26ویں ترمیم کے وقت بھی کہا تھا یہ عوام کے مفاد میں نہیں، حافظ نعیم
اشاعت کی تاریخ: 18th, November 2025 GMT
--حافظ نعیم الرحمان—فائل فوٹو
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے 26ویں ترمیم کے وقت بھی کہا تھا یہ عوام کے مفاد میں نہیں۔
لاہور میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ قرآن اور سنت کے علاوہ کوئی قانون ہے تو اس کو نہیں مانتے لیکن اس کو چیلنج کہاں کریں، سب عدالتیں تو ان کی اپنی بنائی ہوئی ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ جب فارم 47 کی بنیاد پر حکومت بنائی جائے تو ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب عدالتوں پر قدغن لگائیں گے تو لوگ اپنی مرضی کی عدالت بنالیں گے۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ جب انصاف کے راستے بند کر دیے جائیں گے تو لوگ کہاں جائیں گے، جو آواز عوام تک پہنچنی چاہیے اس کو روک دیا جاتا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: حافظ نعیم
پڑھیں:
ہم پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں، جماعت اسلامی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251117-11-8
لاہور (نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی پنجاب محمد جاوید قصوری نے کہا کہ موجودہ ملکی حالات میں عوام شدید معاشی دباو?، بے روزگاری، مہنگائی، بدامنی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی کا اجتماع عام عوام کو مایوسی سے نکال کر اجتماعی جدوجہد کے جذبے کو دوبارہ بیدار کرے گا۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے عوام میں درست قیادت، واضح سمت اور متحد جدوجہد کا جذبہ پیدا کرنا ناگزیر ہے، اور اجتماع عام اسی جدوجہد کا عملی مظہر ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اجتماع عام کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے بعد انتظامی کمیٹیوں کے ذمہ داران سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اجتماع میں لاکھوں مرد و خواتین، نوجوان، بزرگ، طلبہ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شرکت کریں گے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام اب حقیقی تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ جماعت اسلامی ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا عزم رکھتی ہے، جس میں کرپشن، اقربا پروری اور ناانصافی کا خاتمہ ہو اور ہر شہری کو تعلیم، صحت، روزگار اور انصاف کی یقینی فراہمی ہو۔انہوں نے کہا کہ اجتماع میں قومی مسائل پر جامع پلان پیش کیا جائے گا جس میں معاشی اصلاحات، کرپشن کے خاتمے کے اقدامات، نظامِ تعلیم کی بہتری، عدالتی اصلاحات، پولیس ریفارمز اور گورننس کے موثر نظام کے لیے تجاویز شامل ہوں گی۔