جنرل عاصم منیرکی پاکستان آرمی رائفل ایسوسی ایشن سینٹرل میٹ کی اختتامی تقریب میں شرکت
نشانہ بازی مقابلے میں پاک فوج، فضائیہ، بحریہ، سول آرمڈ فورسز اور صوبائی ٹیموں نے شرکت کی

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے 45ویں پاکستان آرمی رائفل ایسوسی ایشن سینٹرل میٹ کی اختتامی تقریب میں شرکت کی ہے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آ ئی ایس پی آر) کے مطابق 45ویں پاکستان آرمی رائفل ایسوسی ایشن سینٹرل میٹ کی اختتامی تقریب جہلم میں ہوئی جس میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اس نشانہ بازی کے مقابلے میں پاک فوج، فضائیہ، بحریہ، سول آرمڈ فورسز اور صوبائی ٹیموں نے بھرپور شرکت کی، 45ویں پی اے آر اے سنٹرل میٹ میں دو ہزار سے زائد شوٹرز نے حصہ لیا۔ پاک فوج نے تیسری انٹر سروسز کامبیٹ شوٹنگ چیمپئن شپ 2025 جیت لی، پاک فوج نے تمام چار انٹر سروسز میچز میں کامیابی حاصل کی، پنجاب رجمنٹ نے یونٹ فائرنگ پروفیشنسی میچ گروپ-ون میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ پنجاب رجمنٹ کے سپاہی محمد عرفان ماسٹر ایٹ آرمز قرار پائے، آرمی مارکس مین شپ یونٹ کے نائب صوبیدار عمر فاروق نے آرمی ہنڈرڈ رائفل میچ ٹرافی جیت لی۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے شرکا کی بہترین نشانہ بازی کو سراہا اور کہا کہ شوٹنگ میں مہارت فوجی تربیت کا بنیادی جزو رہنا چاہئے۔ علاوہ ازیں آرمی چیف نے ملٹری کالج جہلم کی سو سالہ تقریبات میں بھی شرکت کی، سینٹینری یادگار اور کالج میوزیم کا افتتاح کیا، کالج کی ایک صدی پر محیط شاندار خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ ملٹری کالج جہلم نے قیادت، نظم و ضبط اور حب الوطنی کو فروغ دیا، انہوں نے یادگارِ شہدا پر پھول چڑھائے۔ قبل ازیں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی آمد پر کور کمانڈر راولپنڈی اور آئی جی ٹریننگ اینڈ ایویلیوایشن نے استقبال کیا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل پاک فوج شرکت کی

پڑھیں:

اگر حور ہو یا پری گلے کا ہار بن جائے تو…

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-03-9

 

باباالف

انورمسعود نے کہا ہے:

چھوڑا نہیں کسی کو بھی یلغار وقت نے

آخر کھجور کو بھی چھوارا بنا دیا

فیلڈ مارشل عاصم منیر اگر اس انجام سے بچنا چاہتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر کسی حسینہ کو کئی بار دیکھنا نہ پڑے تو پھر وہ ایک بار بھی دیکھے جانے کے قابل نہیں۔ 27 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد کئی بار نہیں ہر بار ہر طرف فیلڈ مارشل عاصم منیر مرکز نگاہ ہوں گے۔ اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ غالب نے کہا تھا:

چاہیے اچھوں کو جتنا چاہیے

یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے

اچھوںکو دنیا کی ہر نعمت ملے یہ فطری بات ہے لیکن اگر اچھے خود ہمیں چاہیں، خود ہمیں مل جائیں، تو اس سے بڑی نعمت کیا ہوگی۔ 27 ویں ترمیم سے کچھ ایسا ہی بندوبست ہوگیا ہے۔ جنگ مئی کے بعد پاکستانیوں کے لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے بڑھ کر اچھا کون ہوگا۔ دنیا بھر میں جو عزت، مرتبہ اور مقام انہوں نے پاکستان کو دلوایا ہے ایسا کس کے تصور میں تھا تو اگر یہ ’’اچھے‘‘ 27 ویں ترمیم کے ذریعے آئین بدل کر اقتدار کی مدت بڑھاکر تا حیات ہمارے ساتھ رہیں تو پھر اور کیا چاہیے؟ اسی غزل میں آگے غالب نے کہا ہے

