ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا سے تقریباً 400-500 کلومیٹر جنوب مغرب میں کافا زون اپنے سرسبز و شاداب مناظر، گھومتی ہوئی پہاڑیوں اور بھرپور حیاتیاتی تنوع کے لیے جانا جاتا تھا۔

 اس علاقے کے لوگ اپنی بھیڑ بکریاں کو گاؤں سے دور چھوٹی سرسبز پہاڑیوں تک لے جاتے تھے، جہاں وہ گھاس اور دیگر پودے کھاتیں اور سرے شام لوٹ اتیں۔

دوسروں کی طرح ایک نوجوان اخمد کلدی بھی اپنی بھیڑ بکریوں کو ان چراگاہوں میں لے جایا کرتا تھا۔

تاھم  کالدی اپنی 2 درجن بھر بھیڑ بکریوں کے بارے میں فکر مند رہتا تھا، جو ہمیشہ کم دودھ اور سست رہتی تھیں۔ ایک دن اُس نے چراگاہ کا علاقہ بدل دیا، کیونکہ وہ اِنہیں ایک نیا ماحول دینا چاہتا تھا، اِس خیال سے کہ شاید ان میں کچھ تبدیلیاں آئیں۔

چراہ گاہ تبدیل کرنے کے چند دن بعد اس نے ان بکریوں میں کچھ تبدیلیاں دیکھ لیں۔ کالدی متجسس ہوا اور اس نے دیکھا کہ بکریاں بڑی دلچسپی سے کچھ سرخ رنگ  کے بیر کھا رہی ہیں اور شوخ و چنچل ہوتی جا رہی تھیں۔

پہلے وہ اپنی بکریوں کو چراہ گاہ میں ڈالنے کے فوراً بعد نزدیک جگہ پر آرام کرتا یا سو جاتا تھا اور کئی بار وہ مغرب تک بغیر کسی فکر کے سوتا رہتا۔ اور بکریاں چارہ کھاتی رہتں۔ مگر اب اس کو ہر وقت جاگنا پڑتا تھا۔

متجسس اخمد کالدی نے خود ان بیریوں کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کافی تعداد میں ان سرخ بیروں کو چن لیا، انہیں کچل کر پانی میں ملا کر ایک مشروب بنایا۔ اور جب تھکن محسوس کرتا وہ یہ مشروب پیتا، اخمد کالدی نے اپنی بکریوں کی طرح خود کو بھی چوکنا محسوس کرنے لگا۔

 کالدی کو جلد ہی معلوم ہو گیا کہ سرخ  بیریوں میں قابل ذکر خصوصیات ہیں۔ وہ کچھ بیریوں کو مقامی عبادت گاہ میں لے گیا، جہاں عبادت گزارلوگ اپنی طویل عبادت کے دوران جاگتے رہنے کے لیے جدوجہد کرتے رہتے تھے۔ اس نے ان بیریوں کا مشروب بنا کر ان راہبوں کو پیش کیا۔

راہبوں کو پہلے تو شک ہوا اور وہ اس سے اجتناب کرنے لگے۔ لیکن کالدی کے اصرار پر سرخ بیر کے مشروب کوآزمانے کا فیصلہ کیا۔  اس کے استعمال کے بعد وہ بھی اپنے اپ کو چوکنا محسوس کرنے لگے۔

انہوں نے اپنی عقیدت کے دوران جاگتے رہنے کے لیے بیر کا مشروب  کا استعمال شروع کیا اور اب وہ نیند کے غلبے کے دوران اس کو استعمال کرتے لگے۔

جلد ہی اس معجزاتی بیر کی خبر پورے علاقے میں پھیل گئی۔ اب ان راہبوں نے اس پودے کو کالدی سے خرید کر کاشت کرنا شروع کیا، اور اس کو وہ “قہوا” کہنے لگے۔ (جس کا مطلب ہے “جو نیند کو روکتا ہے”)۔

وقت گزرنے کے ساتھ تیاری کا طریقہ تیار ہوا، اور مشروب “کافا”  اور “قہوا” کے نام سے جانا جانے لگا۔ آھستہ آھستہ یہ مشروب پورے ایتھوپیا میں پھیل گیا، اور جلد ہی یہ ثقافت اور ورثے کا ایک لازمی حصہ بن گئی اور تجارت کا حصہ بھی بننے لگی۔

