قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی ) کے اجلاس میں ٹھیکیداروں کو ترقیاتی کاموں کیلیے بغیر لیب رپورٹس کے 11 ارب روپے دیے جانے کا  انکشاف ہوا ہے۔

پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی صدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا، اجلاس میں وزارت ہاوسنگ اینڈ ورکس کے مالی سال 2022-23 اور 2023-24 کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔

پی اے سی نے چینی کی صورتحال پر رپورٹ پیش نہ کرنے پر اظہار برہمی کیا، چیئرمین پی اے سی  نے کہا کہ وزارت تجارت اور صنعت سے چینی کی قیمتوں، برآمد اور درآمد کی رپورٹ طلب کی تھی۔

پی اے سی نے تین وفاقی سیکریٹریز کو طلب کر لیا، سیکرٹری صنعت، سیکرٹری تحفظ خوراک ار سیکرٹری تجارت کو طلب کر لیا۔

ہاؤسنگ اینڈ ورکس سے متعلق آڈٹ اعتراضات کے جائزے کے دوران گرانٹ کی رقم لیپس ہونے کے معاملے پرسیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے کہا کہ ہمارے پاس فائنل ریلیز تاخیر سے آئی۔

وزارت خزانہ کی جانب سے پیسے تاخیر سے جاری کرنے پر کمیٹی کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا، نوید قمر نے کہا کہ یہ تو تماشہ ہوا کہ 26 جون کو پیسے دیں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے خزانہ حکام سے استفسارکیا کہ آپ نے لیپس کے لیے پیسے بھیجے تھے؟ نوید قمر نے کہا کہ سیکرٹری فنانس اور سیکرٹری پلاننگ کو بلا کر پوچھیں کہ طریقہ کار کو ٹھیک کرو، کمیٹی نے معاملہ آئندہ کے لئے موخر کردیا۔

پی اے سی  نے پاک پی ڈبلیو ڈی سے متعلق استفسار کیا، سیکرٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کا فیصلہ کابینہ نے کیا تھا،اس پر حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔

نوید قمر  نے سوال کیا کہ پاک پی ڈبلیو ڈی ابھی تک فعال ہے؟سیکرٹری ہاؤسنگ نے جواب دیا کہ پی ڈبلیو ڈی کی اسکیمیں صوبوں، محکموں اور سی ڈی اے کے پاس چلی گئیں ہیں۔

جنید اکبر خان نے کہا کہ اتنا کرپٹ ترین ادارہ میرا نہیں خیال کوئی اور ہو گا، اتنی زیادہ کرپشن ایک ادارے میں کیوں ہوتی ہے؟ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ کسی محکمے کا مکمل پرفارمینس آڈٹ نہیں ہوا۔

اجلاس میں ملک بھر میں 952 ترقیاتی کاموں کیلئے ٹھیکوں میں طے کوالٹی کا کام نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ تو ملی بھگت کا کیس ہے جس میں اربوں روپے جاری ہوگئے اور  رپورٹس کا بروقت جائزہ نہیں کیا گیا۔

سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو مطلوبہ کام مکمل نہ ہونے پر کمیٹی اراکین نے برہمی کا اظہار کیا، اجلاس کے دوران کمیٹی نے ایک مہینے میں اس آڈٹ اعتراض کا جواب جمع کروانے کی ہدایت کی اور کہا کہ متعلقہ افسران کیخلاف کارروائی کرکے ہمیں جواب جواب جمع کروایا جائے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ڈبلیو ڈی اینڈ ورکس نے کہا کہ پی اے سی

پڑھیں:

پاسپورٹ دفاتر سے ہزاروں پاسپورٹس چوری ہونے کا انکشاف

اسلام آباد – پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ملک بھر سے ہزاروں سرکاری پاسپورٹس کے چوری ہونے کا حیران کن انکشاف سامنے آیا ہے، جس پر کمیٹی ارکان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اجلاس کی صدارت طارق فضل چوہدری نے کی، جہاں ڈائریکٹر جنرل پاسپورٹس مصطفیٰ قاضی نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک کے 25 مختلف پاسپورٹ دفاتر سے گزشتہ چند سالوں کے دوران ہزاروں پاسپورٹس چوری ہوئے۔

ڈی جی پاسپورٹس کے مطابق، چوری شدہ تمام پاسپورٹس کو سسٹم میں بلاک کر دیا گیا ہے، اور ان کی تجدید ممکن نہیں۔
آڈٹ حکام نے انکشاف کیا کہ صرف ایبٹ آباد سمیت چند دفاتر سے ہی 32,674 پاسپورٹس چوری ہوئے۔