چاہتے ہیں خوبرویوں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

اس شعر کی 27 ویں ترمیم کے بعد تشریح یہ ہوگی کہ خوبصورت لوگ سبھی کو اچھے لگتے ہیں مگر اگر کوئی واقعی حسن دیکھناچاہے تو فیلڈ مارشل عاصم منیر کو دیکھے۔ غالب کے خوبرو کے پاس صرف ظاہری حسن ہے مگر ہمارے خوبرو کے پاس اقتدار کی، طاقت کی، دلکشی بھی ہے۔ حسن اقتدار، حسن ترمیم اور حسن قیادت کسی ایک خوبرو میں جمع ہیں تو وہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ہیں۔ جس طرح طب میں ہر بیماری کی دوا میں منقا اور آج کل ہر شادی میں بریانی لازم ہے اب پاکستان میں ہر معاملے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی رضا اور آشیر باد لازمی ہے۔ جس طرح غالب کو سمجھنے کے لیے اس سے عشق کرنا ہی پڑتا ہے اسی طرح اب پاکستان کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کے لیے فیلڈ مارشل کی نظر عنایت ضروری نہیں لازمی ہے۔ حاسدین حسد کرتے ہیں تو کرتے رہیں۔

آکے لے جائے میری آنکھ کا پانی مجھ سے

کیوں حسد کرتی ہے دریا کی روانی مجھ سے

یہ انداز بھی صرف غالب ہی کو سوٹ کرتا ہے کہ وہ یہ چاہیں کہ کوئی آئے اور مجھ سے محبت کرے۔ یہ محبت عبادت کی طرح نہیں ہوتی تھی، بڑی پابندی، بڑی بے دلی اور بڑی بے رغبتی کے ساتھ اور نہ ہی بھڑک کی طرح ہوتی تھی کہ تھوڑی دیر میں فراغت ہو جائے بلکہ تا حیات ہوتی تھی۔ اب پاکستان اور فیلڈ مارشل کی محبت کا بھی یہی عالم ہے۔ نہ یہ محبت عارضی ہے، نہ وقتی اور نہ موسمی یہ محبت دائمی ہے جس میں محبوب کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔

تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے

صرف ایک شخص کو پائوں گا جدھر جائوں گا

صاحبو وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔۔ تو اگر 75 برس کی ریاضت کے بعد یہ چمن ہمیں ایک دیدہ ور دے ہی بیٹھا ہے تو کیا یہ اچھا نہیں کہ اسے 27 ویں ترمیم کی پیکنگ میں سنبھال کررکھا جائے تاکہ جمہوریت کی گرد اس پر نہ پڑے۔ ہمیں احساس نہیں کسی چیز کی کمی یا رہنما یا لیڈر کی غیر موجودگی سے ادارے یا لوگوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر جب کہ ہم بھارت اور افغانستان کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں اور یہ حالت جنگ تاحیات ہے تو پھر فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی تاحیات ہونے چاہیں۔۔ کیوں۔۔ اس لیے کہ بھارت اور افغانستان کے لیے ان کا نام ہی کافی ہے۔

ہمیں ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ معترضین کو فیلڈ مارشل عاصم منیر کے تاحیات فیلڈ مارشل رہنے سے تکلیف کیا ہے۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے پا کستان کو کوئی جنگ جیت کر نہیں دی لیکن ریٹائر منٹ کے بعد حکومت پاکستان نے ازراہ جنرل نوازی انہیں لاہور کے نزدیک 90 ایکڑ یعنی 4 لاکھ 35 ہزار 600 مربع گز زمین مراعات کے طور پر دے دی۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے تو ہمیں پاکستان کی سب سے عظیم جنگی کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اگر انہیں پورا پاکستان دے دیا گیا تو کسی کے کلیجے میں کیوں درد ہورہا ہے؟