کافی کے پھیلاو میں یمنیون کا اہم کردار

پرانے زمانے میں یمنی تاجر تجارت کے لیے ایتھوپیا آیا کرتے تھے۔ انھوں نے ان کافی کی سرخ رنگ کی بیریوں میں بھی دلچسپی لی اور اس کی کاشت شروع کر دی۔

دیگر بڑے عرب ممالک کے تاجر جو تجارت کی غرض سے یمن آتے تھے، انھوں نے بھی کافی بین کی تجارت میں دلچسپی لی اور اپنے ملک میں اس کو لایا۔

تاریخی ریکارڈ کے مطابق یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یمن  کے مسلمانوں نے پوری دنیا میں موجودہ کافی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ کیونکہ کافی کی کاشت کرنے والے پہلے ممالک میں سے ایک یمن ہے، جس کی فصل 15ویں صدی میں ایتھوپیا سے متعارف کرائی گئی تھی۔

یمنی تاجروں نے جزیرہ نما عرب، مصر، شام اور آخر کار یورپ میں کافی پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

 موچا بندرگاہ اور کافی کا فروغ

16ویں سے 18ویں صدی کے دوران یمن کے بندرگاہی شہر “موچا” کافی کی تجارت کا ایک بڑا مرکز بن گیا، جہاں کافی کی پھلیاں باقی دنیا کو برآمد کی جاتی تھیں۔

 جلد ہی یہ اصطلاح “موچا” اعلی معیار کی کافی کا مترادف بن گیا، اور اس شہر کی  کافی اپنے مخصوص ذائقے اور مہک کے لیے مشہور ہو گئی۔

قارئین کرام کے لئے یہ بات حیران کن ہوگی کہ مشہور “موکا کافی” یمن کی پیداوارےہ ۔ اور اس کی شروعات یمن کے شہر موچا سے شروع ہوئی۔ جو بعد میں “موکا کافی” کے نام سے مشہور ہوئی۔

 یورپ میں کافی کا پھیلاؤ (17ویں صدی)

اسی طرح ان یمنی مسلمان  تاجروں نے کافی کو یورپ میں متعارف کرانے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا، خاص طور پر اٹلی اور انگلینڈ کے ساتھ تجارتی راستوں کے ذریعے اس کو پھیلایہ۔

یورپ کے کئی کافی ہاؤسز،  یمن سے اپنی کافی پھلیاں حاصل کرتے تھے۔ اور پھر ان کو ایک پراسیس کے ذریعے مارکیٹ میں فروخت کرتے۔

یمنی کاشتکاروں نے کافی کی مختلف اقسام کو محفوظ اور کاشت کیا، جن میں مشہور “مراگوگائپ” اور “موکھا” اقسام شامل ہیں۔

 مکہ میں دنیا کی پہلی کافی شاپ

اسلام آباد میں مقیم کافی کی غیر ملکی ماہر ماجد تباک کے مطابق کافی کو ایتھوپیا سے یمن کے راستے سب سے پہلے سعودی شہر مکہ میں تاجروں اور اسلام کی تبلیغ کی غرض سے جانے والوں کے ذریعے تقریبا 15ویں صدی کے وسط میں لایا گیا تھا، جبکہ یورپ میں کافی بہت دیر بعد پھیلی۔

عرب تاجر عمر بن الخطاب کا خادم، جسے “علی بن عمر” یا “عمرو بن الفہم” کہا جاتا ہے نے کافی کو عرب دنیا میں معارف کیا۔ تاریخی ریکارڈ کے مطابق، مکہ میں دنیا کی پہلی کافی شاپ کھولنے کا سہرا  عبد القادر الجزیری (جوعبد القادر الجزری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کو جاتا ہے۔

عبد القادر الجزیری ایک صوفی عالم اور تاجر تھے، جو14ویں صدی میں مکہ میں رہتے تھے۔  کہا جاتا ہے کہ اس نے 1450-1470 عیسوی کے آس پاس مکہ میں حرم کے نزدیک دنیا کی پہلی کافی شاپ کھولی تھی، جو حاجیوں اور مقامی لوگوں کو کافی/قہوا پیش کرتی تھی۔