پاسپورٹس کا ممکنہ غلط استعمال، کمیٹی کی شدید تشویش

اس موقع پر کنوینر طارق فضل چوہدری نے معاملے کو انتہائی تشویشناک قرار دیا اور کہا کہ موجودہ سیکیورٹی صورتحال میں ان پاسپورٹس کا غلط استعمال قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

ڈی جی پاسپورٹس نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ کچھ غیر ملکی شہری چوری شدہ پاسپورٹس کے ذریعے پاکستان سے سعودی عرب گئے تھے، جہاں وزارت داخلہ کی مدد سے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
سعودی حکام نے ان افراد کی شناخت افغان شہریوں کے طور پر کی، اور انہیں ملک بدر کر دیا۔

پاسپورٹ سسٹم کی ڈیجیٹائزیشن مکمل، فراڈ اب مشکل: ڈی جی

ڈی جی مصطفیٰ قاضی کے مطابق، اس واقعے کے بعد نادرا اور پاسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کا پورا نظام مکمل ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے، جس کی بدولت اب کسی قسم کی جعل سازی یا چوری کا امکان انتہائی محدود ہو چکا ہے۔

کمیٹی نے ڈی جی پاسپورٹ سے معاملے کی تفصیلی انکوائری رپورٹ جلد پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

نیو دہلی ہائی کمیشن میں مشینری خریدی، مگر 18 سال بعد بھی غیر فعال

اجلاس کے دوران وزارت داخلہ کے آڈٹ اعتراضات پر بھی غور کیا گیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ پاکستان ہائی کمیشن نیو دہلی نے 54 ہزار ڈالر کی لاگت سے مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ (MRP) مشینری خریدی، مگر 18 سال گزرنے کے باوجود یہ نظام کام شروع نہ کر سکا۔

اس حوالے سے سیکرٹری داخلہ خرم آغاز نے وضاحت دی کہ مشینری خریدنے کے فوراً بعد بھارت نے پاکستانی عملے کو واپس بھیج دیا، کیونکہ دہلی حکومت کسی بھی آن لائن سسٹم کی اجازت نہیں دیتی۔

پاسپورٹ حکام نے مزید بتایا کہ نیو دہلی میں حالات ایسے ہیں کہ وہاں وائی فائی تک ٹھیک سے نہیں چلتی۔ انٹرنیٹ لگانے کی صورت میں ڈیٹا لیک ہونے کا خدشہ رہتا ہے، جس کے باعث رابطے کے لیے صرف ان کا اپنا نیٹ ورک استعمال کیا جاتا ہے۔

اب مشینری واپس لانے کا فیصلہ

کمیٹی کنوینر نے سوال اٹھایا کہ مشینری خریدنے سے قبل تحقیقی جائزہ کیوں نہیں لیا گیا؟
پاسپورٹ حکام نے تسلیم کیا کہ موجودہ حالات میں مشینری کا استعمال ممکن نہیں رہا۔ انہوں نے بتایا کہ صرف 71 پاسپورٹس جاری کیے گئے، اور اب واحد حل یہ ہے کہ مشینری کو واپس پاکستان منتقل کر لیا جائے۔

کمیٹی نے اس تجویز کو منظور کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ مشینری جلد از جلد واپس لائی جائے۔ اس موقع پر آڈٹ حکام کی سفارش پر متعلقہ آڈٹ پیرا سیٹل کر دیا گیا۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • ملک بھر میں پاسپورٹ دفاتر سے ہزاروں پاسپورٹ چوری ہونے کا انکشاف
  • پاسپورٹ دفاتر سے ہزاروں پاسپورٹس چوری ہونے کا انکشاف
  • این ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات نے بارشوں کی الگ الگ پیش گوئی کی، سینیٹ کمیٹی میں انکشاف
  • کراچی، 11 سالہ بچی کی پراسرار ہلاکت، گلا گھونٹ کر قتل کیے جانے کا انکشاف
  • 20 سال میں ریلوے کا زوال، ٹرینوں کی تعداد آدھی رہ گئی، سیکرٹری ریلوے کا انکشاف
  • محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ خیبر پختونخوا میں کروڑوں کی بےقاعدگیوں کا انکشاف
  • پنجاب میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کیلیے سخت فیصلہ، سیپٹک ٹینک بنانا لازمی قرار
  • بلوچستان کے محکمہ ریونیو میں سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف
  • پنجاب ترقیاتی ورکنگ پارٹی نے ترقیاتی سکیموں کیلئے 134 ارب منظور کر لئے 
  • بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس، بے ضابطگیوں کی نشاندہی