو توڑ کر سب حواریوں کا پیٹ بھرنے کا تذکرہ ہے۔ پی پی پی اس سے پریشان ہے کہ مال ملکیت کی کمی سیاسی کمی بھی پیدا کرے گی سو بلاول نے بھی کہہ دیا کہ کوئی مائی کا لعل 18 وین ترمیم کی کلائی مروڑ کر کچھ نہیں لے سکتا۔ سو اب دوسری طرف بھی ترامیم کے عمل کو فائنل کرنے کی بے چینی ہے کہ یہ مکمل ہو تو پھر من کی مراد پوری ہو، یہاں تک بتائے جانے کی اطلاع ہے کہ استثنیٰ صدر آصف زرداری کو ہے دوسروں کو نہیں سوچ لو! یہ کڑوا پیغام بھی پریشان کن ہے سو بات درمیانی راہ کہ مڈل میں کر رہے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والی رقم میں سے کٹوتی کے بجائے ہم صدقہ کی صورت ہر مرتبہ کچھ فنڈ وفاق کو ریفنڈ کردیا کریں تو بات بھی بن جائے گی اور لاج بھی رہ جائے گی۔ سوچ وبچار ہو رہا کہ چلو فنڈ کا مسئلہ تو یوں حل ہو جائے گا مگر صوبوں میں تقسیم کا فارمولا جو صوبائی اسمبلی میں پہلے دو تہائی اکثریت سے پاس کرنے کی بات آئین میں لکھی گئی ہے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں اس پر عمل مشکل تر ہے تو کیوں ناں 28 ویں ترمیم میں صوبوں کے اس اختیار کو ختم کرکے اس اسپیڈ بریکر کی رکاوٹ کو اکھاڑ پھنکا جائے۔ کھلاڑی اپنے اپنے پتے کھیل رہے ہیں ماہرین نئے سال کو نئے روپ میں دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہوگا؟ یہ ربّ کو پتا ہے کہ کس کا پتا کامیاب ہو گا اور وہ بازی جیت لے گا۔
اب مجھے اس انجینئر کی بات آئین کی ترمیم کے سلسلے میں رہ رہ کر یاد آرہی ہے ملک میں مہنگائی کے سیلاب کی ذمے دار بقلم خود بنے اور دہشت گردی کے عذاب کے روک تھام کے لیے بند کا ٹھیکہ جن کے پاس ہے اس کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں، اس کے پاس امریکی صدر کی تحسین کارکردگی کی سند ہے اور وہ ایوانوں کے ارکان میں ترمیم کی بڑی ہڈی نہیں ٹھونس رہا بلکہ ہڈی توڑ کر حصہ بقدر جثہ دے رہا ہے۔ پچکار رہا ہے تو حکومت کے تحفہ کے ساتھ ڈانٹ رہا ہے، بات منوا رہا ہے اور خدانخواستہ اس بندوبست کا وہی حشر ہوا جو دریا کے بند کی پختہ کاری کا دیکھنے کو ملا کہ ایک ہی ریلے نے بند کے بخیے اکھیڑ دیے تھے کہیں عوام کا سیلاب امڈے اور پھر کہنے والے گنگنائیں دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
وفاقی حکومت سازی کیلئے اڑھائی سالہ بندوبست سے لاعلم ‘ 28ویں ترمیم کہیں زیر غور نہیں : عطاتارڑ
اسلام آباد (وقائع نگار) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تاررڑ نے کہا ہے کہ وفاق میں حکومت سازی کے لیے اڑھائی سالہ بندوبست سے متعلق لاعلم ہوں۔ نئے صوبوں کے قیام، لوکل باڈیز ایکٹ میں مجوزہ تبدیلیوں پر مشتمل 28ویں ترامیم کہیں بھی زیر غور نہیں۔ تاہم آئین ایک کھلی دستاویز ہے، اس میں حالات کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ سول ملٹری تعاون سے پاکستان کی ساکھ پوری دنیا میں بہترہوئی ہے۔ حکومت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکی طرز پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی خواہاں ہے۔ وزارت اطلاعات سرکاری بزنس میں ڈیجیٹل کے لیے بھی سہولت رکھے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ڈیجیٹل پلیٹ فارم (مزاج) کی افتتاحی تقریب سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیشہ ور صحافیوں کی جانب سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے صحافت کرنا مثبت پیش رفت ہے۔ صحافی ان فورمز سے جعلی اور غلط خبروں کی سرکولیشن کو روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرز پر ان پلیٹ فارمز سے جڑے صحافیوں کی تنظیموں سے تجاویز لے کر ریگولیشن بنانے پر غور کررہی ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ حالیہ پاکستان بھارت کشیدگی میں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے بہت ہی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان کے بیانیہ کو تقویت ملی ہے۔