تاھم بعض ازاد  ذرائع نے “حسین الحارثی” یا “حسین الحارث” نامی ایک شخص کا ذکر بھی کیا ہے جس نے مکہ میں پہلی کافی شاپ کھولی تھی۔

بہرحال، عبد القادر الجزیری کو سب سے زیادہ پہچانا جاتا ہے اور مکہ میں پہلی کافی شاپ کھولنے کا اعزاز اسی کو کہا جاتا ہے۔ اس کافی شاپ کے کھولنے کی دیر تھی کہ مختلف ممالک سے عمرہ اور حج کی نیت سے آئے ہوئے لوگوں نے اپنے ملک جا کر کافی کو مشہور کر دیا۔

کافی یورپ میں آگئی

کتابی ریکارڈکے مطابق 16ویں صدی کے آس پاس کافی کو پہلی بار وینس، اٹلی کے ذریعے یورپ میں متعارف کرایا گیا تھا، جب وینس کے تاجر مشرق وسطیٰ میں اپنی تجارتی مہمات سے کافی کی پھلیاں  لائے تھے۔

کافی یورپ بھر میں تجارتی راستوں کے ذریعے پھیلتی ہے، خاص طور پر بحیرہ روم کے ساحل کے ساتھ بڑی بندرگاہیں جیسے مارسیل، فرانس، اور ایمسٹرڈیم، نیدرلینڈ، کافی کی تجارت کے مرکز بن گئے۔

یورپ میں کافی ہاؤسز کا قیام

ریکارڈ کے مطابق کافی ہاؤسز اٹلی (1650)، انگلینڈ (1652) اور فرانس (1669) میں قائم کیے گئے۔ یہ کافی ہاؤسز دانشوروں، فنکاروں اور سیاست دانوں کے لیے مقبول اکٹھے ہونے کے مقامات بن گئے، جس سے بحث و مباحثہ، تخلیقی صلاحیتوں اور جدت طرازی کی ثقافت کو فروغ ملا۔

کافی کی کھپت میں اضافہ (18ویں صدی)

جیسے جیسے تجارتی راستے پھیتے گئے، کافی کی پیداوار میں اضافہ ہوتا گیا، اور کافی زیادہ وسیع پیمانے پر دستیاب اور سستی ہو گئی۔ 18ویں صدی کے وسط تک کافی یورپی ممالک میں ایک اہم مشروب بن چکی تھی۔

تاھم کافی کو نوآبادیاتی دور میں خصوصا مسلمان ممالک میں وسیع پیمانے پر متعارف یا فروغ نہیں ہونے دیا گیا اور اس کو elite class کا درجہ دیا گیا۔ اس کی جگہ چائے کو معارف کیا گیا۔

چائے نوآبادیاتی ممالک کی ثقافت میں گہرائی سے جوڑ دی گئی، جو سماجی اجتماعات، مہمان نوازی اور روزمرہ کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گی۔ جبکہ کافی یورپ انگلینڈ اور امریکہ وغیرہ کی ضرورت اور ثقافت بن گئی۔

کافی شہری علاقوں میں مقبولیت حاصل کرتے ہوئے، پاکستانی ثقافت میں اتنی گہری نہیں ہے۔ تاریخی طور پر کافی پاکستان میں چائے سے زیادہ مہنگی رہی ہے، جس کی وجہ سے عام لوگوں کی اس تک رسائی کم ہے۔

دوسری طرف چائے وسیع پیمانے پر دستیاب اور سستی رہی ہے، جو اس کی مقبولیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

 دستیابی اور مارکیٹنگ

کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان میں کافی وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں تھی، اور مارکیٹنگ کی کوششیں محدود تھیں۔ اس کے برعکس چائے کی بڑے پیمانے پر مارکیٹنگ اور پورے ملک میں تقسیم کی گئی ہے۔

بدلتے ہوئے رجحانات

حالیہ برسوں میں پاکستان کے شہری نوجوانوں اور اشرافیہ میں کافی میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں کافی شاپس اور کیفے ابھرنا شروع ہو گئے ہیں، جو کافی مشروبات کی ایک رینج پیش کرتے ہیں اور کافی کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔

 اگرچہ کافی پاکستانی ثقافت میں چائے کی طرح گہرائی سے جڑی ہوئی نہیں ہے، لیکن خاص طور پر نوجوان نسلوں اور شہری علاقوں میں کافی میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔

