سیریز ہارے ہیں، کسی ٹورنامنٹ سے آؤٹ نہیں ہوئے: بولنگ کوچ
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بولنگ کوچ اظہر محمود نے کہا ہے کہ قومی ٹیم کے فاسٹ بولرز کی کارکردگی انفرادی طور پر تو اچھی نظر آ رہی ہے لیکن بحیثیت بولنگ یونٹ وہ وہی تسلسل برقرار نہیں رکھ پا رہے انہوں نے کہا کہ اگر تینوں فاسٹ بولرز ایک ساتھ پرفارم کریں تو ٹیم کو زیادہ فائدہ ہوگا ایک میچ میں ایک بولر اچھی بولنگ کرتا ہے تو دوسرا اسی سطح پر کارکردگی نہیں دکھا پاتا اور یہی وہ چیز ہے جو ٹیم کی مجموعی پرفارمنس پر اثر ڈال رہی ہے اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ حالیہ میچ میں حارث رؤف نے شاندار بولنگ کی لیکن دیگر بولرز اس طرح کی کارکردگی نہیں دکھا سکے ٹیم میں زیادہ تر نوجوان کھلاڑی شامل ہیں اور اس سیریز میں کھلاڑیوں کی فائٹ اسپرٹ سب کے سامنے آ چکی ہے حالانکہ ہم سیریز ہار چکے ہیں لیکن کسی ٹورنامنٹ سے باہر نہیں ہوئے انہوں نے کہا کہ ماڈرن ڈے کرکٹ میں اب 160 کا اسکور کافی نہیں ہوتا بلکہ 180 سے 200 پلس کے ہدف کا حصول ضروری ہو چکا ہے اور اسی کے مطابق حکمت عملی بنانا ہوگی اظہر محمود کا کہنا تھا کہ شاہین آفریدی بدقسمت رہے کیونکہ ان کی گیند پر کئی بار ٹاپ ایج لگا لیکن وکٹ حاصل نہیں ہو سکی انہوں نے تسلیم کیا کہ نیوزی لینڈ کا دورہ کئی چیلنجز سے بھرا ہوا تھا تاہم کوشش ہوگی کہ آخری میچ جیت کر سیریز کو 3-2 پر ختم کریں ان کا مزید کہنا تھا کہ بیٹرز کو نیوزی لینڈ میں باؤنس اور پیس کا سامنا تھا اور آج کل کی کرکٹ میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ باؤنس دیکھنے کو مل رہا ہے بولنگ کوچ نے کہا کہ بیٹرز کو سمجھایا گیا ہے کہ پیس کے خلاف لڑنے کے بجائے اسے اپنے حق میں کیسے استعمال کرنا ہے اسی طرح بولرز کو بھی بتایا گیا ہے کہ نیوزی لینڈ کی کنڈیشنز میں کس طرح کی لینتھ رکھنی چاہیے انہوں نے کہا کہ ابرار احمد کو اب تک آٹھ میچز ملے ہیں جو کسی بھی بولر کے تجربے کے لیے زیادہ نہیں ہوتے مگر انہیں مزید مواقع دیے جائیں گے تاکہ وہ بہتر کارکردگی دکھا سکیں
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
’مدرسے کے ظالموں نے میرے بچے کو پانی تک نہیں دیا‘: سوات کا فرحان… جو علم کی تلاش میں مدرسے گیا، لیکن لاش بن کر لوٹا
مدین(نیوز ڈیسک) مدین کے پہاڑوں سے اُٹھنے والی ایک معصوم آواز، چودہ سالہ فرحان… جسے والدین نے دین کی روشنی کے لیے سوات کے چالیار مدرسے بھیجا، واپس آیا تو ایک بےجان جسم تھا، چہرے پر نیلے نشانات، کمر پر تشدد کے زخم، اور آنکھوں میں زندگی کے بجائے سناٹا تھا۔
تین دن پہلے پیش آنے والا یہ لرزہ خیز واقعہ آج بھی والد ایاز کے لفظوں میں سسک رہا ہے۔ فرحان کے والد نے بتایا، ’میں نے مہتمم صاحب سے ویڈیو کال پر بات کی، کہا کہ بچہ شکایت کر رہا ہے، تکلیف میں ہے… مگر مہتمم نے یقین دہانی کروائی کہ آئندہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔‘
والد کے مطابق، شام ساڑھے چھ بجے دوبارہ رابطہ ہوا۔ مہتمم نے اطمینان سے کہا، ’بچہ ٹھیک ہے، خوش ہے۔‘ باپ نے دل کو تسلی دی کہ شاید بیٹے کا دل لگ گیا ہے، مگر اسی وقت وہ بچہ کسی کونے میں ظلم کے پنجوں میں تڑپ رہا تھا۔
ایاز کہتے ہیں، ’میں نے کہا بچہ تھوڑی بہت چھیڑ چھاڑ کرتا ہے، مگر پھر سنبھل جاتا ہے… شاید اسی وقت اُن درندوں نے اُسے مار ڈالا تھا۔‘ آنکھوں میں نمی اور آواز میں درد لیے وہ بولے، ’میرے فرحان کو پانی تک نہیں دیا گیا… وہ پیاسا مار دیا گیا!‘
فرحان کے چچا نے جب مہتمم کو فون پر بتایا کہ بچے نے ناپسندیدہ رویے کی شکایت کی ہے، تو مہتمم نے قسمیں کھا کر سب الزامات جھٹلا دیے۔ چچا کے مطابق، ’مہتمم کا بیٹا بھی قسمیں کھا رہا تھا… وہی جس پر میرے بھتیجے کو نازیبا مطالبات کرنے کا الزام ہے۔‘
یہ محض ایک بچے کی موت نہیں، ایک خواب کی، ایک نسل کی، اور والدین کے یقین کی موت ہے۔ تین سال سے فرحان اس مدرسے میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ہر ماہ پانچ ہزار روپے دے کر والدین یہ سمجھتے رہے کہ ان کا بیٹا دین سیکھ رہا ہے۔ مگر مدرسے کی چھت تلے وہ ظلم سیکھ رہا تھا، مار سہہ رہا تھا، اور آخرکار خاموشی سے دم توڑ گیا۔
پولیس نے دو اساتذہ سمیت 11 افراد کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ مرکزی ملزم مہتمم تاحال مفرور ہے۔ مدرسے کے طلبہ نے انکشاف کیا ہے کہ وہاں مار پیٹ معمول کی بات ہے، اور کئی بچے خوف کے عالم میں جیتے ہیں۔ مقتول بچے کے نانا نے الزام عائد کیا ہے کہ فرحان سے جنسی خواہش کا تقاضا کیا جا رہا تھا، جس پر اُس نے مزاحمت کی۔
واقعے کے بعد خوازہ خیلہ بازار میں عوام کا جم غفیر نکل آیا۔ ہاتھوں میں فرحان کی تصویر، زبان پر ایک ہی نعرہ — ”قاتلوں کو سرعام پھانسی دو!“
ضلعی انتظامیہ نے مدرسے کو سیل کر دیا ہے، مگر سوال اب بھی باقی ہے — کتنے فرحان، کتنی ماؤں کی گودیں، کتنے والدوں کی امیدیں، اس نظام کے درندوں کی بھینٹ چڑھیں گی؟
یہ صرف فرحان کی کہانی نہیں… یہ ہر اُس معصوم کی کہانی ہے جو تعلیم کے نام پر کسی وحشی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
Post Views: 3