وفاقی حکومت سازی کیلئے اڑھائی سالہ بندوبست سے لاعلم ‘ 28ویں ترمیم کہیں زیر غور نہیں : عطاتارڑ
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
اسلام آباد (وقائع نگار) وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تاررڑ نے کہا ہے کہ وفاق میں حکومت سازی کے لیے اڑھائی سالہ بندوبست سے متعلق لاعلم ہوں۔ نئے صوبوں کے قیام، لوکل باڈیز ایکٹ میں مجوزہ تبدیلیوں پر مشتمل 28ویں ترامیم کہیں بھی زیر غور نہیں۔ تاہم آئین ایک کھلی دستاویز ہے، اس میں حالات کے ساتھ تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ سول ملٹری تعاون سے پاکستان کی ساکھ پوری دنیا میں بہترہوئی ہے۔ حکومت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکی طرز پر ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے کی خواہاں ہے۔ وزارت اطلاعات سرکاری بزنس میں ڈیجیٹل کے لیے بھی سہولت رکھے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ڈیجیٹل پلیٹ فارم (مزاج) کی افتتاحی تقریب سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیشہ ور صحافیوں کی جانب سے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے صحافت کرنا مثبت پیش رفت ہے۔ صحافی ان فورمز سے جعلی اور غلط خبروں کی سرکولیشن کو روک سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرز پر ان پلیٹ فارمز سے جڑے صحافیوں کی تنظیموں سے تجاویز لے کر ریگولیشن بنانے پر غور کررہی ہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ حالیہ پاکستان بھارت کشیدگی میں سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے بہت ہی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان کے بیانیہ کو تقویت ملی ہے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل پلیٹ پلیٹ فارمز نے کہا
پڑھیں:
عوام کو 28ویں ترمیم اور نئی انتظامی اکائیوں کی بحث میں نہ الجھایا جائے، محمود مولوی
سینئر سیاستدان نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ اگلے چھ ماہ کے دوران سندھ حکومت اپنی واضح کارکردگی دکھائے اور ٹاؤن چیئرمینز مثال قائم کریں، اگر چھ ماہ بعد بھی سندھ کے حالات نہ بدلے تو عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ موجودہ نظام کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یا نئے انتظامی یونٹس ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور سینئر سیاستدان محمود مولوی نے کہا ہے کہ کراچی کے شہریوں کو 28ویں ترمیم اور نئی انتظامی اکائیوں کی بحث میں مت الجھایا جائے اور نہ ہی عوام کو آپس میں لڑایا جائے بلکہ حقیقی حل کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ محمود مولوی نے سوال کیا کہ سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شہر سب سے زیادہ مسائل کا شکار کیوں ہے؟ ان کے مطابق کراچی کا اصل بحران اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی نہ ہونا اور کرپشن ہے، سندھ میں پہلے ہی چھ ڈویژن اور تیس اضلاع موجود ہیں مگر مقامی حکومتیں بے اختیار ہیں اور ٹاؤن چیئرمینز بھی اپنی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اگر فنڈز دیئے گئے تھے تو کام کیوں نہیں ہوا اور سندھ حکومت کو سخت احتساب کرتے ہوئے عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کرنا چاہیئے۔
سینئر سیاستدان نے واضح کیا کہ مسئلہ نقشے یا انتظامی تقسیم کا نہیں، بلکہ سیاسی طور پر اختیارات نہ دینے کی ضد کا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ میئرز اور ڈسٹرکٹ کونسلز کو ان کا حق دیا جائے تاکہ مقامی سطح پر حقیقی ترقی اور اصلاحات ممکن ہوں۔ محمود مولوی نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اگلے چھ ماہ کے دوران سندھ حکومت اپنی واضح کارکردگی دکھائے اور ٹاؤن چیئرمینز مثال قائم کریں، اگر چھ ماہ بعد بھی سندھ کے حالات نہ بدلے تو عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے کہ وہ موجودہ نظام کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں یا نئے انتظامی یونٹس ان کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