گلبرگ گرین، اسلام آباد میں K2 فوڈ بار کے غیر ملکی مالک کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلام آباد کی پہلی کافی شاپ ہے، جوقدیم روایتی یونانی، بوسنیائی اور عربی کافی  پیش کرتی ہے۔ اور ان اقسام کو پاکستان میں فروغ دے رہی ہے۔ ان کے مطابق کافی مسلمانوں کا قدیم اثاثہ ہے جو مشینی دور میں  گم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی بڑی وجہ اس کی بلند قیمت اور لاعلمی ہے۔

سرکاری ریکارڈ کے مطابق پاکستان چائے کی درآمد پر تقریباَ 8 بلین امریکی ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ 1.

26 ملین  ڈالر کافی پر۔ کچھ دلچسپی کی وجہ سے خیبرپختونخوا کے شہر مردان، مانسہرہ اور گلگت بلتستان کے چند کسانوں نے علاقوں میں کافی پھلیاں کاشت کرنا شروع کیں لیکن بہت کم مقدار میں۔

وہ اچھی ترقی کی توقع کر رہے ہیں ان کے مطابق اگر حکومت انہیں سہولتیں فراہم کرے تو یہ  پاکستان  کی  ضرورت  پوری کر سکتے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس انڈسٹری کو بھی فروغ دیا جائے تاکہ قیمتی زرےمبادلہ بچایا جا سکے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبید الرحمان عباسی

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ریکارڈ کے مطابق وسیع پیمانے پر یورپ میں کافی دنیا کی پہلی اسلام آباد کافی یورپ اہم کردار کے دوران کے ذریعے کافی کی جاتا ہے کے ساتھ کافی کو نے کافی مکہ میں رہی ہے کے لیے صدی کے اور اس جلد ہی

پڑھیں:

پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ چھیڑ تو بیٹھے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ چین اور جاپان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ امریکی ڈالر کی قدر گراسکتے ہیں۔ چین نے ابھی اس ہتھیار کا ایک راؤنڈ ہی فائر کیا ہے اور امریکہ کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں سونے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہے کہ پاکستان میں جلد ہی سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ ہو جائے گی۔

یہ کیا معاملہ ہے؟ ڈالر اور سونے کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ڈالر کی قدر گرنے اور سونے کی قدر بڑھنے سے امریکی ٹیرف کا کیا تعلق ہے، اسے سمجھنے کے لیے بات بالکل ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔

شاید آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ پر اربوں ڈالر کا قرض ہے۔ یا یہ کہ چین کے پاس بہت بڑی مقدار میں ڈالرز موجود ہیں۔

امریکہ نے اربوں ڈالر کا یہ قرض ٹریژری بانڈز بیچ کر حاصل کیا ہے۔ امریکی حکومت کے جاری کردہ ٹریژری بانڈز چین، جاپان سمیت مختلف ممالک نے خرید رکھے ہیں۔ بانڈز خریدنے والے ملکوں کو ان پر منافع ملتا ہے اور یہ منافع امریکی حکومت دیتی ہے۔

جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں جن کی مالیت 1126 ارب ڈالر بنتی ہے۔ فروری 2025 کے ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس 784 ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز تھے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے بھی امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں اور امریکہ سے ان پر منافع لیتے ہیں۔

اس منافع کی شرح حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کمرشل بینکوں کے شرح منافع سے کم ہوتی ہے۔ نو اپریل کو جب صدر ٹرمپ نے ٹیرف کا اعلان کیا تو یہ شرح 4 اعشاریہ 20 فیصد تھی۔ لیکن ٹیرف کے جھٹکے کے سبب ایک ہفتے میں اس شرح میں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا اور یہ 4 اعشاریہ 49 فیصد پر پہنچ گئی۔

امریکی ٹریژری بانڈ کی شرح منافع میں جب بھی 100 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوتا ہے امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔

نئی صورت حال میں امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والوں کی دلچسپی کم ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کو اس پر زیادہ منافع کی پیشکش کرنا پڑی۔

اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والا کوئی نہ ہو تو ان پر امریکہ کو بہت زیادہ شرح منافع کی پیشکش کرنا پڑے گی اور اگر ٹریژری بانڈز رکھنے والے ممالک انہیں بیچنا شروع کردیں تو نہ صرف امریکہ کو منافع کی شرح مزید بڑھانا پڑے گی بلکہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ ڈالر چھاپ کر ہی بانڈز پر منافع ادا کرتا ہے۔

