احمد نورانی کے بھائیوں کی گمشدگی کا کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی کو طلب کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
احمد نورانی کے بھائیوں کی گمشدگی کا کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی کو طلب کرلیا WhatsAppFacebookTwitter 0 24 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی احمد نورانی کے 2 بھائیوں کی بازیابی کے لیے ان کی والدہ کی درخواست پر سماعت کے دوران آئندہ سماعت پر آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا۔
فیکٹ فوکس نامی نیوز آؤٹ لیٹ سے منسلک امریکا میں مقیم صحافی احمد نورانی نے حال ہی میں ایک اعلیٰ فوجی عہدیدار اور ان کے رشتہ داروں کے بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی۔
احمد نورانی کے دو بھائی محمد سیف الرحمن حیدر اور محمد علی بدھ کی علی الصبح اپنی رہائش گاہ سے لاپتہ ہوگئے تھے۔
احمد نورانی نورانی کی والدہ آمنہ بشیر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنے دونوں بیٹوں کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی تھی۔
درخواست گزار آمنہ بشیر نے موقف اپنایا تھا کہ ان کے دونوں بیٹوں کو اسلام آباد میں ان کے گھر سے رات ایک بج کر پانچ منٹ پر ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے نامعلوم اہلکاروں نے ’جبری طور پر لاپتہ‘ کر دیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ بالکل واضح ہے کہ احمد نورانی کو خاموش کرانے کے لیے ان کے بھائیوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
درخواست میں حکومت، وزارت دفاع، آئی جی اسلام آباد اور تھانہ نون کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا ہے۔
ہفتہ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایس ایچ او کو گمشدگی سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ دریں اثنا درخواست گزار کے وکیل ایمان حاضر مزاری نے واقعے کے 3 دن گزرنے کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرنے پر حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
سماعت کا احوال
آج کی سماعت کے دوران جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے ایس ایچ او کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو 26 مارچ کو طلب کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے امریکا میں مقیم صحافی احمد نورانی کے بھائیوں کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کے دوران ایس ایچ او کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد کو 26 مارچ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
درخواست گزار کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان حاضر مزاری صحافی احمد نورانی کی والدہ اور بہن کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئیں۔
دوران سماعت احمد نورانی کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے، انہوں نے کہا، ’اگر میرے بچوں کو کچھ ہوتا ہے تو کیا ہائی کورٹ ذمہ دار ہوگی؟‘۔
ایس ایچ او نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کردی، انہوں نے مزید کہا کہ ہم تمام دستیاب ذرائع کا استعمال کر رہے ہیں، پولیس نے جیو فینسنگ کی، کال کی تفصیلات کا جائزہ لیا اور گھر کے قریب نصب کیمروں کی جانچ پڑتال کی ہے۔
جسٹس اعظم منہاس نے پولیس افسر سے کہا کہ انہیں اپنی رپورٹ پیش کرنی چاہیے تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
اسلام آباد پولیس کے وکیل کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج کرنے کی کوئی درخواست نہیں ہے، جسٹس انعام امین منہاس نے ایس ایچ او سےمکالمہ کرتے کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے اپنی فائنڈنگ دینی تھی وہ نہیں دی۔
وکیل ایمان حاضر مزاری نےکہا کہ 5 دن سے اگر یہ پرچہ درج نہیں کر رہے تو تفتیش کیسے کر رہے ہیں؟ واقعے کو 6 دن ہو چکے ہیں لیکن پولیس نے ابھی تک کچھ نہیں کیا،جج نے ریمارکس دیے کہ میں صرف اپنے اختیار کے مطابق حکم دے سکتا ہوں۔
وکیل کا کہنا تھا کہ اس کیس میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ احمد نورانی کے بھائیوں کو ان کی حالیہ رپورٹنگ کی وجہ سے اغوا کیا گیاہے۔
جسٹس منہاس نے ریمارکس دیے کہ وہ ایسا کوئی حکم جاری نہیں کریں گے جس پر عمل درآمد نہ ہو سکے۔
ایمان حاضر مزاری نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کی سماعت آج یا کل تک ملتوی کی جائے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26 مارچ تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: احمد نورانی کے بھائیوں ا ئی جی اسلام ا باد صحافی احمد نورانی ایمان حاضر مزاری اسلام ا باد ہائی کو طلب کرلیا بھائیوں کی ایس ایچ او ہائی کورٹ منہاس نے انہوں نے کی والدہ کورٹ نے نے ایس
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