غزہ کے مسلمانوں کی مدد کرنا عالم اسلام کی مدد ہے، موریطانیہ کے عالم دین کی اپیل
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
علامہ دین محمد الحسن الدادو نے مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے بیانات میں کہا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کو دور جدید میں انتہائی گھناؤنے جرم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مظلومین کی حمایت کے لئے موریطانیہ میں علماء کونسل کے سربراہ اور ممتازعالم دین محمد الحسن اولد الدادو نے امت مسلمہ سے غزہ کی پٹی کے باشندوں کی مادی اور اخلاقی حمایت کو متحرک کرنے پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ اور اس کا دفاع کیا جائے، غزہ کے مسلمانوں کی مدد کرنا عالم اسلام کی مدد ہے۔ علامہ الددو نے مرکز اطلاعات فلسطین کو دیے گئے بیانات میں کہا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام کو دور جدید میں انتہائی گھناؤنے جرم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قابض کا مقصد غزہ کی پٹی میں مجاہدین کی طاقت کو توڑنا ہے مگراس کی سازشیں کامیاب نہیں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی استقامت کے ایسے طریقے وضع کیے۔ صہیونی دشمن فلسطینی بچوں کی آنکھوں میں دیکھ سکتا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ غزہ کے لوگ امید سے جڑے ہوئے ہیں جس کے لیے وہ زندہ رہنے کے لیے پرعزم ہیں اور موت سے نہیں ڈرتے، یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے تباہ شدہ گھروں کی گلیوں سے نمودار ہوتے ہیں، اپنی صلاحیتوں سے دنیا کو حیران کر دیتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: غزہ کی پٹی انہوں نے کہا کہ کہ غزہ کی مدد
پڑھیں:
"ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جسکے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فلم "ادے پور فائلز" کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کیا ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ فلم ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ہمدرد اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرتی ہے بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق فلم میں جان بوجھ کر ایسا بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والا دکھاتا ہے، جو سراسر غلط، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس فلم کے مندرجات میں تعصب اور نفرت چھپی ہوئی ہے، جو ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے حلف نامے میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی اسکریننگ کمیٹی کی رپورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے فلم میں صرف چھ معمولی ترامیم کی سفارش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بالکل ناکافی ہیں اور کمیٹی نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے سنجیدہ اعتراضات کو نظرانداز کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جس کے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ علماء ہند نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ فلم کی ایک نجی اسکریننگ کرائی جائے تاکہ معزز جج صاحبان خود اس کے مواد اور مقصد کا اندازہ لگا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کی ریلیز ملک کے پُرامن ماحول کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 10 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے اس فلم پر عبوری پابندی عائد کی تھی، جسے فلم سازوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 16 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے پابندی ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی منافرت کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکز کی اسکریننگ کمیٹی کو اعتراضات پر فوری غور کرنا چاہیئے۔