عالمی منڈی میں ڈالر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ 20 برس پہلے دنیا میں 70 فیصد تجارت ڈالر سے ہوتی تھی۔ اب صرف 58 فیصد عالمی لین دین ڈالر سے ہوتا ہے۔

امریکہ نہیں چاہتا کہ بانڈز کی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو یا ڈالر کی قدر گرے۔ یا امریکہ کو بانڈز پر بہت زیادہ منافع دینا پڑے۔

اسی لیے صدر ٹرمپ نے چین کے سوا تمام ممالک کیلئے اضافی ٹیرف پر عمل درآمد تین ماہ کیلئے موخر کردیا۔

دوسری جانب امریکہ کا مرکزی بینک ٹریژری بانڈز پر شرح منافع کو زبردستی کم رکھنے کی کوشش کو رہا ہے۔

لیکن یہ کوشش بھی بد اعتمادی کا سبب بن رہی ہے۔

ایسے میں چین نے مزید ٹریژری بانڈز خریدنے کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ پچھلے مسلسل پانچ ماہ سے چین ہر ماہ اپنے ذخائر میں سونے کا اضافہ کر رہا ہے۔

اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی مرکزی بینک سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے لگے ہیں۔

بلوم برگ جیسے ممتاز امریکی مالیاتی ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ڈالر کی جگہ سونا لینے والا ہے۔

ان حالات میں مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چین اور جاپان اپنے پاس موجود ٹریژی بانڈز فروخت کریں گے یا نہیں۔

امریکہ میں کئی مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین کم از کم اعلانیہ طور پر ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں خود بھی نقصان ہوگا۔ ان کے پاس موجود بانڈز کی مالیت بھی کم ہو جائے گی۔

لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین نے 24 ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔

حقیقت میں چین خاموشی سے اپنے پاس موجود ٹریژری بانڈز کو بیچ رہا ہے۔ 2013 میں چین کے پاس 1350 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز تھے جن کی مالیت اب 780 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔

لیکن یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس امریکی بانڈز کی مالیت اس سے زیادہ تھی کیونکہ یورپی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے بھی اس نے بانڈز خریدے تھے اور اب چین یہ بانڈز مارکیٹ میں پھینک رہا ہے۔

بلوم برگ کے مطابق دیگر عالمی سرمایہ کار بھی ڈالر کے بجائے متبادل جگہ سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ کینڈا کا پنشن فنڈ اپنا سرمایہ یورپ منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

ڈالر پر اعتماد ختم ہوا تو اس کی قدر میں لا محالہ کمی ہوگی۔ دوسری جانب سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سپلائی محدود ہے اور قدر گرنے کا امکان نہیں۔

ڈالر کا استعمال کم ہونے یا De dollarization کے نتیجے میں سونے کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔

پاکستان میں سونے کی قیمت پہلے ہی 3 لاکھ 57 ہزار روپے فی تولہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ ٹیرف جنگ کے دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔

اگر چین اور امریکہ کی ٹیرف جنگ نے طول پکڑا تو سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔
مزیدپڑھیں:قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن

متعلقہ مضامین

  • رانا ثناء اللہ نے مودی کی سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کی کوشش کو “پاگل پن” قرار دیدیا
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • “میں تمہیں مار دوں گا” بھارتی ہیڈکوچ کو قتل کی دھمکی
  • پہلگام حملہ: مودی کا سخت ردعمل، حملہ آوروں کو “تصور سے بھی بڑی سزا” دینے کا اعلان
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • بیجنگ میں خصوصی پروگرام “شی جن پھنگ کی اقتصادی سوچ  کا مطالعہ ” کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد 
  • “ملتان سلطانز کی قیمت بڑھائی تو نہیں خریدوں گا”
  • ‘میں روزانہ 5 لیٹر دودھ پیتا ہوں’، ایم ایس دھونی کے حیرت انگیز انکشافات
  • چائنا میڈیا گروپ کی جانب سے “گلوبل چائنیز کمیونیکیشن پارٹنرشپ”میکانزم کا قیام
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ’ارتھ ڈے‘ منایا جا رہا ہے