پھر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دوام اقتدار کی لازمی فینٹسی اور وہم دوام ہے۔ رومی بادشاہ آگسٹس اور کا لیگولا نے خود کو خدائوں کا اوتار قرار دیا تھا۔ اکبر نے دین الٰہی کے ذریعے مذہب، سلطنت اور اپنی اطاعت کو یکجا کردیا تھا۔ نپولین بونا پارٹ نے فرانس کا نیا آئین لکھوا کر اپنے لیے غیر معینہ مدت اقتدار کا راستہ بنایا تھا۔ ہٹلر نے 1933 میں Enabling Act منظور کروا کر پارلیمان کو بے اختیار کردیا تھا۔ صدر ضیاالحق اور جنرل مشرف نے آئینی ترامیم کے ذریعے اپنی بغاوت اور اقتدار کو قانونی شکل دی تھی۔ صدر ایوب نے 1960میں بنیادی جمہوریت کے نظام کے ذریعے اپنی صدارت کی منظوری عوام سے لی تھی۔ مسولینی، پنوشے اور قذافی سب نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے جعلی ریفرنڈم کروائے تھے۔ ولادی میر پیوٹن نے روس کے آئین میں ترمیم کروا کر اپنی مدت اقتدار کو 2036 تک طول دینے کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ اردشیر بابکان نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسے ایران کی قدیم سلطنتوں سے جوڑتے ہوئے کیلنڈر سے تین صدیاں غائب کردی تھیں۔ محمد رضاشاہ پہلوی نے 1976 میں شاہنشاہی کیلنڈر نافذ کرکے 1355 کو 2535 کردیا تھا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی اگر دوام کا خواب دیکھ رہے ہیں تو کون سا نیا کررہے ہیں کون سا جرم کررہے ہیں۔ جب بادشاہ محسوس کرتے ہیں کہ سورج ان کے محل کے گنبد پر اپنی کرنیں نہیں بکھیر رہا ہے تو وہ آسمانوں پر مدار تبدیل کرنے نکل پڑتے ہیں۔

عوام کی فلاح اور بہبود کا جہاں تک تعلق ہے 27 ویں آئینی ترمیم کا حال غالب کی عبادت جیسا ہے۔۔ ایک دن بھی مسجد گیا ہوں تو کافر۔۔ عوام کے بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، روزگار، معاشرتی تحفظ، عدل وانصاف کی فراہمی کو ہاتھ لگانے سے اس ترمیم میں ایسے ہی اجتناب کیا گیا ہے جیسے غالب مسجد جانے سے کرتے تھے۔ ترمیم میں بس ایک ہی کوشش ہے۔ اقتدار کا دوام اور طوالت۔ حالانکہ اس باب میں بھی غالب کہہ گئے ہیں۔۔۔ اگر حور ہو یا پری گلے کا ہار بن جائے تو زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔

 

بابا الف

متعلقہ مضامین

  • جہلم :آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر پاکستان آرمی رائفل ایسوسی ایشن سینٹرل میٹ 2025ء کی اختتامی تقریب سے خطاب کررہے ہیں
  • نشانہ بازی میں مہارت عسکری تربیت کا بنیادی مقصد رہنا چاہیے ،فیلڈ مارشل
  • اگر حور ہو یا پری گلے کا ہار بن جائے تو…
  • نشانہ بازی میں مہارت،عسکری تربیت کابنیادی مقصد رہنا چاہیے،فیلڈ مارشل
  • نشانہ بازی میں مہارت فوجی تربیت کا بنیادی جزو رہنا چاہیے: فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • پاکستان آرمی رائفل ایسوسی ایشن کا 45 واں اجلاس، فیلڈ مارشل کی خصوصی شرکت
  • نشانہ بازی میں مہارت فوجی تربیت کا بنیادی ہدف رہنا چاہیے، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
  • نشانہ بازی میں مہارت، عسکری تربیت کا بنیادی مقصد رہنا چاہیے: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر
  • وزیراعظم شہباز شریف سے ترک صدر کی ملاقات، فیلڈ مارشل بھی شریک